پاکستان کا بنکاری نظام ⇐دور جدید میں کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا انحصار فعال اور مستحکم بنکاری نظام پر ہوتا ہے کیونکہ یہی مالیاتی ا لوگوں کی پس انداز کی ہوئی رقوم کو ایک جگہ یکجا کر کے انہیں ملکی تعمیر و ترقی کے کاموں پر لگا کر سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی تجارت کو بڑھانے کے لیے درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان کو مالیت فراہم کرتے ہیں۔ چھوٹے بڑے تاجروں کو آسان شرائط پر قرضے جاری کر کے ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں چونکہ مضبوط اور مستحکم بنکاری نظام کسی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن قسمتی سے پاکستان کو آزادی ملتے ہی کمزور بنکاری ڈھانچہ وراثت میں ملا جس کی وجہ ماضی میں بنکوں پر انگریزوں کی حکمرانی تھی چونکہ ہندو انگریزوں کو اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے اس لئے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح بنکوں پر بھی ہندوؤں کا کنٹرول تھا۔ ہند و سرمایہ کاروں کو جب یہ محسوس ہوا کہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم تو یقینی ہے تو انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر پاکستان کی حدود میں موجود بنکوں سے رقوم نکلوا کر ہندوستان میں منتقل کرنا شروع کر دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بنکوں کا زیادہ تجربہ کارعملہ جو زیادہ تر ہندوؤں پر مشتمل تھا وہ بھی ہندوستان چلا گیا اس طرح آزادی کے بعد جو حصہ پاکستان کے حصے میں آیا وہ زیادہ تر مالی بد حالی کا شکار تھا۔ ایسے حالات میں حکومت پاکستان نے آزادی کے فوری بعد مالی وسائل پر قابو پانے کے لیے کیم جولائی 1948 کو پاکستان کے مرکزی بنک ( سٹیٹ بنک آف پاکستان ) کے قیام کا اعلان کیا جس کا انفتاح قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا۔ آزادی کے وقت پاکستان میں صرف دو پاکستانی بنگ حبیب بنک لمیٹڈ اور آسٹریلیشیا بنک لمیٹڈ اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے لیکن آزادی کے بعد مرکزی بنک کے علاوہ کئی دوسرے بنک قائم کئے گئے جو مہارت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ زیر نظر باب میں ہم پاکستان کے ان اہم بنکوں کا ذکر کریں گے جو ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
تجارتی بینک
تجارتی بنگ ملکی تجارت، صنعت و حرفت کی ترقی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بنک لوگوں سے ان کی فالتو رقوم مختلف حسابات میں وصول کر کے انہیں قواعد وضوابط کے مطابق منافع دیتے ہیں اور پھر لوگوں کی موصولہ رقوم کو ضرورت مند تاجروں اور دیگر ضرورت مندوں کو قرضہ دے کر خاطر خواہ منافع یا سود حاصل کرتے ہیں۔ لہذا بنک منافع کمانے کی غرض سے وجود میں آتے ہیں۔ پاکستان میں 1973 سے پہلے ان تجارتی بنکوں کی تعداد 23 تھی جن کو بعض وجوہات کی بنا پرکم کر کے حکومت پاکستان نے بنگ قومیانے کا آرڈینس 1974 کے تحت قومی تحویل میں لے کر پانچ بڑے بنکوں تک محدود کر دیا۔ قومی تحویل میں آنے سے پہلے پاکستان میں 23 بنکوں میں سے 15 پاکستانی اور باقی غیرملکی تھے۔ حکومت پاکستان نے غیر مکی بنکوںاور کو آپریٹوینکوں کو قوی تحویل میں نہیں لیا لیکن ملک کے تمام چھوٹے بنکوں کو پانچ بڑے بنکوں میں ضم کر دیا جس میں نیشنل بنک آف پاکستان، حبیب بنک لمیٹڈ، مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ، الائیڈ بنک لمیٹڈ اور یونائٹیڈ بینک لمیٹڈ شامل ہیں۔ ذیل میں ہم ملک کے ان اہم مالیاتی اوروں کا جائزہ لیتے ہیں جو سارے ملک کے بنکاری نظام کا محور ہیں۔
نیشنل بینک اف پاکستان
نیشنل بینک آف پاکستان 8 نومبر 1949 کو حکومت پاکستان کے ایک آرڈیننس کے تحت وجود میں آیا۔ اس بنک نے 20 نومبر 1949 سے باقاعدہ اپنا کام شروع کر دیا۔ قیام کے ابتدائی دور میں اس بنک کے فرائض میں ملکی زرعی اجناس ( خاص طور پر کپاس، پٹ سن کو مقرہ یوں پرخرید کر عالی منڈی میں فروخت کرنا شامل تھالیکن مئی 1950 سے یہ بنک عام تجارتی بنکوں کی طرح اپنے فرائض مہارت سے سر انجام دے رہا ہے۔
بنک کا سرمایہ اور انتظام
قیام کے وقت اس بنک کا کل منظور شده سرمایه 6 کروڑ روپے تھا جو سو سو روپے کے چھولا کا شخص پر منقسم تھا اس جنگ کا کل ادا شدہ سرمایہ (Paid up Capital) 3 کروڑ روپے تھا اس بنگ کے 25 فی صد حصص ماضی میں مرکزی بنک کے پاس تھے اور 750 حصص عام شہریوں نے خرید رکھے تھے جو بنکوں کے قومی تحویل میں جانے کے بعد وفاقی حکومت کی تحویل میں چلے گئے۔ اس طرح یہ بنک ملک کا سب سے پہلا سر کاری مالی ادارہ بن گیا۔ قومی تحویل میں آنے کے بعد اس بنگ کا ڈائر یکٹرز بورڈ ختم کر کے وفاقی حکومت نے ایک ایگزیکٹو بورڈ قائم کر دیا جو کہ ایک صدر اور چار سینئر افسران پر مشتمل ہے۔ اس بورڈ میں وزارت خزانہ کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے یہ بورڈ بنگ کے تمام معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔
نیشنل بنک آف پاکستان کے فرائض
نیشنل بنک آف پاکستان ملک کا سب سے بڑا اور با اعتماد ادارہ ہے جس کی شاخیں غیر ممالک اور اندرون ملک اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ اس بنک کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے جس حصے میں سٹیٹ بنک کی کوئی شاخ موجودتہ ہو وہاں یہ بنک سٹیٹ بنک کے ایجنٹ کی حیثیت سے تجارتی بنکوں کے لیے حساب گھر سرکاری محکموں کے حسابات کی دیکھ بھال زر مبادلہ کا انتظام وغیرہ کرتا ہے۔ اس جنگ کے اہم فرائض درج ذیل ہیں : نیشنل بنک لوگوں کی امانتیں غیر سودی کھاتوں مثلاً شراکت کی بنیاد پر نفع و نقصان کا کھاتہ، شراکت کی بنیاد پر نفع و نقصان کا ضرورت مند افراد اور تاجروں کو آسان شرائط پر قلیل المیعاد اورطویل المیعاد قرضے فراہم کر کے سرمایہ کاری کو فروغ دیتا ہے۔ امانت داروں کی قیمتی اشیا مثلا سونے، چاندی، زیورات، بانڈز، وصیتیں، قانونی دستاویزات وغیرہ ) بحفاظت رکھنے کے لیے مدتی کھاتہ وغیرہ) میں وصول کرتا ہے اور انہیں منافع ادا کرتا ہے۔ یہ جنگ حکومت کے لیے مالیات کی وصولیاں اور ادائیگیاں کرتا ہے اور زر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں مدد یتا ہے۔ لکی وغیر ملکی ہنڈیوں، کفالتوں اور تمسکات کی خرید وفروخت کرتا ہے اور ہنڈیوں پر نہ لگا کر قرضہ جاری کرتا ہے۔ بنک لاکرز مہیا کرتا ہے۔ حکومت کو غذائی اجناس کی خرید و فروخت اور کئی دوسرے ترقیاتی منصوبوں کی تحصیل کے لیے قرضے فراہم کر کے ترقی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ ملک کے اہم اور پیداواری لبوں مثلا نعت، زراعت نقل حمل اور درآمد برآمد وفروغ دینے کے لیے ای معاونت کے ساتھ ساتھ مفید مشورے بھی دیتا ہے۔ ملک کے تجارتی بنکوں میں کام کرنے والے افراد کو بیکاری کے متعلق تربیت دینے کے لیے تربیتی پروگرام کا اہتمام کرتا ہے۔ اپنے گاہکوں کے لیے ایجنسی کی خدمات مثلا کھا ہے داروں کی طلبی ضرورت ٹیکس کی ادائیگی میں کی قسطیں اور کرایہ جات وغیرہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ چیکوں ، سکول کالج کی فیسوں وغیرہ کی وصولی اور ادا تیتلی بھی کرتا ہے۔ سینیٹ بنک کے ایما پر زرمبادلہ کا کاروبار کرتا ہے اور سرمائے کو منافع بخش کاموں اور پراجیکٹوں میں لگا کر سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ سرکاری محکموں کے رواں حسابات کی نگرانی کر کے ان کی وصولیوں اور ادائیگیوں کو موثر بناتا ہے۔
نیشنل بیک کی کارکردگی
میشل بنک آف پاکستان کا ملکی بنکاری نظام کی توسیع و تنوع میں بڑا نمایاں حصہ ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ملک کو مالی وسائل کے نقد ان سے چھٹکارا دلانے اور بنکاری نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اس بنک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس بنک نے حکومت کے ایجنٹ کی حیثیت سے وہ تمام فرائض سر انجام دیے جو کسی ملک کا مرکزی بنک اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عمل میں لاتا ہے الہندا نیشنل بینک آف پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ بنک کے درج ذیل کاموں سے لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ بنکاری ڈھانچے میں نیشنل بنک آف پاکستان سب سے بڑا اور مضبوط تجارتی بنک ہے کیونکہ اس کے پاس دیگر تجارتی بنکوں کے مقابلے میں زیادہ موصولہ امانتیں ہوتی ہیں اور اس کے جاری کردہ قرضوں کی مقدار اور سرمایہ کاری کا حجم بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس جنگ نے ملک کے کونے کونے میں اپنی شاخیں کھول کر لوگوں کو قرضوں کی سہولت فراہم کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایسی بچت سکیمیں جاری کر رکھی ہیں جن کی بدولت لوگوں میں بچت کرنے کی عادات بڑھی ہیں۔ اس جنگ نے صنعت اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے خصوصی قرضوں کی سکیمیں شروع کر رکھی ہیں جس کی بدولت یہ بنک کسانوں کو پیداوار بڑھانے اور زرعی جدت سازی کے لیے زرعی قرضہ کا پروجیکٹ اور دیہی قرضہ کی سکیم شروع کر کے سرمایہ کاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ قرضے جاری کر رہا ہے جس سے ملک کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس بانک نے جدید بنکاری نظام کو متعارف کروانے کے لیے اپنے عمل کو تربیتی کورسز کرواکر اپنے کھاتے داروں کوئی سہوتیں مثلا کریڈٹ کارڈ، انٹرنیٹ بنکنگ دے رکھی ہیں ۔ ایک کون و مکان کی خریدار تغیر کےلیے ان اراک پر قرض فراہم کرنے والوں کے عیارزندگی کو تر کرنے یں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ صنفی مزدوروں میں بچت کی عادت ڈالنےکے لیے مختلف منتوں کو پکاری سہولتیں دے رکھی ہیں۔ یہ بنک حکومت کی تحکیم سال میڈیم انٹر پرائز کے فروغ کے لیے صنعتکاروں اور تاجروں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کر رہا ہے جس سے ملکی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ
فروری 1961 سے پہلے پاکستان میں زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے دو مالیاتی ادارے ( زرعی ترقی کی مالیاتی کارپوریشن اور پاکستان زرعی بنک ) اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ محدود وسائل کی دونوں اداروں میں تقسیم ، بے جا قانونی پابندیاں، قرضہ حاصل کرنے کی سخت شرائط اور بڑے زمینداروں کا بے جا اثر و رسوخ ان اداروں کی ناکامی کا سبب بنا اور بالآخر فروری 1961 میں قرضہ کے تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات اور زراعت کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں اداروں کو ضم کر کے اری ترقیاتی یک آف پاکستان کا نام دے دیا گیا جو بعد میں زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ اس بنک کا انتظام ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سپرد ہے جن کے ممبران کی تعداد 12 (بارہ) ہے۔ جن میں سے ایک چیئر مین، دس ڈائر یکٹرز اور ایک آزاد جموں کشمیر کا نمائندہ بطور مبصر بورڈ آئی ڈائر یکٹر میں شامل ہوتا ہے جن کی منظوری وفاقی حکومت اور سٹیٹ بنک کے قوانین کے مطابق ہوتی ہے۔ بنک کے مختلف امور کو بخوبی اپنانے کے لیے ایک ایگزیکٹو کمیٹی اور ایک مشاورتی کمیٹی بھی قائم ہوتی ہے جو بنک کے مجموعی معاملات کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ زرعی ترقیاتی بنک کا اولین فرض کسانوں کو زراعت کی ترقی کے لیے قرضے فراہم کرنا ہے یہ بنک کسانوں کو درج ذیل تین طرح کے قرضے جاری کرتا ہے۔
قلیل المیعاد کے قرضے
یہ قرضے مختصر مدت یعنی 6 ماہ سے لے کر 8 ماہ تک کے لیے ہوتے ہیں یہ ایسے قرضے ہیں جو کسانوں کو کاشتکاری ضروریات کی فوری تحمیل کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں مثلا بیچ ، کھاد، ادویات، جانوروں کی خوراک وغیرہ۔
درمیانی مدت کے قرضے
یہ قرضے کسانوں کو ڈیڑھ سال کی مدت سے لے کر 5 سال تک کے لیے جاری کیے جاتے ہیں تا کہ کسان زرعی آلات ، مشیری ٹیوب ویل، کنوؤں کی تعمیر وغیرہ کر سکیں۔
طویل المیعاد کے قرضے
به بنک شجر کاری، ماہی پروری، جنگل پانی، پرورش حیوانات، مرغ بانی ، ریشم کے کیڑے پالنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے قرضے 5 سے 10 سال کی مدت کے لیے جدید زرعی آلات مثلاً ٹریکٹر تھریشر وغیرہ کی خرید کے لئے فراہم کیے جاتے ہیں اس کے علاود ان قرضوں کو گودام کی تعمیر کولڈ سٹور پیج بنانے کے لیے بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ فراہم کرتے ہیں۔ ی بینک زراعت سے مسلک صنعتی یونٹوں کی حوصلہ افزائی کے لئے قرضے فراہم کر کے پیداوار کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ بک لوگوں کی امانتوں کو صل کر کے قیمتی اشیا کی حفاظت کے لیے لاکر مہیا کر کے بنک کے عملہ کی تربیت اور تحقیق کے لیے کا نفرنس وغیر ہ منعقد کروا کر عام بنکاری کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے۔ یہ بنک ملک میں خوراک کی فصلوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے خصوصی پروگرام کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ پودوں کی حفاظت فصلوں کی حفاظت اور جدید کا شتکاری سے استفادہ کرنے کے لیے مفید مشورے بھی کسانوں کو بہم پہنچاتا ہے۔ کا شکاروں، زمینداروں اور دور دراز علاقوں تک بنکاری کی سہولیات پہنچانے کے لیے اس نے ماڈل ولیج سلیم اور دیہی تک کی حکیم کا بھی آغاز کر رکھا ہے جس سے زمینداروں کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ یہ بنک امداد باہمی کی انجمنوں کو زرعی آلات کی خریداری اور نقدی کی شکل میں قرضے جاری کرتا ہے اور ان کی مالی مشکلات کا اس نے ایک نئی سکیم نگہداشتی قرضہ سکیم شروع کر رکھی ہے۔ جس کے تحت یہ بنک قرضہ حاصل کرنے والے کسانوں کوکھیتی باڑی سید باب کرتا ہے۔ کے بارے میں صلاح و مشورہ فراہم کرتا ہے۔ دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بنک نے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے قرضہ حاصل کرنے کے طریقے ، جدید کا شتکاری کے مسائل کا حل اور تجاویز فصلوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر کے بارے میں تمام بنیادی معلومات اپنی ویب سائٹ پر مہیا کر رکھی ہیں تا کہ کسان گھر بیٹھے کمپیوٹر، انٹرنیٹ کے ذریعے مفید مشورے اور بنکاری سے متعلق معلومات حاصل کر سکیں۔
بینک کی کار کردگی
زرعی ترقیاتی بنک نے ملک کی زرعی ترقی کے لیے جو اہم کردار ادا کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس بنک نے 32 بلین روپے کے قرضے تقریباً 5 لاکھ کسانوں کو جاری کر رکھے ہیں اور ملک میں اس کی تقریباً 200 برانچیں زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ یہ بنک اپنے تمام وسائل چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو قرضے دینے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس بنک نے ملازمین کی تربیت کے لیے بڑے بڑے شہروں میں تربیتی مراکز کھول رکھے ہیں جو کسانوں کی بہتری کے لیے مصروف عمل ہیں ۔ اس بنگ نے مو بائل کریڈٹ آفیسر ز اپنے حلقے کے مخصوص دیہاتوں میں بھیج کر قرض داروں کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔
صنعتی ترقیاتی بنک آف پاکستان
کسی ملک کی ترقی کا احصار نمایاں طور پر اس کی صنعتی ترقی پر ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کو آزادی ملتے ہی صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے الی وسائل ک فقدان کا سامناکرنا پڑا انڈا ارمان کی قلت پر قابو پانے کے لیے 1949 میں حکومت پاکستان نے مفتی مالیاتی کارپوریشن قائم کی۔ بدقسمتی سے کار پوریشن مالی وسائل کے فقدان کے مسئلہ کو حل نہ کر سکی۔ اس کے بنکاری اختیارات محدود نوعیت کے تھے مثلا لوگوں کی امانتیں وصول نہیں کرسکتی تھی، زرمبادلہ کے معاملات اس کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ قرضے جاری کرنے کی شرائط سخت تھیں وغیرہ لہذا حکومت پاکستان نے قرض کا تحقیاتی کمشن کر کے اس ادارے کی سفارشات کی روشنی میں اگست 1961 میں صنعتی مالیاتی کارپوریشن ختم کر کے اس کو صنعتی ترقیاتی ال بنک آف پاکستان کا نام دے دیا اور اس کے اہم فرائض میں نئی صنعتوں کے قیام کے لیے قلیل اور طویل المیعاد قرضوں کی فراہمی اور پرانی صنعتوں کی ترقی کے لیے بدل کار کا اصول شال کر دیے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے قوانین کے تحت اس بنک کا انتظام ایک بورڈ آف ڈائر یکرا جو کہ ایک چیئر مین اورسات ایگز یک ارکان پر عمل ہوتا ہے، جس کی تقری وفاقی حکومت کرتی ہے، چلاتا ہے۔ بورڈ کا چیئر مین اس تک کا نیجنگ ڈائر یکٹر بھی کہلاتا ہے۔ جنگ کے تمام امور کی نگرانی حکومت اور وزارت خزانہ کے سپرد ہے۔
صنعتی ترقیاتی بنک کے فرائض
صنعتی ترقیاتی بنک آف پاکستان صنعت کی ترقی کے لیے درج ذیل فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ یہ تک ملک میں چونے اور درمیانے درجے کی بھی عتوں کے قام اور موجودہ نعتوں کی وسج کے لیے قیل المیعاد در طویل المیاد قرضے فراہم کرتا ہے۔ یہ بنگ عام طور پر خام مال سے مصنوعات تیار کرنے والی نجی صنعتوں مثلاً انجینئر نگ ، بجلی کا سامان، کیمیادی کھاد کی صنعتیں، کان کنی، کاغذ، پارچہ بانی لکڑی کی مصنوعات فلم سازی ، کپڑا، غذائی اشیا وغیرہ کو قرضہ فراہم کرتا ہے۔ صنعتی اداروں کو سر مایہ مہیا کرنے کی خاطر ان کے حصص اور کفالتیں خریدتا ہے اور انھیں مالیات فراہم کرتا ہے۔ یہ بنک ملک میں متوازن معاشی ترقی کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے پسماندہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں قائم صنعتوں کو ترقی یافتہ علاقوں کی نسبت زیادہ آسان شرائط پر قرضے فراہم کرتا ہے تا کہ پسماندہ علاقوں میں نجی صنعتیں فروغ پائیں اور روزگار کا معیار بڑھے۔ یہ رنگ کئی کاروباری یونٹوں میں براہ راست سرمایہ کاری بھی کرتا ہے تا کہ دوسرے کاروباری یونٹوں کے ساتھ مل کر ملکی پیداوار میں اضافہ کر سکے۔ یہ بنک برآمدی اشیا پیدا کرنے والی صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر قرضہ فراہم کرتا ہے جس سے برآمدی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نئی صنعتوں کے قیام اور ترقی کے لیے زرمبادلہ فراہم کرتا ہے تا کہ بیرون ممالک سے ضروری مشینری خریدی جا سکے۔ لوگوں کی امانتیں دوصول کرتا ہے اور انہیں طے شدہ شرائط کے مطابق موصولہ امانتوں پر منافع ادا کرتا ہے۔ اس بنک نے اپنے کھاتہ داروں کے لیے کئی بچت سکیمیں شروع کر رکھی ہیں جن میں ماہانہ منافع سرٹیفکیٹ ، ٹرم ڈیپازٹ صنعتی سرمایہ سرٹیفکیٹ ، ڈیپازٹ سرٹیفکیٹ ، پرافٹ پلس سیونگ ڈیپازٹ سکیم اور غیر ملکی کرنسی اکا ؤنٹ قابل ذکر ہیں۔ ہے قرضہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بنگ صنعتکاروں کو سرمایہ کاری کے معاملات میں مفید فنی مشورے بھی مہیا کرتا ہے۔ 10 اس بنک نے اپنے کھاتے داروں کو بنکاری سہولتوں سے آگاہی کے لیے کمپیوٹر، انٹرنیٹ کی سہولت بھی فراہم کر رکھی ہے۔
صنعتی بنک کی کارکردگی
صنعتی ترقیاتی بینک آف پاکستان نے 1961 سے لے کر اب تک صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی یں اور مکی صفتی اثاثوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بنک نے اب تک تقریبا بلین روپے کے قرضے جاری کر رکھے ہیں اور پورے ملک میں اس کی کی شاخیں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اس بنک کے فراہم کردہ قرضوں کے باعث ملک میں کئی ئی صنعتیں قائم ہوئی ہیں اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کے باعث قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔