زر کی اقسام

اج کے آرٹیکل میں زر اقسام ہیں لیکن اس سے پہلے ہم زر کی تعریف جان لیتے ہیں۔منڈ یاتی نظام کو موثربنانے اور مختلف شعبوں کو آپس میں یکجا رکھنے کے لیے قیمتوں کا زری نظام اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قیمتوں کے اظہار کے لیے زر ایک معیار کی حیثیت سے نہ صرف معاشی شعبوں میں قیمتوں کے تغیرات کو استحکام فراہم کرتا ہے بلکہ آلہ تبادلہ کی حیثیت سے اشیا کے لین دین اور قرضوں کی ادائیگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ زر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مختلف معیشت دانوں نے مختلف ادوار میں زر کے مفہوم کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔

زر کی اقسام

زر کی اہم اقسام درج ذیل ہیں:

(Metallic Money) دھاتی زر

مختلف دھاتوں مثلاً سونا، چاندی، نکل، لوہا وغیرہ سے بنائے گئے سکوں کو دھاتی زر کہتے ہیں۔ دھاتی زر کا استعمال قبل از مسیح کے دور سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک رائج رہا۔ ابتدائی دور میں یہ زرقیمتی دھاتوں کے مخصوص اور ان کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا تھا لیکن بیسویں صدی میں مختلف ریاستوں کے حکمرانوں نے باقاعدہ ٹکسالیس (Mints) قائم کر کے مختلف اور ان کے سکوں پر ان کی قدری مالیت حکمرانوں کی اشکال اور حکمرانوں کے نام کندہ کرنے شروع کر دیئے ۔ قیمتی دھاتوں کے ان سکوں کا رواج زیادہ دیر تک جاری نہ رہا اور نا پیر ہو گیا۔ اب دھاتی زر عام دھات کے آمیزے سے تیار کیے جاتے ہیں جن کی دو اہم اقسام درج ذیل ہیں۔

(Standard Money) معیاری زر

معیاری زر کی ظاہری اور حقیقی قدر و قیمت آپس میں برابر ہوتی ہے۔ اس لیے اسے پوری مالیت کا سکہ (Full Bodied Coin) بھی کہتے ہیں۔ اس قسم کے سکے میں جو شے بھی بطور زر استعمال کی جارہی ہو اس کی دھاتی مالیت اس سکے پر کندہ کی گئی مالیت کے برابر ہوتی ہے۔ باالفاظ دیگر معیاری زر کی بیرونی سطح پر جو مالیت لکھی گئی ہوتی ہے اتنی ہی مالیت کی قیمتی دھات اس سکے میں موجود ہوتی ہے۔ 1893 سے قبل برصغیر میں استعمال ہونے والا سکہ پوری مالیت کا تھا کیونکہ جتنی مالیت اس سکے پر درج ہوتی تھی اتنی ہی مالیت کی چاندی اس میں موجود ہوتی تھی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں قیمتی دھاتوں کی قلت کے پیش نظر معیاری سکوں کا اجرا بند کر دیا گیا۔ اب کسی بھی ملک میں معیاری سکے نہیں ہوتے اور قیمتی دھاتوں کو دوسرے اہم مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔

(Token Money) علامتی زر

علامتی زر کی ظاہری قدر و قیمت اس کی حقیقی قدر یا سکے میں موجود قدر و قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے مثلاً پاکستان میں رائج تمام دھاتی سکوں اور کاغذی نوٹوں کی ظاہری قدر ان کی اندرونی یا حقیقی قدر سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان سکوں اور نوٹوں پر جو مالیت درج ہوتی ہے اتنی مالیت کی دھات یا کاغذی قدران میں شامل نہیں ہوتی۔ سکوں کی نسبت کاغذی نوٹوں کی ظاہری مالیت تو حقیقی مالیت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں  جاری کرتی ہیں ۔

(Paper Money) کاغذی زر

کاغذی در حکومت یا حکومت کا مرکزی بنک جاری کرتا ہے۔ جس کو اشیا و خدمات کی خرید و فروخت میں بطور آئہ تبادلہ بغیر حیل و حجت قبول کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اسے حکومت کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں سکے حکومت پاکستان اور کاغذی نوٹ ملک کا مرکزی بنک (سٹیٹ بنک آف پاکستان ) جاری کرتا ہے۔ یاد رہے کاغذی زر کے اجرا کیلئے مرکزی بنک متناسب محفوظات کا نظام (Proportional Reserve System) کو اپناتے ہوئے جاری کردہ نوٹوں کی کل مالیت کا کم سے کم 30 فیصد زر محفوظ منظور شدہ زرتبادلہ ہونے ، چاندی کی شکل میں ضمانت کے طور پر رکھنا پڑتا ہے اور جاری کردہ کل نوٹوں کی باقی مالیت کو ملکی اثاثوں کو رہن رکھ کر چھاپے جاتے ہیں۔ کاغذی زرد و طرح کا ہوتا ہے۔

(Convertible Paper Money) بدل پذیر کاغذی زر

اس سے مراد وہ کاغذی زر ہے جسے حکومت یا مرکزی بنک مطالبے کی صورت میں سونے، چاندی یا منظور شدہ زر تبادلہ کی شکل میں بدلنے کا پابند ہوتا ہے۔

(Inconvertible Paper Money) غیر بدل پذیر کاغذی زر

ان سے مراد ایسے کاغذی نوٹ ہیں جنہیں حکومت یا حکومت کا مرکزی بنگ جاری تو کرتا ہے لیکن ان کے عوض مطالبہ کرنے پر ان کو سونے، چاندی یا منظور شدہ زرتبادلہ دینے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا ۔ یادر ہے حکومت ایسے نوٹوں کو جاری کرتے وقت ان کی پشت پر سونا، چاندی یا زرتبادلہ بحیثیت زر محفوظ نہیں رکھتی لیکن اشیا کے لین دین میں سب لوگ اسے قبول کرنے کے پابند ہوتے تھے۔ اس لیے غیر بدل پذیر زر کو قانونی زر (Legal Tender) بھی کہتے ہیں ماضی میں پاکستان میں ایک روپیہ کا کاغذی نوٹ غیر بدل پذیر کاغذی زر تھا۔ کیونکہ حکومت اس کی پشت پر کوئی زر محفوظ نہیں رکھتی تھی لیکن اشیا کے لین دین میں سب لوگ اسے قبول کرنے کے پابند ہوتے تھے۔ اب پاکستان نے ایک، دو، پانچ روپے کے نوٹ ختم کر کے سکے جاری کر دیئے ہیں جنہیں مطالبے پر حکومت کے جاری کردہ روپوں کے عوض تو بدلا جا سکتا ہے لیکن ان کو سونا، چاندی یا منظور شدہ زر میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت بشمول پاکستان دنیا کے تمام ممالک میں غیر بدل پذیر کاغذی زر کا نظام رائج ہے۔

(Legal Tender) قانونی زر

اس سے مراد ایسا زر ہوتا ہے جسے قرضوں کی ادائیگی، قیمتوں کو ادا کرنے اور عام لین دین میں حکومت کی طرف سے قانوناً قبول اور کرنا پڑتا ہے اس کو قبول نہ کرنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں رائج تمام سکے اور کرنسی نوٹ قانونی زر کہلاتے ہیں۔ جنہیں کرنسی قانونی طور پر قبول کرنے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔

حکومتی پشت پناہی کے باعث قانونی زر بطور آلہ تبادلہ استعمال ہوتا ہے اور کوئی شخص اسے اشیا کے لین دین کے معاملے میں لینے اُدھار لین دین کے معاملے میں اگر قرض خواہ مقروض کی ادا کردہ قانونی زر کی ادائیگی کو قبول نہ کرے تو قرض خواہ نہ صرف سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔

(Limited Legal Tender)  محدود قانونی زر

اشیا ء خدمات کے لین دین کے معاملے میں ایسے زر کو ایک خاص مالیت کی حد تک ہی قانونا قبول کیا جاتا ہے لیکن اگر اس زریکا ادائیگی اپنی حد سے تجاوز کر جائے تو تم کا وصول کنندہ اسے قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اسلم نے اکرم کو پانچ ہزار روپ دیتے ہوں ۔ اب اگر اسلم ، اکرم کو پانچ ہزار روپے کی مالیت کے برابر چھوٹے سکے ادا کرتا ہے تو اکرم کو قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ وہ بود زحمت شمار کرنے سے اس رقم کو لینے سے انکار کر دے۔ اس لیے چھوٹے سکے ایک مقررہ حد تک ہی کسی ادائیگی میں دیئے جا سکتے ہیں۔

(Un-Limited Legal Tender) غیر محدود قانونی زر

اس سے مراد ایسا قانونی زر ہے جس کی ادائیگی میں اشیا و خدمات کی خرید وفروخت کے دوران کسی قسم کی مقررہ حد کی پابندی نہیں یعنی اس زر کی صورت میں کتنی ہی بڑی رقم کی ادائیگی وصول کنندہ کو بلا حیل و حجت قبول کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں غیر محدود قانونی زر کے زمرے میں پانچ روپے کے سکے سے لے کر پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ہوتے ہیں۔ یاد رہے لین دین کے معاملے میں غیر محمد قانونی زرلینے سے انکار کی صورت میں جرم تصور ہوتا ہے اور وصول کنندہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ لہذا اشیا و خدمات کے لین دین یا دیگر قیمتی سرگرمیوں کی ادائیگی کے لیے غیر محدود قانونی زر بلا خوف و خطر چھوٹی یا بڑی رقم کی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے۔

(Credit Money) اعتباری زر

اعتباری زر قرض خواه (Creditor) اور قرض دار (Debtor) کے درمیان بھر دے یا اعتبار کی بنیاد پر گردش کرتا ہے۔ بیدار جنگوں کے جاری کردہ چیک ، ڈرافٹ ، ہنڈیوں ، کریڈٹ کارڈ ز وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہٰذا اعتباری زر محض اعتبار کی بنیاد پر گردش کرتا ہے۔ قانونی طور پر کوئی بھی شخص اعتباری زرکو لینے سے انکار کر سکتا ہے اگر وصول کنندہ کو اعتباری زردینے والے پر بھروسہ یا اعتبار نہ ہو۔ چونکہ وصول کنندہ کو اعتباری زریعنی چیک ، ڈرافٹ وغیرہ کی صورت میں رقم وصول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ اس لیے اعتباری زرک اختیاری زر بھی کہتے ہیں۔ یادر ہے کسی بھی ملک میں زر کی کل رسد کا بیشتر حصہ اعتباری زر پر مشتمل ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑی مقدار میں کرنسی نوٹوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسطرح اعتباری زرقیمتوں اور قرضوں کی با آسانی ادائیگی کے لیے موثر کردار ادا کرتا ہے۔

(Near Money) قریبی زر

طرح کرنسی نوٹوں اور سکوں کی شکل میں نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بنکوں کی جاری کردہ میعادی امانتوں ، بانڈز ، کفالتوں ، ہنڈیوں ، بچت سرٹیفکیٹ، سرکاری حصص، ڈاک خانے کے سرٹیفکیٹ وغیرہ کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے۔ جنہیں ضرورت پڑنے پر زر نقد میں تبدیل کروایا جا سکتا ہے۔ معادی امانتیں چونکہ اس سے پہلے کوئی نہیں جائیں تاہم امانت دار کے نوٹ دینے پران امانتوں کوبھی تھوڑا نقصان برداشت سے کیش کروایا جاسکتا ہے۔ اس طرح سرکاری کفالتیں مثلا انعامی بانڈز، ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس، این آئی ٹی یونٹس خاص ، ڈپازٹ اکاؤنٹس بھی ضرورت پڑنے پر کیش کروائے جاسکتے ہیں۔

(Unit of Account) حسابی زر 

(Unit of Account) حسابی زر  (Unit of Account) حسابی زر 

حسابی زر کو معیاری زربھی کہتے ہیں۔ حسابی زرا شیا و خدمات کی قدرو مالیت کو جانچنے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ یہ زر کی وہ معیاری اکائی ہے جس کی بدولت اشیا کی قیمتیں اور رقوم کی گفتی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں زر کی حسابی اکائی روپیہ جس کی بدولت تمام اشیا و خدمات کی مالیت کا انداز کیا جاتا ہے اور ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کی قیمت 100 روپے ہے۔ قلم کی قیمت 20 روپے ہے وغیرہ۔ یادر ہے ہر ملک کی حسابی اکائی کا نام مختلف ہے۔ جیسے امریکہ کی حسابی اکائی ڈالر ہے۔ برطانیہ کا حسابی زر پاؤنڈ ہے لیکن کام کے لحاظ سے تمام قسم کی حسابی اکائیاں اشیا و خدمات کی قدرو مالیت کی پیمائش کے لیے ہی استعمال ہوتی ہیں ۔

(Credit Card) کریڈٹ کارڈ

کریڈٹ کارڈ اشیا خدمات کی ادائیگیاں چکانے کی جدید شکل ہے۔ بنکوں کی اس سہولت کے باعث کریڈٹ کارڈ کا مالک بنکوں کی مخصوص کردہ جگہوں سے زر نقد بغیر رقم کی ادائیگی مقررہ حد کے اندر کر سکتا ہے۔ فروخت کا راپنی اشیا و خدمات کی قیمتیں بنکوں سے وصول کر لیتے ہیں جبکہ کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو یہ رقوم سود سمیت بنکوں کو واپس لوٹانا پڑتی ہیں۔ اب خریدار انٹرنیٹ کے ذریعے کریڈٹ کارڈ استعمال کر ذ کے اشیا و خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں کاغذی زر کی جگہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال عام ہو رہا ہے۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

قومی آمدنی

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو   اس کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

 

Leave a comment