ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق ⇐ ایک ترقی یافتہ ملک کی شناخت یہ ہے کہ وہاں بنیادی ضروریات کی فراوانی ہوتی ہے۔ جبکہ ایک غریب یا ترقی پذیر ملک میں عوام بنیادی سہولتوں کیلئے ترستے رہتے ہیں۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق

دیہات

ترقی یافتہ ممالک میں شہر زیادہ اور دیہات کم ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں شہر اور قصبے کم اور دیہات کی کثرت ہوتی ہے جہاں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور زرعی آلات کی کمی کے باعث کسان اپنی محنت و مشقت پر انحصار کرتے ہیں۔

صحت کے اصولوں کی پاسداری

ترقی یافتہ ممالک میں ماحول صاف ستھرا ہوتا ہے ۔ حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری ہوتی ہے اور شرح اموات بہت کم ہوتی ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں حالات انکے برعکس ہوتے ہیں۔ آب و ہوا خالص نہ ہونے کے باعث بیماریاں عام ہوتی ہیں اور شرح اموات زیادہ ہوتی ہے۔

توانائی کے ذرائع

ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کے ذرائع وافر ہوتے ہیں اور جا بجا صنعتوں کا بال بچھا ہوتا ہے۔ علم و تحقیق کے شعبوں میں حیرت انگیز پیشرفت ہوتی ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی ایجادات سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

شرح خواندگی

ترقی یافتہ ممالک میں شرح خواندگی 90 سے 99 فیصد ہوتی ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں شرح خواندگی بہت کم ہونے کی وجہ سے لوگ علم و ہنر میں بہت پیچھے رو جاتے ہیں۔

تکنیکی مہارت

خوراک کی کمی کے ساتھ ساتھ توانائی کے ذرائع بہت قلیل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی، پانی، تکنیکی مہارت اور ذرائع حمل و نقل کا فقدان ہمیشہ صنعتی ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک کے مسائل 

 ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے

ملکی پیداوار سے کہیں زیادہ آبادی میں تیزی سے اور

مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

جس کی وجہ سے وسائل کی تشویشناک حد تک کی سے بہت سے مسائل پیدا ہور ہے ہیں ۔

ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ

ملکی آمدنی کے مقابلے میں عام اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ملکی ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بڑے بڑے قرضے حاصل کئے جاتے ہیں۔

ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ

جمہوریت

جن ترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں ان پڑھ اور جاہل عوام پیشہ ور اور ہوشیار سیاست دانوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور یوں اپنے لئے صحیح قیادت منتخب نہیں کر پاتے ۔

فلاح و بہبود کے منصو بے

نا اہل قیادت اور سیاست کا عدم استحکام رشوت بد عنوانی اقر با پروری اور دہشت گردی کو جنم دیتا ہے۔ فلاح و بہبود کے منصو بے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے اور عام لوگوں کی حالت بالکل نہیں سدھرتی ۔

پسماندگی کا شکار

چند لوگ راتوں رات امیر ہو جاتے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت مفلسی اور پسماندگی کا شکار رہتی ہے۔ جس طرح مالی وسائل سے محروم افرادزندگی کی دوڑ میں حصہ لینے کیلئے مالدار لوگوں کی معاونت چاہتے ہیں۔

مشینری آلات

اسی طرح غریب ممالک بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کیلئے بیرونی امداد کا سہارا تلاش کرتے ہیں۔ یہ امداد کرنسی ( ڈالر پاؤنڈ وغیرہ ) ساز و سامان اسلحہ مشینری آلات ٹیکنالوجی انتظامی امور یا خدمات کی صورت میں ملتی ہیں تا کہ وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں اور اپنے ملک سے غربت افلاس بھوک جہالت اور بیماری کا خاتمہ کر سکیں۔

توسیع پسندانہ عزائم

یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے دی گئی امداد کے پس پشت بہت سے اپنے مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ امداد برائے نام ہوتی ہے۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے سیاسی مقاصد اور توسیع پسندانہ عزائم میں ترقی پذیر ممالک ان کے آلہ کار بن جائیں۔

غریب ملکوں کے مسائل

اصل زر کے ساتھ ساتھ سود سمیت قرضوں کی واپسی کی جاتی ہے۔ اس طرح ترقی پذیر ممالک بری طرح سے قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ غریب ملکوں کے مسائل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔

غریب ملکوں کے مسائل

حکیم الامت علامہ اقبال

حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی اولین کتاب ” الاقتصاد” میں ارشاد فرمایا تھا کہ افراد اور اقوام کیلئے غربت ” ام الخبائث ہوتی ہے۔ گویا غربت سے بڑھ کر کوئی لعنت نہیں ہے کیونکہ غربت کے ماحول میں مذہب اور ضمیر کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی حقیقت میں کوئی معنی نہیں رکھتی ۔

روزگار کی سہولتیں

غربت کا مارا ہوا انسان تنگ آکر اپنی ۔ عزت نفس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ غربت کا خاتمہ ہوتا کہ لوگ تعلیم، صحت اور صفائی جیسی ضروریات سے مستفید ہوسکیں ۔ اچھی اور باوقار زندگی کے مواقع میسر ہوں، کاروبار اور روزگار کی سہولتیں وافر ہوں تا کہ صحیح معنوں میں آزادی کی فضا قائم ہو اور آزاد فضاؤں میں سانس لینے والا ہر انسان بنیادی حقوق سے محروم نہ ہونے پائے۔

ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کے لوازمات

ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کی ترویج کیلئے لازمی ہے کہ تعلیم عام ہو کیونکہ محض تعلیم ہے جس کی بدولت لوگوں کے ذہن میں انسانی حقوق کا شعور جنم لیتا ہے۔ ان پڑھ لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح جیتے ہیں۔

انسانی حقوق کے مفہوم

وہ انسانی حقوق کے مفہوم سے آشنا ہوتے ہیں نہ ان کے تحفظ اور بقا کیلئے تگ و دو کر سکتے ہیں۔ چنانچہ پریس کے علاوہ عوام کے شعور کا بیدار ہونا بہت ضروری ہے۔

معاشرے میں دینی انتشار

غربت افلاس، بھوک بیماری اور روز افزوں گرانی سے نجات حاصل ہوتا کہ لوگ اچھے اور مثبت کام سر انجام دے سکیں۔ معاشرے سے نا انصافی اور اونچ نیچ کا خاتمہ ہونا چاہیے تا کہ معاشرے میں دینی انتشار کی بجائے صحت مندانہ فضا قائم ہو سکے۔

سیاسی عدم استحکام

سیاسی نظام مستحکم ہو کیونکہ تیزی سے بدلنے یا کمزور حکومتیں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی توجہ انسانی حقوق کی طرف مبذول نہیں ہو سکتی ۔

ضمانتیں

سیاسی جماعتوں کی کمزوری مارشل لا یا ہنگامی حالت کے نفاذ کا باعث بنتی ہے اور داخلی شورش اور بدامنی کی حالت میں اگر ہنگامی حالت کا اعلان ہو جائے تو لامحالہ ہائیکورٹ میں رٹ کا حق اور شہری آزادی کی دوسری تمام ضمانتیں سلب ہو جاتی ہیں ۔ اس طرح انسانی حقوق کی پوری بساط ہی لپیٹ دی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی

ترقی کی رفتار تیز ہو کیونکہ آج کل کمپیوٹر اور ایٹمی توانائی کا دور ہے ۔ لہذا جس ملک میں ترقی کی رفتار جتنی سست ہوگی وہاں انسانی حقوق کی پامالی اتنی زیادہ ہوگی ۔

انسانی حقوق کی پامالی

خود انحصاری

خود انحصاری اور اپنی مدد آپ کرنے کا جذ بہ ہو کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کا بھی یہی فرمان ہے کہ خدا ان کی مدد کرتا ہے جواپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔

مسائل

جس قدر ممکن ہو اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی اہلیت پیدا کی جائے ۔ بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے پس جانے والی قومیں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتیں اور اپنی قومی آن اور غیرت کو بے رحم غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں نیلام کر دیتی ہیں۔

حب الوطنی کا جذبہ

عوام کے اندر حب الوطنی کا جذبہ شدت سے بھرا ہو ۔ عوام کا یا اخلاقی فرض ہے کہ حکومت کے تعمیری اور مثبت کاموں میں حتی الوسع اور حتی الامکان ہاتھ بٹائیں ۔

ترقی یافتہ ممالک

ٹیکسوں کے معاملہ میں ذرا بھی بخل یا چوری سے کام نہ لیں کیونکہ ٹیکسوں کے بغیر کوئی ترقی یافتہ ملک بھی اپنی حکومت کا نظام نہیں چلا سکتا ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکسوں کی چوری کا کوئی تصور نہیں اور اس کا ایک ایک فرد اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اپنے حصے کا ٹیکس ایمان داری سے ادا کرتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

…….ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق   ……..

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *