پس منظر
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ⇐ تقسیم پاکستان و ہند کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کچھ عرصے تک ہندوستان کا ریزرو بینک آف انڈیا ہی پاکستان کے مرکزی بینک کے بیشتر فرائض سر انجام دے گا۔ تاہم کیم جولائی 1948 ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا با قاعدہ قیام عمل میں لایا گیا اور ملک کے مرکزی بینک کے جملہ فرائض اور اختیارات اسے تفویض کر دیئے گئے۔ اس وقت اس کی ملک بھر میں صرف تین شاخیں تھیں یعنی لاہور، کراچی اور ڈھا کہ میں۔
فرائض و اختیارات
اپنے فرائض کی بجا آوری اور اختیارات کے استعمال کے لئے اسٹیٹ بینک نے تین شعبے قائم کئے ہوئے ہیں۔
- شعبے مندرجہ ذیل ہیں
- شعبہ بینکاری
- شعبہ اجرا
- شعبہ ا کھینچ کنٹرول
نیشنل بینک آف پاکستان
نومبر 1949ء میں یہ بینک حکومت اور عوام کے مشترکہ سرمایہ سے بنیادی طور پر پٹ سن کی صنعت کو سنبھالا دینے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کپاس کے شعبے کی مالی بنیادوں کی مضبوطی کا کام بھی اسی بینک کے سپرد کیا گیا ۔ 1952ء میں اس بینک کو اسٹیٹ بینک کے ایجنٹ کے فرائض بھی تفویض کر دیئے گئے ہیں۔
کار کردگی و فرائض
بینک وہی فرائض سرانجام دیتا ہے جو کسی بھی تجارتی بینک کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اسٹیٹ بینک کے ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ خاص طور پر کپاس کی تجارت کے لئے مالیات کی فراہمی اس کا اہم فریضہ ہے۔ مزید بر آں یہ سرکاری ونجی تجارت کے لئے بھی حصص کی خرید وفروخت اور مالیات کی فراہمی کا کام کرتا ہے۔ اپنے قیام سے لیکر اب تک اس بینک کی 1656 سے زائد شاخیں قائم ہو چکی ہیں جن میں سے 38 غیر ممالک میں کام کر رہی ہیں۔ 2006ء کے اعداد د شمار کی رو سے بینک کی امانتوں کی مالیت 501872 ملین روپے اور بینک کی طرف سے جاری شدہ قرضے 316110 ملین روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ 2006ء کے کیلنڈر سال میں بینک کا منافع 26311 ملین روپے تھا۔
مالی حالت اور انتظامی ڈھانچہ
بینک کا سرمایہ 7091 ملین روپے ہے۔ اس سمیت بینک کا کل گردشی سرمایه 635133 ملین روپے سے زائد ہے۔ بینک کا انتظام ایک ایگزیکٹو بورڈ کے سپرد ہے جو ایک صدر، ایک چیف ایگزیکٹو اور وفاقی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ 4 دیگر مبران پر مشتمل ہے۔
حبیب بینک لمیٹڈ
تمام اور موجودہ انتظامی ڈھانچہ
تقسیم برصغیر سے چھ سال قبل یعنی 1941 ء میں حبیب بینک کا قیام ایککی حیثیت سے عمل میں لایا گیا اور قومیائے جانے تک اسکی یہی حیثیت برقرار رہی۔ بہر حال 1974 ء کے بعد سے یہ باقی بینکوں کی طرح قومی تحویل میں اور پاکستان بینکنگ کونسل کے زیر انتظام کام کر رہا تھا۔ یہی کونسل اس کے انتظامی بورڈ کی تشکیل کرتی ہے جو وفاقی حکومت کے نامزد کردہ پانچ مبروں پر مشتمل ہے۔ جون 2002 ء میں نجکاری .کمیشن نے اس کے 51 فیصد کا حصہ دار پرائیویٹ سیکٹر کو کر دیا۔
مالی صورتحال اور کارکردگی
بنیادی ایسٹ 565 بلین روپے ہے۔ آج کل بینک کے امانت فنڈ وغیرہ کی مالیت 451 بلین 45 ملین روپے سے زائد ہے۔ ایک کی 14980 شاخوں میں 5 غیرممالک میں کام کرہی ہیں جب ایک دور می و برآمدی تجارت کا۔ ا تجارت کا سب سے بڑا سرمایہ فراہم کنندہ ہے۔ چنانچہ صرف 2007 ء میں ہی بینک نے 329 بلین روپے کے قرضے کئے اس قرضے میں سے 13.3 بلین زرعی مقاصد کے لئے اور بقیہ چھوٹے بڑے ہونٹوں کے لئے دیئے گئے۔ جبیب حبیب بینک مضاربہ کے منافع کی تقسیم کی فراہم کئے ام بینک مالیاتی بیاتی خدمات لینڈ کے بورڈ نے 20 ستمبر 17 منظوری کا اعلان کیا ج 130 روپے فی مضاربہ سر ٹیکیٹ تھا۔
قیام اور موجودہ انتظامی ڈھانچہ
وا کند یک نڈ بینک نے 7 نومبر 1959ء کو ایک فہرستی بینک کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ کیم جنوری 1974 ء کو تو میائے جانے کے بعد اسے کے بعد اسے پاکستان بینکنگ کونسل کی تحویل میں دیدیا گیا۔ بعد ازاں 30 دسمبر 1974ء کو کامرس اس بینک بورڈ آف ڈائر یکٹر زختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ میں نم کر دیا گیا۔ قومیائے جانے کے بعد اس کا ا وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ایگزیکٹو بورڈ بنا دیا گیا جو ایک صدر اور چار ممبران پر ان پر مشتمل ہے۔ یہ چار ممبران بینک کے ہی 4 سینٹر منتظمین میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔
مالی صورتحال اور کار کردگی
1980 ء میں بینک کا منظور شدہ سرما۔ 198ء میں بینک کا منظور شدہ سرمایہ 9.6 کروڑ روپے تھا جبکہ اس کا ادا شدہ سرمایہ 5.8 کروڑ روپے کی مالیت کے 5,806,000 حصص پر مشتمل تھا جن میں ۔ ن میں سے ہر ایک کی مالیت دس روپے تھی ۔ 2007 ء میں بینک کے کل اثاثہ جات تقریباً 550 بلین روپے کے لگ بھگ بھگ ہو گئے ہیں سال 2007 ء تک بینک کی کل 1096 زرعی تجارتی وصنعتی سرمایہ کاری اور قرضوں کے ساتھ ساتھ کم برانچوں میں سے 17 بیرون ممالک کام کر رہی ہیں۔ یہ بینک زرعی تر لاگت کے مکانوں کی تعمیر اور طلباء کی بہبود کے لئے بھی قرضہ فراہم کرتا۔ فراہم کرتا ہے۔ بینک کی کل سرمایہ کاری سال 2006 ء کے مطابق 104 بلین روپے ہے۔
مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ
قیام اور موجودہ انتظامی ڈھانچہ
مسلم کمرشل بینک کا قیام تقسیم برصغیر سے صرف ایک ماہ قبل یعنی جولائی 1947ء میں کلکتہ کے مقام پر عمل میں آیا۔ تقسیم کے بعد اس کا صدر دفتر کلکتہ سے چٹا گانگ فتقل کر دیا گیا۔ جہاں اس نے اگست 1948ء میں اپنا کام شروع کر دیا۔ بعد ازاں اگست 1958ء میں اسے چٹا گانگ سے بھی منتقل کر کے کراچی میں رجسٹرڈ کرالیا گیا۔ جنوری 1974ء میں قومیائے جانے کے بعد اس سال ہی جون میں پریمیئر بینک لمیٹڈ کا انضمام بھی اسی بینک میں کر دیا گیا۔ قومیائے جانے کے ایکٹ مجریہ 1974 ء کے تحت ہی اس بینک کا بورڈ آف ڈائریکٹرز توڑ کر ایک ایگزیکٹو بورڈ تشکیل دیا گیا جو ایک صدر اور بینک کے چار سینئر ایگزیکٹوز پر مشتمل ہے۔ سال 2002ء میں اس بینک کی نجکاری عمل میں آئی جو برانچیں غیر منافع بخش تھیں انہیں بند کر دیا گیا۔ بینک کا منظور شدہ سرمایہ 5.4 کروڑ روپے ہے جبکہ اس کا ادا شدہ سرمایه 2.7 کروڑ روپے ہے اور دس دس کروڑ روپے کے 27 لاکھ حصص پر مشتمل ہے۔ سال 2007 ء کے مطابق بینک کی 1020 شاخیں پاکستان میں اور 6 غیر ممالک میں کام کر رہی ہیں جن کے پاس مجموعی طور پر 280 بلین روپے سے زائد امانتیں جمع ہیں۔ مسلم کمرشل بینک کے کل اثاثہ جات سال 2007 ء کے مطابق 300 بلین روپے ہیں۔
الائیڈ بینک لمیٹڈ
قیام اور موجودہ انتظامی ڈھانچہ
الائیڈ بینک در اصل آسٹریلیا بینک کا ہی نیا نام ہے جو 1942 ء میں قائم کیا گیا تھا۔۔ جنوری 1974ء میں تمام بینکوں کے قومیائے جانے کے بعد اسی سال یکم جولائی کو انتظامی سہولتوں اور کفایتوں کے پیش نظر و تین اور بینک یعنی سرحد بینک لمیٹڈ، لاہور کمرشل بینک لمیٹڈ اور پاک بینک لمیٹڈ بھی آسٹریلیشیا بینک میں خم کر دیئے ۔ گئے اور بینک کا نام الائیڈ بینک آف پاکستان رکھ دیا گیا۔ مرکزی طور پر بینک کا انتظام ایک ایگزیکٹو بورڈ کرتا ہے جو ایک صدر صد چیف ایگزیکٹواور چار دوسرے ممبران سینئر ایگزیکٹو پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان سب کو وفاقی حکومت نامزد کرتی ہے۔ سال 2002 ء میں اس بینک کی بھی نجکاری عمل میں آئی۔ اس طرح اس کی انتظامیہ اور انتظامی امور کافی حد تک تبدیل ہو گئے ۔ سال 2006 ء میں بینک کے کل اثاثہ جات 252027 ملین روپے تھے جبکہ کل ذمہ داریان 234339 ملین روپے تھیں ۔ بینک نے اپنی شاخوں میں اضافہ کر کے جہاں 2006 ء کے مالی سال میں 206031 ملین روپے سے زائد امانتیں حاصل کیں وہیں دیہاتی اور قصباتی عوام کے لئے روزگار کے مواقع بھی نے فراہم کئے۔ سال 2006ء میں بینک کی طرف سے جاری کئے گئے کل قرضوں کی مالیت تقریباً 19050 ملین تھی ۔ بینک ایک جاری کرنے کے علاوہ نچلے طبقے کو مختلف نوعیت کے قرضے فراہم کرنے کا کام بھی سنبھالا ہوا ہے ۔ 2006ء میں ہی بینک نے مجموعی طور پر 6661 ملین روپے منافع کمایا۔
زرعی ترقیاتی بینک آف پاکستان
قیام اور موجودہ انتظامی ڈھانچہ
زرعی شعبے کی مالی معاونت کے لئے علی الترتیب 1952ء اور 1957 ء میں دو ادارے ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن اور ایگریکلچرل بینک آف پاکستان قائم کئے گئے تھے۔ بعد ازاں انتظامی سہولتوں میں بہتری اور استعداد کار میں اضافے کی طرف سے 1961 ء میں ان دونوں اداروں کو ختم کر دیا گیا اور ایک نئے بینک کی شکل دید کیا گئی۔ جس کا نام ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان رکھا گیا۔ اس مقصد کے لئے 1961ء کا ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بینک آرڈینس جاری کیا گیا جس کی مختلف واقعات اور ہدایات کے تحت بارہ مہران پرمشتمل بورڈ آف ڈائر یکٹرز اس کا انتظام سنجانتا ہے اور ایک کا چیف ایگزیکٹو بورڈ کا چیئرمین ہوتا ہے۔ میران میں وزارت خزانہ وزارت زراعت اور سٹیٹ بینک کا ایک ایک نمائندہ، چاروں صوبائی حکومتوں کا ایک ایک نمائندہ اور تمام صوبوں کی طرف سے وفاقی حکومت کا نا جزو کردہ ایک ایک نماند و شال ہوتا ہے۔ ایک کا حصہ وقت اسلام آبادمیں او علاقائی دفتر کراچی میں ہے۔ یہ مرکزی دفاتر 341 شاخوں کے نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔
مالی صورتحال اور کار کردگی
زرعی ترقیاتی ایک کامل شور شده سرمای 25 ملین روپے ہے۔ ۔ بینک زرعی معیشت کے مختلف شعبوں کے لئے اتنا پیا نے پرمختلف النوع قرضے فراہم کرتا رہتا ہے۔ صرف 08-2007 ء کے مالی سال میں مختلف شعبوں کو اس بینک کی جانب سے 3956117 ملین روپے سے زائد رقم کے قرضے فراہم کئے گئے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "اسٹیٹ بینک آف پاکستان" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ