لحمیاتی کمی اور اس سے متعلق امراض

لحمیاتی کمی اور اس سے متعلق امراض خوراک میں موجود لحمیات کا عموما نوے فیصد حصہ جسم میں ہضم ہونے کے بعد جذب بھی ہو جاتا ہے ۔ باقی 10 فیصد حصہ پیشاب اور فضلے کی شکل میں جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لحمیات بغیر ہضم ہوئے جسم سے زیادہ مقدار میں خارج ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے لحمیات کی جسم میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں لحمیات کی کمی کی دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: غربت کے باعث غیر متوازن غذا کا استعمال کسی خاص وجہ سے بھوک کا نہ لگنا۔ ہانے اور نظام تحول میں خرابی کے باعث امینوتر شوں کا توازن برقرار رہنا۔ ہاضمے کی خرابی کے باعث خوراک کا صیح طور پر ہضم نہ ہوتا ۔ امینوترشوں کا جسم میں جذب ہو کر بھی جسم کے کام نہ آتا۔  بچوں کے جسم میں کسی خاص قسم کے خامرے کی غیر موجودگی اور غذا کا جسم میں استعمال نہ ہوتا۔ پاکستان میں عموماً لحمیات کی کچھ قوت بخش اجزاء کی کمی کے ساتھ ساتھ واقع ہوتی ہے۔ یہ مرض عموماً بچوں اور ان کی ماؤں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لحمیات اور قوت بخش غذائی اجزاء کی کمی پاکستان کی کل آبادی کے 1/3 حصہ پر اثر انداز ہے۔ اس میں شیر خوار اور چھوٹے بچے حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں سرفہرست ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر 38 فیصد حاملہ ماؤں کا وزن معیاری وزن سے کم دیکھا گیا۔

لحمیاتی کی اور اس سے متعلق امراض

بچوں کو ٹھوس غذا شروع کرنے میں تاخیر

غریب گھرانوں میں کواشید کور کا مرض بچوں کو زیادہ عرصے تک صرف اور صرف ماں کے زادہ پر رکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کچھ بچوں کو ڈیڑھ سال سے دو سال تک کی عمر کوئی اضافی ٹھوس غذا نہیں کھلائی جاتی اور ماں کا دودھ اس کی بڑھتی ہوئی غذائی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ لہذا بچے کی نشو ونما رک جاتی ہے اور آہستہ آہستہ پروٹین اور قوت والے غذائی اجزاء کی کی پیدا ہونے لگتی ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق شیر خوار بچوں کی صحیح جسمانی نشو نما کیلئے ضروری ہے کہ انہیں چار ماہ کی عمر کے بعد ماں کے دودھ کے علاوہ ٹھوس اضافی غذا میں بھی آہستہ آہستہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں کھلائی جائیں۔ یہ غذا میں متوازن زود ہضم اور ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہونی چاہئیں تاکہ بچوں سے جسم میں مناسب مقدار میں استعمال ہو سکیں ۔ پاکستان میں محدود آمدنی بچوں کی زیادتی اور غربت کے باعث ماں باپ اپنے بچوں کو چار ماہ کے بعد متوازن غذا مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے اور بچے صرف ماں کے دودھ پر ہی پروان پڑھتے ہیں ۔ لہذا ان کی جسمانی نشود نما معیاری طریقے پرنہیں ہو پاتی اور پروتئین اور قوت والے غذائی اجزاء کی جسم میں کمی رونما ہو کر آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مرض شدت اس وقت انقیار کرتا ہے جب دو سال کے بعد بھی بچوں کو مناسب اور متوازن غذا میسر نہیں آتی اور جسم میں پروٹین کی کمی کی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔

ماں کی غذائیت کے اصولوں سے لا علمی

پاکستان میں چونکہ ماں ہی بچوں کی دیکھ بھال پر معمور ہوتی ہے اور چونکہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہوتی لہذا وہ غذائیت کے بنیادی اصولوں سے نا واقف ہوتی ہے۔ اس صورت میں وہ اپنے بچے کو ٹھوس غذا تو دیتی ہے لیکن اس غذا میں لحمیات کی کافی مقدار موجود نہیں ہوتی یا توانائی والے غذائی اجزاء کافی مقدار میں موجود نہیں ہوتے۔ لہذا بچوں کے جسم اپنی روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں استعمال ہونے والی قوت، جسم میں موجود قوت بخش اجزاء اور لحمیات کی توڑ پھوڑ سے حاصل کرتے ہیں اس طرح آہستہ آہستہ جسم میں موجودہ لحمیات کافی مقدار میں قوت بنانے میں استعمال ہوتی رہتی ہیں اور بچہ کو شیر کور کا شکار ہو جاتا ہے۔

ماں کا نا کافی دودھ

کچھ مائیں کم دودھ کی شکایت کرتی ہیں اور شروع دنوں میں اپنے شیر خوار بچوں کو دودھ نہیں پاسکتیں۔ وہ بچے کو بوتل سے دورہ شروع کر دیتی ہے۔ بچہ خواہ کسی بھی وجہ سے روتا ہے۔ وہ بجھتی ہیں کہ بچہ دودھ کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے رورہا ہے۔ عموما مائیں بوس کے دودھ کو تیار کرنے کے طریق کار سے بھی نا واقف ہوتی ہیں اور پھر ان کو ماں کے دودھ کی اہمیت کا علم نہیں ہوتا۔ لہذا اس وجہ سے دو بچوں کو بوتل کا دودھ بھی صحیح طور پر پلانے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ کبھی وہ دودھ میں پانی کی مقدار زیادہ اور کبھی کم کر دیتی ہیں، کبھی بوتل صاف اور کبھی جراثیم سے آلودہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے بچہ دودھ صیح طریقے سے ہضم نہیں کر پاتا اور پروٹین کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔

صفائی کے اصولوں سے ناواقفیت

پاکستان میں کچھ خواتین صفائی کے اصولوں سے ناواقف ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بچوں میں بعض متعدی امراض پھیل جاتے ہیں اور بچے اپنی غذا کو بیچ طور پر ہضم نہیں کر پاتے۔ بچوں میں لگا تار کسی متعدی مرض رہنے سے ان میں جسمانی کمزوری رہھے لگتی ہے اور بیماری کی شدت میں جسم میں لحمیات کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

جسم پر لحمیات کی کمی کے اثرات

لحمیات کی کمی بچوں بڑوں دونوں ہی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ بچوں میں لحمیات کی کمی نشو و نما کی رفتار کوست کر دیتی ہے۔ بچوں کا وزن اوسط وزن کی نسبت نہایت کم رہ جاتا ہے اور ایسے بچوں میں دوسری بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت بھی کم رہ جاتی ہے۔ اس وجہ سے دوسرے امراض بھی جسم پر جلد اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بڑوں میں بھی پروٹین کی کمی سے ان کے وزن میں کمی آجاتی ہے اور دوسری بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت بھی کم ہو جاتی ہے۔ لحمیات کی کمی سے جسم میں کمزوری انیمیا ( پیلا پن ) ایڈ یا ہوتا ہے۔ زخم دیر سے مندمل ہوتے ہیں اس کے علاوہ جسم میں متعدی امراض کیخلاف قوت مدافعت میں کی بھی آجاتی ہے کیونکہ خون میں سفید اجسام کی کی بھی ہو جاتی ہے۔ ان سفید اجسام کی جسم میں کمی کے باعث جسم متعدی امراض کے جراثیموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور جلد ان کے اثر تلے آکر بیمار پڑ جاتا ہے۔ جسم میں پروٹین کی کمی سے نا مناسب ذائیتے یعنی  کی شکایت بھی ہو جاتی ہے جس کو بعض لوگ نقص تغذیہ یا سوہ تغذیہ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ توانائی والے غذائی اجزاء کی روزمرہ غذا میں غیر مناسب مقدار اور کمی. کی صورت میں جسم میں موجود الحیات توانائی حاصل کرنے میں استعمال ہونے لاتی ہیں جس سے بعض اوقات جگر اور دمان ایسے جسمانی اعضاء کو مستقل طور پر کوئی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

کواشیو کور

اس بیماری کو پہلی مرتبہ 1933 ء میں مسٹر ولیم نے افریقہ کا ایک ملک گھانا میں کام کے روران دریافت کیا۔ جہاں پر یہ بیماری بالخصوص ایک سے چار سال کی عمر کے بچوں میں عام تھی۔ اس وقت کو اشیو کور سے مراد وہ مرض تھا جو ایک بچے کو دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد دودھ چھڑانے سے پیدا ہو جاتا تھا کیونکہ ماں کا دودھ چھڑانے کے بعد بچے کو مناسب مقدار میں غذا نہیں دی جاتی تھی ۔ نتیجتا بچے کے جسم میں حمیات اور قوت مہیا کرنے والے نذائی اجزاء کی کی واقع ہونے لگتی تھی لیکن بیماری کا بنیادی سبب جسم میں زیادہ مقدار خمیات کی کمی تھا پھر آہستہ آہستہ یہ مرض دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی دریافت کیا گیا۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

کواشیو کور کی علامات

لحمیات کی ابتدائی کی کی صورت میں بچے مست رفتاری سے نشو و نما پاتے ہیں اور قد و قامت میں صحت مند بچوں سے پیچھے رہ جاتے اسے پیچھے رہ جاتے ہیں اس کے علاو و مند رو د مندرجہ ذیل ظاہری علامات رونما ہوتی نما ہوتی ہیں: بچوں کو بھوک لگنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ بچے چڑ چڑے ہو جاتے ہیں ہیں۔ رنگ زرد ہو جاتا ہے۔ بچوں کا جگر خراب ہو جاتا ہے اور پھول کر سائز میں بڑا ہو جاتا ہے۔ بچوں کے خون میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ کواشیو کور کے مریض بچوں کے بازو پسلیوں اور ٹانگوں میں عضلات کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ پانی بھر جاتا ہے۔ نتیجا باز اور ٹانگوں میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے۔ 7- بعض بچوں کے بالوں کا رنگ تبدیل ہو کر پہلے ہا کا پھر سفید ہو جاتا ہے۔ بیماری کی شدت میں بچوں کی چہرے کی جلد میں جھریاں نمایاں ہو جاتی ہیں، بعض اوقات ملی جلد پراتنی بھریاں ہوتی ہیں اور جلد اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ جلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مریض بچوں کو تے اور اسہال کی شکایت رہتی ہے اور غذا بغیر ہضم ہوئے جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔  بروقت مناسب خوراک اور علاج نہ لینے سے مریض کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

احتیاطی تدابیر اور مرض کی روک تھام

کواشیو کور کے مریض کو ایسی غذا کھائی مقصود ہوتی ہے جو زود ہضم ہو اور اس میں مناسب مقدار میں لحمیات، نمکیات حرارے اور حیا تین موجود ہوں تا کہ ایسی غذا مریض بچے کی رکی ہوئی نشو و نما کو دوبارہ بحال کر سکے۔ ایسی حالت میں دودھ ایک اچھی غذا ہے۔ مریض بچے کی غذا میں سبزیوں سے حاصل کردہ لحمیات بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً سویا بین کو پیس کر اور پکا کر دودھ میں شامل کر کے بچے کو کھیر کی صورت میں کھلایا جاسکتا ہے۔ ایسی غذا الحمیات سے بھر پور ہو گی ۔ اس طرح دودھ اگر مہنگا ہو تو چنے اور دوسری والوں کی لحمیات کو ملا کر مریض کو دیں تو مرض جاتا رہتا ہے۔ مرض کی شدت میں بچوں کو مناسب مقدار میں خوراک ملنا نہایت ضروری ہے۔ لہذا مریض کیلئے ایسی غذا ترتیب دینی چاہیے جس میں علمیات کی مقدار روزانہ 3 سے 4 گرام فی کلوگرام جسمانی وزن ہو ۔ حراروں کی روزانہ مقدار 150 کلوکیلوری فی کلوگرام جسم کے وزن یا اس سے بھی زیادہ مقدار موجود ہونی چاہیے۔ اگر بچہ چھوٹا ہو اور پہلے ایک دو دن بچہ منہ سے نہ کھا سکے تو اسے تاک میں خوراک کی نالی کے ذریعے خوراک دینا بہت ضروری ہوتا ہے جس کیلئے بچے کوفورا ہسپتال لے جانا ضروری ہے تا کہ اس کا مکمل علاج ہو سکے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "لحمیاتی  کمی اور اس سے متعلق امراض"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment