چوتھا پانچ سالہ منصوبہ

چوتھا پانچ سالہ منصوبہ اگر چہ چوتھا پانچ سالہ منصوبہ اس عشرے کے لئے اختیار کی جانے والی پالیسیوں کا ایک حصہ ہے لیکن ہے کہ جو حقیقت یہ ہے کہ چوتھا پانچ سالہ منصوبہ جوملک کے دونوں بازوؤں کی ضروریات اور وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا تھا، 1970ء کے اوائل ہی میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نتیجہ میں بے معنی ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد دو سال کا عرصہ ملکی تا 1970 کے اورال میں مشرقی پاکستان کی علم کی کے نتیجہ میں بےمعنی ہوکر رہ گیا۔ اس کے بعد دو سال کا عرصہ کی حالات سنبھالنے، نئی ضروریات ، نئے تقاضوں اور وسائل کی نئی صورتحال سے سمجھوتہ کرنے میں گزرا۔ بہر حال 1972 ء کے آغاز ہی سے اس وقت کی حکومت نے اپنی پالیسیوں کا اطلاق شروع کر دیا۔ زرعی اصلاحات کا نفاذ ہوا۔ صنعتوں کے سلسلہ میں اری نے اس وقت کی نے اپنی کا کر دیا۔ زرعی کا ہوا۔ صنعتوں کے میں ایا اور الفت میں دلائل دیئے جاتے رہے ہیں ۔ ہر طور اس حکومت نے جو پالیسی اختیار کی وہ متنازعہ فیہ ہے۔ اس کے حق اور مخالفت میں دلائل دیئے جاتے رہے ہیں۔ بہر طور اس پالیسی کے تحت 31 بڑے صنعتی یونٹوں کوقومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ اس کے ایک ہی سال بعد یعنی 1973ء میں تھی کی صنعت بھی کے تحت او با امتی ہوتوں کو تو ملکیت میں لے لیا گیا۔ اس کے ہی سال بعد یعنی 1973 ء میں بھی کی صنعت بھی قومیائی گئی۔ 1974ء میں جہاز رانی اور بینکاری کے شعبوں کو بھی سرکاری انتظام میں لے لیا گیا۔ اس کے فورا بعد چاول اور کپاس کی برآمدی تجارت بھی سرکاری شعبے کا حصہ بنادی گئی۔

چوتھا پانچ سالہ منصوبہ

پاکستان شینگ کارپوریشن

جہاز رانی کا کام پاکستان شپنگ کارپوریشن  کے سپرد کر دیا گیا۔ بنکاری کے امور پاکستان بینکنگ کونسل نے سنبھال لئے اور چاول اور کپاس کی تجارت کے لئے علی الترتیب رائس ایکسپورٹ کارپوریشن اور کاٹن ریڈنگ کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قومیائے گئے 32 صنعتی یونٹوں کو ان کی قسم کے اعتبار سے 10 مختلف گروپوں میں بانٹ دیا گیا اور ہر ایک گروپ کے انتظام کی خاطر ایک ایک کارپوریشن کی تشکیل دی گئی۔ ان دس صنعتی گروپوں کے لئے جائی گئی کارپوریشنوں میں سے چند ایک نام درج ذیل ہیں۔

  • نیشنل فرٹیلائزر کار پوریشن
  • پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن
  • پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن
  • اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن آف پاکستان

ان سب کارپوریشنوں کا مجموعی انتظام نئے قائم شدہ بورڈ آف انڈسٹریل مینجمنٹ  کے سپر د کیا گیا۔ لیکن بعد ازاں نئی سیاسی تبدیلیوں کے بعد حکومت نے اس بورڈ کو توڑ کر براہ راست ان سب کارپوریشنوں کا انتظام وزارت پیداوار کے سپرد کر دیا۔ سرکاری شعبے کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دینے کی پالیسی کو بھی شعبہ کے آجروں نے بہت زیادہ نا پسند کیا چنانچہ اس دور حکومت میں بھی شعبے نے ترقیاتی پروگراموں میں کوئی قابل ذکر دلچسپی نہیں لی۔ 1977 ء میں وقوع پذیر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے بعد نئی حکومت نے ایک بار پھر نجی شعبے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ چنانچہ پانچویں پانچ سالہ منصوبے 83-1978ء کے لئے پیش کی جانے والی صنعتی پالیسی کے مطابق :- صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے لائحہ عمل اسی طرح متعین کیا گیا ہے کہ سرکاری شعبہ پہلے سے طے شدہ پروگراموں پر عمل جاری رکھے گا جبکہ ملکی صنعت کی ترقی کے لئے بھی شعبہ کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ صنعتی پیداوار میں 10 فیصد سالانہ اضافہ کو مکن بنایا جائے گا۔ خام قومی پیداوار میں اضافے کی شرح 7.2 فیصد سالانہ تک بڑھائی جائے گی۔  غیر ملکی امداد کا تناسب رفتہ رفتہ کم کیا جائے گا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی کو اپنا یا جائے گا۔ نجی اور سرکاری شعبے میں مجموعی طور پر 40 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی ۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے مختص کی گئی 210 بلین روپے کی رقم میں سے 148 بلین روپے سرکاری اور 19 بلین روپے نجی شعبہ کے لئے رکھے گئے ۔ صنعتی ترقی کے لئے مخصوص کی گئی نجی شعبے کے تحت خرچ ہونے تھے۔ مختلف صنعتی شعبوں میں پیداوار کے جو اہداف متعین کئے گئے ہیں۔

پاکستان شینگ کارپوریشن

1990-2008 کا عرصہ

1990ء کے عشرہ میں پاکستان کی معیشت مختلف مراحل میں زیادہ تر جمود کا شکار رہی اس کے بعد والے سالوں میں حکومت کی نئی حکمت عملی کے زیر اثر صنعتی شعبہ میں نت نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ ملا۔ 01-2000 – سے پھلتی پھولتی معیشت کے بدولت بڑے پیمانے کے صنعتی شعبہ کو وجود ملا۔ پچھلے تین سالوں میں ہماری معیشت نے بڑے پیانے کے صنعتی شعبہ کی بدولت 4.8 فیصد نشو نما کی شرح  حاصل کیا۔ اس نشو و نما کی شرح (4.87) میں جن صنعتی اشیا نے معاونت کی ان میں سے دواسازی (30.76 فیصد ) لکڑی کی اشیاء (21.9 فیصد )، انجینئر نگ کی اشیاء (19.5) فیصد)، خوراک و مشروبات (11.1 فیصد)، پٹرولیم کی اشیاء (6.03 فیصد)، کیمیائی اشیاء (3.1 فیصد ) ان کے علاوہ انفرادی اشیاء میں کاٹن کے کپڑے (4.8 فیصد) کاٹن کی پیداوار 3.3 فیصد ٹیکسٹائل گروپ میں، خوردنی تیل (1.1 فیصد ) ، چینی (33.9 فیصد) اور سگریٹ (5.1 فیصد) کھانے پینے کی اشیاء میں سینٹ (17.9 فیصد) غیر دھاتی معدنی اشیاء کے گروپ میں ، اور بیس (32.0 فیصد ) چھوٹی گاڑیاں (16.4 فیصد ) اور موٹر سائیکل (28.06 فیصد ) ، آٹو موبیل گروپ میں بعض گروپوں کی پیداوار کم ہوئی جن میں زرعی ادویات (16.89 فیصد ) ، الیکٹرونکس (4.6 فیصد)، کاغذ اور کاغذی گتے (5.5 فیصد) ، لو ہے اور سٹیل کی اشیاء (7.6 فیصد ) ۔ البتہ کچھ انفرادی اشیاء میں منفی نشو و نما کارجحان پایا گیا جن میں کاریں اور جیپیں (3.9 فیصد ) فاسفیک زرعی ادویات (24.0 فیصد ) اور بلٹس  .20 فیصد ۔ اعداد و شمار کے مطابق ٹی وی سیٹوں کی تعداد میں نشو و نما کی شرح 19.3 فیصد ( موجودہ نظر ثانی کے سال میں ) رہی۔ اسی طرح موجودہ مالیاتی سال 2008 ء میں پچھلے مالیاتی سال کے مقابلہ میں 21.2 فیصد سے 32.0 فیصد ریکارڈ پیداواری اضافہ ہوا ہے جبکہ پرنٹنگ، پیلینگ مٹیرل، کاغذی گتہ اور چپ بورڈ کی پیداوار میں 5.6 فیصد کی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ گندم ، تنکوں اور دوسرے خام مال کی پیداوار میں کمی ہے۔ مندرجہ ذیل نیل دیکھئے۔

1990-2008 کا عرصہ

موجودہ عشرہ

موجودہ عشرہ کے آغاز میں مالیاتی اور دیگر شعبہ جات نے کافی ترقی کی ہے اور اس میں نشو و نما  کی شرح سال 03-2002 سے 9.7 فیصد رہی ہے جبکہ سال 08-2007 ء میں یہ شرح کم ہوتی ہے اور موجودہ سال یعنی 2008 ء میں بھی پچھلے سال کی طرح صنعتی شعبہ کی نشو و نما کی شرح میں کمی برقرار ہے جو پہلے 9 ماہ کے دوران موجودہ مالیاتی سال میں 5.4 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ کی نشو نما کی شرح کا ہدف 10.9 فیصد امید کی جارہی تھی اور پچھلے سال یہ شرح 8.1 فیصد تھی۔ بڑے و پیمانے کی صنعت جو کہ کل پاکستانی صنعتی شعبے کا 70 فیصد بنتی ہے کی نشود نما کی شرح صرف 4.8 فیصد 08-2007 کے مالیاتی سال میں رہی جبکہ اس شرح کا متوقع ہدف 12.5 فیصد تھا اور پچھلے سال 2007 میں یہ شرح 8.6 فیصد رہی تھی۔ صنعتی شعبہ کی شرح میں یہ کمی ، سیاسی رسہ کشی ، امن وامان میں نقص ، بجلی اور گیس کی کمی اور زر کی کمی کے ساتھ کاروباری لاگت میں زیادتی کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "چوتھا پانچ سالہ منصوبہ"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment