چند مشہور کیڑے مار دوائیاں
زہروں کی مخلف صورتوں پر روشنی ڈالیں ⇐ ہمارے ملک میں مختلف فصلوں، پھلوں اور سبزیوں پر حملہ کرنے والے طرح طرح کے کیٹروں کی تلفی کیلئے ملکی اور غیر ملکی زہریلی ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور آئے دن ایسی زہروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ان کے حصول کیلئے آپ محکمہ زراعت کے کارکنوں، ماہروں اور دواؤں کے ڈیلر حضرات سے رجوع کر سکتے ہیں۔
پاڈان فیصد دانے دار
پاڈان، تاکیدا کیمیکل انڈسٹریز لمیٹڈ جاپان کی کئی سال کی محنت اور مسلسل تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ زہر شروع میں ۱۹۶۴ جاپان میں سمندری کنڈل ” ( دھاری دار کیٹر ) سے حاصل کیا گیا۔ اس کو کاٹپ ہائیڈروکلورائیڈ کا نام دیا گیا۔ رفتہ رفتہ کیمیائی طریقے سے اس کو بڑے پیمانے پر تیار کر کے کیڑوں کے انسداد کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ اس طرح ۱۹۶۷ء سے کانپ ہائیڈرو کلورائیڈ کو پاؤ ان کے نام سے فروخت کیا جا رہا ہے۔ محکمہ زراعت کی وساطت اور تعاون سے وسیع پیمانے پر استعمال کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دھان اور مکئی کی سنڈیوں اور دیگر نقصان دہ کیڑوں کی تلفی اور زرعی پیداوار بڑھانے میں پاڈان ایک مؤثر اور مفید کیڑے مار دوا ہے۔ پاؤ ان کا کیٹرے کوختم کرنے کا مل دوسرے زہروں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔ پاڈ ان کیڑوں مار دوا کھانے سے میزے مفلوج ہو جاتے ہیں ۔ کھانے پینے اور حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ جس کے نتیجے میں وہ مر جاتے ہیں۔ پاڈ ان پودوں کے اندر سرائیت کر کے سنڈیوں کو تلف کرنے کی خاصیت بھی رکھتا ہے۔
ایماٹوس ۵۷ ای سی
ایمانوس ۵۷ ای سی اٹلی کی مشہور کمپنی گروپ مونٹ ایڈین فارمو پلانٹ کی تیار کردہ ہے۔ یہ آرکیو فاسفورس کیڑے مار زہر ہے جو عام طور پر میلا تھیان کے نام سے مشہور ہے۔ ایمانوس کے استعمال سے کپاس، چاول، گنا، تمبا کو اور مختلف پھلوں اور سبزیوں پر حملہ آور نقصان دہ کیڑے تلف ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوداموں میں اس کے پرے سے ذخیرہ شدہ اللہ کے گودامی کیڑے ختم ہو جاتے ہیں۔
ایماٹوس کی چند خصوصیات
ایمانوس موثر اور محفوظ ترکیڑے مار دوا ہے۔ اس لئے گھروں میں کھی، مچھر اور کھل کی روک تھام کیلئے پودوں پر اس کے زہریلے اثرات زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہتے تمام کترنے اور چہانے والے کیڑوں کیلئے موثر اور مفید ہے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ فصلوں پر برا اثر نہیں چھوڑتی ۔
ڈی ڈی ٹی
ڈی ڈی کی کاروان ایرانی لورالائی نیل رانی کور و متھن ہے۔ اس زہریلی دوا کی تیاری کا سرا سویٹزر لینڈ کے ایک سائنس دان کے سر ہے۔ اس تحقیق اور عظیم کارنامے کے عوض ۱۹۴۸ ء میں انہیں نوبل پرائز بھی ملا تھا۔ ڈی۔ ڈی۔ ٹی ایک سفید قمی کیمیائی مرکب ہے۔ ملیر یا پھیلانے والے مچھروں کو تلف کرنے میں اس دوا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس بناء پر لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی قیمی جان بچانے میں یہ سرفہرست ہے۔ ڈی، زی نی پودوں کی حفاظت میں فصلوں کو طرح طرح کے کیڑوں سے بچانے کیلئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ ڈی ، ڈی ٹی رس چوسنے والے کیڑے مثلاً جی ، تھرپس، سفید مکھی اور کتر کر کھانے والے کیڑوں مثلا بول درم، چتکبری سنڈی، گلابی سنڈی، امریکی سند کی، انڈے، گر اس با پرز، کٹ ورم نو کا، پتہ لپیٹ سنڈی وغیرہ کو تلف کرتی ہے۔ ان خصوصیات کے با وجود تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ ڈی ڈی ٹی جسے کبھی سائنس دان رحمت سمجھ رہے تھے ۔ دراصل زحمت بن کر رو گی ہے کیونکہ یہ کیڑوں کو ختم کرنے کے بعد اپنے زہر یلے اثرات دکھانے شروع کر دیتی ہے۔ اس کا باقی زبر یعنی درختوں، چوں پر کافی دیر تک پڑا رہتا ہے اور ہوا میں بکھر کر فضا کو آلود کر دیتا ہے۔ اس کے موثر اجزا اور زیادہ عرصہ قائم رہتے۔ رکھیتوں، باغوں سے یہ کر سمندروں، دریاؤں جھیلوں نہروں وغیرہ میں آجاتے ہیں جس کے نتیجے میں مچھلیاں ہلاک ہو جاتی ہیں ۔ ” جزیرہ بور نیوز میں ڈی، ڈی، ٹی کے استعمال سے بہت تسکین نتائج نکلے۔ اس علاقے کی چھپکلیوں نے ڈی ، ڈی ٹی سے مری ہوئی مکھیوں کو کھایا۔ پھر ان چھپکلیوں کو وہاں کی بلیوں نے ہڑپ کیا یہ بلیاں ڈی ، ڈی پی کے زہر سے مرتی گئیں۔ جس کی وجہ سے ان کی آبادی میں کی واقع ہوتی گئی اور اس طرح آس پاس کے علاقوں، گاؤں میں چوہوں نے تباہی مچادی۔ ان کی روک تھام کیلئے عالمی ادارہ صحت کو ان علاقوں میں دوبارہ بلیاں پہنچانا پڑیں۔ چنانچہ مندرجہ بالا حقائق اور ڈی ڈی، ٹی کے مضر اثرات کی بناء پر بہت سے ملکوں میں اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی ہے اور اس کا استعمال اب کم ہوتا جا رہا ہے۔
نوگاس
سیا گائیکی لینڈ، بازل کی تیار کردہ ایک مفید اور موثر کیڑے مار دوا ہے۔ سلیس اور تنفس دونوں ذریعوں کو مفلوج کر کے کیڑوں کو ہلاک کر دیتی ہے۔
خصوصیات
نوگاس کو اپنے قلیل وقت اور نہایت تیز اثر کی وجہ سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیڑوں کی فوری روک تھام کیلئے موزوں ہے۔ مرے کے بعد زہر کا اثر جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ روا کے زہریلے اثرات پوروں پر زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہتے ۔ نوگاس کی پرے سے ۲-۳ دونوں کے بعد میزیوں اور پھلوں پرنہ ہر ملے اثرات نہیں پائے جاتے۔ مرے کے ساتھ ہی کیڑے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم سے لگ کر اور چیٹ میں پہنچ کر ہلاک کرنے کی خاصیت کے علاوہ نوگاس کے بخارات سے بھی کیڑے تلف ہو جاتے ہیں۔
کیڑے مار دواؤں کے استعمال میں ضروری احتیاطیں
زہریلی دوائیں خواہ کیٹروں کو مارنے کیلئے ہوں یا چوہوں اور بیماریوں کیخلاف استعمال کی جائیں یا پھر جڑی بوٹیوں کے خلاف استعمال کی جائیں، زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے مفید ثابت ہوتی ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ مختلف زہریلی دواؤں کے نقصان دہ اثرات انسانوں اور مویشیوں پر بھی کئی طریقوں سے ہو سکتے ہیں۔ یعنی۔ کھانے سے لگنے سے جسم پر لگنے سے یا سانس لینے سے گیس کی صورت میں ) اس لئے ضروری ہے کہ زہروں کو گودام میں رکھنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے اور ان کے استعمال میں بہت احتیاط کی جائے۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ایسی زہریلی دواؤں کے استعمال میں جب بھی ضروری احتیاط سے کام نہیں لیا گیا بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور بہت سے مویشی بھی مر گئے ۔ اس قسم کے حادثات کی اطلاع امریکہ کے ان علاقوں سے ملی ہیں جہاں بڑے پیمانے پر کپاس کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دوران اکیلے صوبہ پنجاب میں زہریلی دواؤں کے استعمال میں بے احتیاطی کی وجہ سے بہت سی جانیں ضائع ہوئیں۔
زہریلی دواؤں کے استعمال کے دوران صرف لفظت اور بے احتیاطی اور کوتاہی ہی سے خطر ناک نتائج نکلتے ہیں۔
پاکستان میں جوں جوں ان زہریلی دواؤں کے استعمال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے توں توں انسانوں اور جانوروں کی زندگی اور صحت کیلئے ایسی زہریلی دواؤں کے انتخاب اور استعمال میں ضروری احتیاط کرنا بھی ایک مشکل مسئلہ بن چکا ہے مندرجہ بالا خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی اور حیوانی جانوں کو ایسی نقصان دہ زہروں سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری احتیاطوں کے بارے میں ذیل میں معلومات دی جاتی ہیں ۔ یہ احتیاطیں تین قسم کی ہیں۔ زہریلی دواؤں کے استعمال سے پہلے احتیاطیں۔ زہریلی دواؤں کے استعمال کے دوران احتیاطیں۔ زہریلی دواؤں کے استعمال کے بعد احتیاطیں۔
زہریلی دواؤں کے استعمال سے پہلے احتیاطیں
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی شخص کو بھی زہریلی دواؤں کے پاس نہ جانے دیں جب تک کہ وہ اس زہر کے نقصان دہ اثرات سے واقف نہ ہو۔ کسی دوا کے چھٹڑ کنے یا دھوڑ نے کے عمل سے پہلے ضرور حفاظتی سامان مثلا انگری ، ریڑ کے دستانے ، حفاظتی ، چشمے اور ربڑ کے بڑے بوٹ کا پہننا بہت ضروری ہے۔ جو برتن ( ڈبے، کلستر وغیرہ) کسی ایک زہر کیلئے استعمال ہو چکا ہو وہ کسی اور قسم کے زہر کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے جب تک ایسے برتن کو پانی سے اچھی طرح نہ دھو لیا جائے۔
یہاں اس بات کو اچھی طرح یاد رکھیں کہ کسی بھی زہر والے خالی کنستر اور ڈبے کو نہر، تالاب، جو ہر کھالوں اور کنوؤں پر نہ دھوئیں۔
زہر کو ہمیشہ کسی علیحدہ جگہ تالا لگا کر رکھا جائے۔ جس کی چاہیاں بچوں یا کسی غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ دواؤں کو باورچی خانے نعمت خانے کے اندر نہ رکھیں اور نہ ہی کھانے پینے والی چیزوں کے نزدیک رکھنا چاہیے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "زہروں کی مخلف صورتوں پر روشنی ڈالیں" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ