حق رائے دہی ووٹ دینے کا حق

حق رائے دہی ووٹ دینے کا حق ⇐ جمہوریت میں سیاسی حقوق کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ سیاسی حقوق میں سر فہرست رائے دہی کا حق ہے یعنی انتخابات میں ووٹ دینے کا حق نمائندہ طرز حکومت کے رواج کے ساتھ ملک میں سیاسی اداروں کا قیام انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے اور اس انتخاب میں ریاست کے شہری اپنی مرضی سے ووٹ دیتے ہیں ۔

حق رائے دہی ووٹ دینے کا حق

بلا امتیاز رنگ ونسل

ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ ونسل اور مذہب کے انتخاب میں رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس حق کے استعمال میں اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ کا استعمال کرتا ہے۔ حق رائے دہی کے ساتھ ساتھ مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا ہونا بھی ضروری ہے۔

 حق نمائندگی

سیاسی حقوق میں دوسرا حق انتخاب میں بطور امید وارحصہ لینے کا حق ہے۔ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ کسی ادارے کی رکنیت کی اہلیت رکھتا ہو اور اس کی مطلوبہ شرائط کو پورا کرتا ہوتو وہ انتخاب میں بطور امیدوار کے حصہ لے سکتا ہے۔

ریاست

حق نما ئندگی سے مراد یہی ہے کہ ریاست کے ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ ونسل اور مذہب کے عوام کی نمائندگی کا حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لے سکتا ہے اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

 سرکاری ملازمت کا حق

اس سے مراد یہ ہے کہ ریاست کا ہر شہری حکومت کے قائم کردہ اداروں میں کسی بھی عہدے پر فائز ہو سکتا ہے اگر وہ اس عہدے کی مطلوبہ شرائط اور اہلیت پر پورا اترتا ہو۔ رنگ، نسل اور مذہب کی بناء پر کسی شہری کو کسی سرکاری ملازمت پر فائز ہونے سے نہیں روکا جاسکتا اسی لئے آج کل ہر ریاست میں سرکاری عہدوں پر تقرری کیلئے با قاعدہ ایک طریقہ کار رائج ہے جس کے مطابق لوگوں کا انتخاب کر کے انہیں سرکاری عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔

حکومت پر تنقید کرنے کا حق 

حکومت کے ایسے اقدامات پر ہر شہری کو تنقید کرنے کا حق حاصل ہے جو ملک کیلئے نقصان دہ ہیں۔ جمہوریت کے پیش نظر عوامی فلاح و بہبود ہوتی ہے اس لئے ریاست اپنے شہریوں کو یہ حق عطا کرتی ہے کہ جب کبھی حکومت کوئی ایسا کام کرے جو عوام کے حقوق و مفادات کے منافی ہو تو شہری اس پر تنقید کر کے حکومت کو بر وقت مطلع کرے تا کہ حکومت اس کا سدباب کر سکے لیکن بے جا تنقید ملک میں سیاسی خرابی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس تعمیری تنقید سے حکومت کی اصلاح ہو جاتی ہے اور ملک میں صحت مند سیاسی ماحول پیدا ہوتا ہے۔

حق معاش

ملک کی اقتصادی اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ہر شہری کو اجازت ہوتی ہے اور اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق معاش کا ذریعہ اختیار کرے اور ریاست کی طرف سے کوئی رکاوٹ حامل نہ ہو۔ حق معاش سے یہ بھی مراد ہے کہ اگر کسی شہری کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تو ریاست اس کے معاش کا بندو بست کرے اور بیروزگاری کے دنوں میں اسے گزارہ الاؤنس دے۔ فلاحی ریاست کے تصور کے ساتھ یہ بات نمایاں ہو رہی ہے کہ معذور اور بوڑھے افراد کی ضروریات کا بندو بست کرنا حکومت کا فرض ہے۔

حق معاش

 حق تعین اوقات کار 

معاشی حقوق میں شہریوں کا حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ریاست کارکنوں کیلئے مناسب اوقات کار کا تعین کرے اور ان کیلئے ہفتہ وار تعطیل کا بندو بست کرے۔ کارخانوں اور کام کی جگہوں کا ماحول خوشگوار اور بہتر ہو۔ اگر کسی کا رکن سے مقررہ وقت سے زائد کام لیا جائے تو اسے اضافی وقت کا معقول معاوضہ ادا کیا جائے ۔ اس کارکن سے سے کا معاملہ کی دیکھ بھال کیلئے محکمہ محنت و افرادی قوت کام کر رہا ہے۔


یورپ میں انسانی حقوق کا ارتقاء

یورپی مورخین کے مطابق بنیادی حقوق کے نظریہ کی ابتداء پانچویں صدی کے یورپ سے ہوئی جس کی ترویج روم میں ہوئی۔ پانچویں صدی سے گیارہویں صدی تک انسانی حقوق کی تاریخ کا کہیں ذکر نہیں ملتا جو در حقیقت اسلام کا زریں عہد ہے اور اس عہد میں انسانوں کو جو حقوق دیئے گئے اس کا شعور کئی سو سال بعد انسانوں کو اب جا کر ملا ہے ۔ اسلام نے اس وقت انسانی حقوق کا نظریہ دیا جب انسانی شعور کیلئے حقوق کا تصور بالکل اجنبی تھا۔

زینو

یورپی تاریخ کے مطابق تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل قدیم یونان میں فطری حقوق قدرتی حقوق کا نظریہ یونانی مفکر  (زینو) نے پیش کیا۔

نظریہ کے مطابق

اس نظریہ کے مطابق انسانی حقوق کو قانون فطرت پرمبنی قرار دیا گیا۔ یعنی ہرشخص اپنی پیدائش کے ساتھ کچھ حقوق لے کر آتا ہے جن کو ریاست کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے ان کی اہمیت ختم نہیں ہوتی۔

نظریہ کے مطابق

پیدائشی حقوق

انہیں پیدائشی حقوق (بن رائٹس) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ زینو سے قبل یونانی معاشرہ انسانی آزادی اور انسانی مساوات کے اصولوں سے یکسر نا آشنا تھا۔ معاشرہ مختلف طبقات میں منقسم تھا اور افراد کو اپنے طبقہ کے مطابق مراعات اور عزت حاصل تھی۔ اس دور میں سب سے اہم اور بہترین طبقہ فلسفیوں کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں حکمرانی کا اہل تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے بعد فوجیوں کو اہمیت حاصل تھی۔

آقاؤں کے احکامات

تیسرے درجہ پہ کاشتکار تھے اور سب سے کم تر طبقہ غلاموں پر مشتمل تھا جو بد ترین زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اہم کام اپنے آقاؤں کے احکامات کی بجا آوری تھی۔ حتی کہ اس معاشرے میں مرد اور عورتوں کے درمیان بھی مساوات نہیں تھی۔ زینو نے انسانی مساوات کا نظریہ پیش کیا اور انسان کے فطری حقوق کی تشہیر و ترویج کیلئے کام کیا۔

سیسرو

سیسرو نے قانون سازی کے عمل میں مساوات کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کی ۔ اس عہد کے دیگر قانون ساز بھی اس اثر سے دور نہ رہ سکے ۔ اس دور میں بنائے گئے قوانین میں حق ملکیت سے متعلق قوانین میں یہ اثر نمایاں نظر آتا ہے۔

برطانیہ میں انسانی حقوق کی جدوجہد 

برطانیہ میں گیارہویں صدی سے بنیادی حقوق کیلئے جدوجہد کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس صدی کے دوران 1037ء میں ایک منشور کے ذریعہ پارلیمنٹ کے اختیارات کا تعین کیا گیا ۔ حبس بے جا حبیشہ کارپس کا اصول 1188ء میں قائم کیا گیا۔

 میگنا کارٹا

میگنا کارٹا ” جسے بنیادی حقوق کی ایک اہم دستاویز کی حیثیت حاصل ہے 15 جون 1215ء کو جاری ہوا۔

 میگنا کارٹا

توثیق

بعد ازاں میگنا کارٹا کی توثیق کرتے ہوئے 1255ء میں قانونی چارہ جوئی کا قانون پاس کیا گیا۔

عدالتی کارروائی

اس قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو عدالتی کارروائی کے بغیر کسی بھی چیز سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا تھا۔

قید میں رکھنے

اس کے علاوہ عدالت ہی کسی شخص کو قید میں رکھنے یا سزائے موت دینے کی اہل تھی ۔

سولہویں صدی

بنیادی حقوق کیلئے یہ جدو جہد وقت کے ساتھ ساتھ مزید زور پکڑتی گئی اور سولہویں صدی تک بہت سے حقوق قانونی شکل اختیار کر گئے ۔

حبس بے جا کا قانون

سولہ سو اناسی ء میں برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے حبس بے جا کے قانون کا پاس کیا جانا شخصی حق آزادی کی اہمیت تسلیم کئے جانے کے مترادف تھا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو بلا جواز گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا گیا۔

 حقوق کابل

سولہ سو نواسی ء میں حقوق کا بل قانون حقوق کی دستاویز برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کی ۔ اس دستاویز کے ذریعہ بنیادی حقوق کا تعین کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی شخصی آزادی کی وہ تحریک جس کا آغاز کئی سو سال قبل  ہوا تھا پایہ  تکمیل کو پہنچی ۔

 حقوق کابل

 امریکا کا 1776ء کا منشور حقوق

سترہ سو چھہتر ء میں امریکی ریاست ورجینا میں منشور حقوق جاری ہوا اسکی رو سے پریس کی آزادی عدالتی چارہ جوئی کے حق کی ضمانت مذہب کی آزادی جیسے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی۔

 فرانس کا منشور انسانی حقوق 1776ء

سترہ سو چھہتر ء ہی میں فرانس کی قومی اسمبلی نے منشور انسانی حقوق منظور کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں چند ریاستوں نے بنیادی حقوق کو اپنے دسا تیر میں جگہ دی ۔ بیسویں صدی تک بنیادی حقوق بہت سے ممالک کے دسا تیر کا حصہ بن چکے تھے۔

 جرمنی میں بنیادی حقوق کی ابتداء

پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی نے بنیادی حقوق کو اپنے آئین میں جگہ دی اور کئی دوسرے یورپی ممالک  نے اس کی تقلید کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1946ء میں فرانس نے 1789ء کے منشور انسانی حقوق کو اپنے آئین کا حصہ بنایا ۔

بنیادی حقوق

اسی سال جاپان نے بھی بنیادی حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو اپنے دستور میں شامل کیا جبکہ اٹلی نے 1947ء میں اس روایت کی پیروی میں اپنے آئین میں بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کی۔ ۔

 اقوام متحدہ کا منشور انسانی حقوق

دس دسمبر 1948ء میں اقوام متحدہ کا منشور انسانی حقوق منظر عام پر آیا اس میں وہ تمام حقوق شامل کئے گئے جن کا تعلق انسان کے فطری حقوق اور بنیادی آزادیوں سے ہو سکتا ہے۔ جنرل اسمبلی کے اعلان کے مطابق انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کیلئے حصول مقصد کا مشترک معیار ہو گا

معاشرے کا ہر ادارہ

ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے گا اور انہیں قومی اور بین الاقوامی اقدامات کے ذریعے ممبر ملکوں میں اور ان قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں  منوانے اور ان پر عمل کروانے کیلئے بتدریج کوشش کرے گا۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوحق رائے دہی ووٹ دینے کا حق  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

…….حق رائے دہی ووٹ دینے کا حق  …….

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *