نظام زکوة ⇐ زکوۃ کے لفظی معنی پاکیزگی اور نشوونما کے ہیں۔ اس کے علاوہ پاک صاف ہونا، بڑھنا بھی اس کے لغوی معنوں میں آتا ہے۔ پاکیزگی اور پا صاف ہونا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مال و دولت پر زکوۃ فرض کی ہے اسے اگر خلوص دل اور نیک نیتی سے ادا کر دیا جائے تو وہ مال و دولت ہر طرح سے پاک صاف اور پاکیزہ ہو جاتی ہے، جبکہ نشو نما اور بڑھنا سے مراد یہ ہے کہ مستحقین میں زکوۃ کی ادائیگی سے مال و دولت میں برکت پیدا ہوتی ہے اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دینی اصطلاح میں زکوۃ ایک مالی عبادت ہے جو ہر صاحب نصاب مسلمان پر فرض ہے اس کی ادائیگی سے ایثار، قربانی ، ہمدردی اور سخاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زکوۃ سماجی فلاح و بہبود کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سے معاشرے کے مفلس لوگوں کی کفالت ہوتی ہے۔ اس طرح معاشرے میں نفرت و انتقام کی بجائے ہمدردی و احترام، باہمی بھائی چارے اور محبت کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ قرآن پاک میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوۃ کی فرضیت کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے۔ وَأَقِيمُو الصَّلُوةَ وَاتُو الزَّكُوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِين (البقرة ٢٣ ) ترجمعہ: نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ جب بھی کسی نے حضور سلا م سے اسلام کے بارے میں پوچھا تو آپ سلیم نے اعمال میں سب سے پہلے نماز اور پھر زکوۃ کا ذکر فرمایا۔ قرآن پاک میں زکوۃ کی رقم درج ذیل مستحقین پر خرچ کرنے کا حکم آیا ہے قرض دار اگر کسی معاشرہ میں زکوۃ کا نظام محکم اور اس کی ادائیگی کے صحیح طریقے موجود ہوں تو اس سے غربت اور افلاس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور معاشرے میں باہمی تعاون کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔
نظام عشر
پاکستان میں مارچ 1983 میں زرعی پیداوار پر عشر کی وصولی کا نظام نافذ کیا گیا تھا جس میں عشر کی رقم زرعی پیداوار جو قدرتی ذرائع سے کاشت ہونےہیں اور موصولہ رقوم غربا میں تقسیم کی جاتی ہے۔ والی زمینوں کی پیداوار کا 10 فیصد جبکہ مصنوعی ذرائع سے آبپاشی کی جانے والی پیدا وار سے عشر وصول کیا جاتا لئے ہوا۔ عشر کی رقم اس علاقے کے مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی ہے تا کہ اس سے علاقے کے غریب اور مفلسین کی مدد ہو سکے۔
انفاق فی سبیل اللہ
دین اسلام حق ملکیت پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔ ان ذمہ داریوں میں زکوۃ اور عشر کے علاوہ، مزید رضا کارانہ قربانی اور اشیا اور – کا مطالبہ کرتا ہے جس میں اللہ تعالی کی راہ میں زیادہ سے زیادہ امداد غریبوں کو بہم پہنچانا ہے یہ زائد دیگر رضا کارانہ ادائیگی انفاق فی سبیل اللہ کے زمرے میں ہے۔ سورۃ آل عمران ( آیت (92) میں اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ تم ہرگز نیکی نہ حاصل کرو گے جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہوں راہ خدا میں خرچ نہ کرو۔ انفاق فی سبیل اللہ کا بنیادی مقصد دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز روک کر معاشرے کے تمام لوگوں تک مساویانہ پہنچانا اور با ہمیں اتحاد بھائی چارے کی فضا قائم کرنا ہوتا ہے۔ انفاق فی سبیل الله خالصتاً ایک رضا کارانہ عمل ہے جس کا مقصد ناداروں ، بیوہ عورتوں، جسائیوں اور دیگر مستحقین کی مالی امداد کرنا ہے۔ اتفاق فی سبیل اللہ یہ درس دیتا ہے کہ صاحب حیثیت پر لازم ہے کہ وہ ضرورت مند اور مفلس افراد کی مدد کریں اور پھر جو لوگ مالی اعانت کریں وہ احسان نہ جتنا میں وگر نہ نیکی ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
زکوة عشر اور انفاق فی سبیل اللہ بطور آلہ ذرائع آمدن اور معاشرتی انصاف
زكوة عشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی مدات سے حاصل ہونے والی آمدنی حکومت کے ذرائع آمدنی کا حصہ بنتی ہیں۔ متذکرہ اسلامی از رائع آمدن اسلامی حکومتیں لوگوں سے اکٹھا کر کے حاجت مندوں اور مفلسوں میں تقسیم کر کے معاشرے میں سماجی انصاف اور بھائی چارے کی فضا قائم کرتی ہیں۔ دولت کے ارتکاز کو چند ہاتھوں میں جانے کی بجائے گردش زر پر زور دیتی ہیں۔ اسلامی حکومت میں زکوة بعشر اور انفاق فی سبیل اللہ کے مؤثر انتظام اور تقسیم کی بدولت درج ذیل اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
دولت کی منصفانہ تقسیم
دور حاضر میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے مسئلہ سے دوچار ہیں ۔ معاشرہ اقتصادی اعتبار سے نہایت امیر اور نہایت غریب گروہوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے، امیر طبقہ عیش و عشرت اور پروقار طریقے سے زندگی گزارتا ہے اور غریب طبقہ بھوک، افلاس اور تنگ دستی کا شکار ہے۔ اس طرح دولت سے محروم لوگوں کے اندر دولت مندوں کے لئے حسد، کینہ اور انتظام جیسے مکر وہ احساسات جنم لیتے ہیں لیکن اسلام کے معاشی نظام کی بدولت زکوٰۃ ، عشر اور انفاق فی سبیل الله کے ذریعے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا علاج کیا جاتا ہے چونکہ اسلامی احکامات کی رو سے صاحب نصاب پر مقررہ شرح سے زکوۃ فرض کی گئی ہے اس کے علاوہ زرعی پیداوار سے عشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی مد سے امدادی رقوم لیکر غریبوں اور ضرورت مندوں کو دی جاتی ہیں۔ اس طرح دولت خود بخود امیر طبقہ سے نکل کر دولت سے محروم طبقے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور گروہی طبقات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں اقتصادی ناہمواریاں ختم ہو جاتی ہیں اور معیشت میں اعتدال و استحکام کی فضا پروان چڑھتی ہے۔
غربت کا خاتمہ
اسلامی معاشرہ زکوة عشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی بدولت معاشرے سے غربت اور افلاس کا خاتمہ کر دیتا ہے اور جس معاشرے میں بوڑھے، نادار، بے روزگار ، حاجت مند، پانچ اور مقروض لوگوںکو نظر انداز کیا جاتا ہے ان میں زکوة عشر اور انفاق فی بیل اللہ کے نظام کے ذریعے خوشیاں بانٹتا ہے اور متذ کرہ افراد کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے جس سے معاشرے میں مروت ، احساس ، تعاون اور ہمدردی کے ، جذبات فروغ پاتے ہیں۔ معاشرہ غربت اور افلاس جیسی برائیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ لوگوں کوعزت کی زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح زکوۃ بعشر اور انفاق فی سبیل اللہ کے تحت اکٹھی کی ہوئی رقوم غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے ایک اسلامی فلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
بے روزگاری کا علاج
زکوة عشر اور انفاق فی سبیل اللہ کا بنیادی مقصد دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز روک کر معاشرے کے تمام لوگوں تک منتقل کرنا ہے تا کہ دولت کے ذخائر امرا سے نکل کر غربا کی طرف منتقل ہوں اور دولت کی مساویانہ تقسیم سے معیشت میں عدل و انصاف قائم ہو۔ دولت سے محروم طبقہ کو زکوۃ بشر اور اتفاق فی سبیل اللہ سے جب مالی امداد ملتی ہو تو وہ نہ صرف مشکلات سے نکلتا ہے بلکہ وہ کاروبار کر کے باعزت زندگی بھی گزارتے ہیں اور انہیں اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح معیشت میں پیداواری شعبے ترقی کی طرف گامزن ہوتے ہیں اور غربت و بے روزگاری جیسی لعنتوں کا معاشرے سے خاتمہ ہو جاتا ہے۔
باہمی احترت اور بھائی چارا
زکوۃ، عشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی بدولت معاشرے میں باہمی اتحاد اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ جب امیر طبقہ اپنی آمدیوں سے غریب لوگوں کو زکوة و عشر یا انفاق فی سبیل اللہ کی مدات میں سے مالی مدد کرتا ہے تو غریب لوگ دولت مندوں کو محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان میں شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یوں پورے معاشرہ میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ بے روز گار لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں اور جب انہیں پیٹ بھر کر کھانے کو ملتا ہے تو وہ جرائم سے اجتناب کرتے لگیا ۔ اس طرح غربت کے خاتمے سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں اور معیشت ترقی کی طرف گامزن ہوتی ہے۔
وفیوں کا علاج
زکوۃ ، عشر اور اتفاق فی سبیل اللہ سے لوگوں میں دولت کو دفینوں کی صورت میں رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ اسلامی احکامات کی رو سے دفینوں کی صورت میں رکھی جانے والی دولت یا اشیا پر زکوۃ نافذ العمل ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ دولت کی اشکال کو دفینوں کی صورت میں رکھنے کی بجائے کاروبار میں لگا لیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ملک میں پیداواری مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ بے روز گاروں کو روز گار ملتا ہے اور غریب لوگوں کو بھی زندگی کی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔
فضول خرچی کی حوصلہ شکنی
اسلامی معاشرے میں زکوۃ بعشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی بدولت لوگوں میں فضول خرچی اور اسراف جیسی برائیاں جنم نہیں لیتیں ۔ کیونکہ زکوة عشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی مدمیں ادائیگی کرنے کے بعد لوگوں کے پاس اس قدر بے تحاشا دولت باقی نہیں رہتی کہ وہ اسے بغیر سوچے سمجھے پر تکلف دعوتوں اور اشیائے تعیشات کی خریداری پر خرچ کر سکیں۔ اس طرح معاشرے میں کفایت، میانہ روی اور اعتدال کی خوبیاں پروان چڑھتی ہیں اور معاشرہ مجموعی طور پر ترقی کرتا ہے۔
سرمائے کی گردش میں اضافہ
زکوہ ہمشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی بدولت ملکی دولت سرمایہ کاری مقاصد میں تیزی سے گردش کرتی ہے۔ جس سے ہر شخص کو اس کی ضرورت کی رقم مل جاتی ہے جس کے ساتھ وہ کاروبار کر کے عزت کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ چونکہ اسلامی معاشرہ میں دولت کا ذخیرہ کرنا منع ہے میں تو اس لیے جب لوگ متذکرہ مدات میں رقم مستحقین میں بانٹتے ہیں تو دولت اشیائے پیداواری کے مقاصد میں استعمال ہوتی ہے اور سرمایہ پوری معیشت میں تیزی سے حرکت کرتا ہے۔ملکی پیداوار بڑھ جاتی ہے اور لوگوں کو معقول روز گار اور اچھی زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔
معیشت کا پھیلاؤ
زکوة بعشر اور انفاق فی سبیل اللہ کی بدولت معاشرے کو ایک معتدل معاشی نظام نصیب ہوتا ہے جس کے ذریعے غربت و افلاس کا خانہ دار گاز دولت کا موڑ علاج ، غریب کی عزت نفس کا تحفظ ، معاشرتی برائیوں کا خاتمہ اور باہمی اخوت و بھائی چارے کی فضا پروان چڑھتی ہے۔ بے روزگار لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ دولت سے محروم لوگ لوٹ مار کی زندگی کی بجائے محنت اور عزت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ با کفایت صرف اور سرمایہ کاری کی بدولت ملکی پیداواری یونٹوں کی صلاحیت بڑھتی ہے اور معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “وفاقی حکومت کے اخراجات کی مدات” کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں