اسلامی قانون کے بنیادی مآخذ ⇐ مآخذ سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے قانون اخذ کیا جاتا ہے یا وہ مقامات ہیں جہاں سے کسی قانون کیلئے دلائل حاصل کئے جاتے ہیں۔
بنیادی مآخذ
جن چار مآخذ پر اسلامی قانون کی بنیاد رکھی جاتی ہے وہ درج ذیل ہیں
قرآن حکیم
سنت حدیث
اجماع
قیاس
قرآن حکیم
اسلامی قوانین کا اصل اور بنیادی مآخذ قرآن حکیم ہے ۔ یہ کتاب حضور اکرم ﷺ پر تقریبا 23 سال کے عرصے میں نازل ہوئی۔ یہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کیلئے ہدایت ہے اور ہر دور کے تقاضوں کو بنیادی طور پر پورا کرتی ہے۔
تعمیر ارتقاء
اسلامی قانون کے بنیادی مآخذ قرآنی اصول و کلیات اور او امر نواہی اپنی جگہ ثابت و قائم رہتے اور اس کی تشکیل اور تعمیر ارتقاء پذیر معاشرہ کے ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے قانون سازی میں عدل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
مخصوص احکام
زندگی کے ہر شعبے میں قانون سازی کرتے وقت عدل کو اصول قانون تسلیم کیا جاتا ہے تاکہ پر امن معاشرے کے قیام اور انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے ۔ قرآن حکیم میں قانون کے حوالے سے . مخصوص احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
اقتدار اعلی توحید
اسلامی ریاست کے خدو خال
حقوق عامہ
عدل
حدود قصاص
اقتدار اعلیٰ
کائنات میں اقتدار اعلی در حقیقت خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ کائنات کا خالق و مالک وہ خود ہے ۔ اس کی و بادشاہت از لی وابدی ہے۔ اس کے متعلق آیات قرآنی کا حوالہ درج ذیل ہے
ترجمہ ” خبردار سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے ۔ “ ( الاعراف :14)
ترجمہ اسی (اللہ) کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے۔ ” ( لین 83)
اطاعت رسول
اللہ پر یقین اور اس کی اطاعت کے ساتھ ضروری ہے کہ اطاعت رسول بھی کی جائے ۔ اس ضمن میں قرآنی آیات کا حوالہ درج ذیل ہے
ترجمہ
ترجمہ ” جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔” (النساء :80)
ترجمہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروا گر تم مؤمن ہو۔ (الانفال: 1)
اسلامی ریاست کے خدو خال
قرآن حکیم نے اسلامی ریاست کے جو خدو خال اور فرائض بیان کئے ہیں اس کی وضاحت کیلئے قرآنی آیات کا ترجمہ ذیل میں درج ہے
اسلام
ترجمه دین ( نظام حیات ) تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو ( اس دین سے ) اختلاف کیا تو علم حاصل ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا اور سزادینے والا ہے۔ (آل عمران: 19)
آخرت میں نقصان اٹھانا
ترجمہ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین ( نظام حیات ) کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ۔ ” ( آل عمران (85)
زکوۃ ادا کرنا
ترجمہ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔(الحج۔41)
حقوق عامه
حقوق عامہ سے مراد عوام کے انفرادی اور اجتماعی حقوق ہیں
جن کا انسانی زندگی یا معاشرے سے گہرا تعلق ہے۔
حقوق اور فرائض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
آپس کے سماجی تعلق اور حقوق و فرائض کے تصور سےسمجھ سکیں درج ذیل حوالے مفید ثابت ہوں
انصاف
ترجمہ “اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو ( مالی امدد ) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا معقول کاموں سے سرکشی سے منع کرتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے ۔ (النحل (10)
تمسخر
ترجمہ “اے اہل ایمان ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتوں سے ( تمسخر کریں ) ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور اپنے مومن بھائی کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام ( رکھنا ) گناہ ہے۔ (الحجرات (11)
احکام عدل
عدل اگر چہ ا انصاف کا اعلیٰ ترین درجہ ہے لیکن کثرت سے استعمال سے یہ دونوں لفظ ہم معنی ہو چکے ہیں۔ قرآن میں اس مقصد کیلئے ” “عدل” کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ عدل نہ صرف معاشرتی زندگی کیلئے ضروری ہے۔
ریاست کے اہم ترین فرائض
بلکہ ریاست کے اہم ترین فرائض میں سے ایک ہے۔ جب تک معاشرے میں عملاً عدل و انصاف نہیں ہو گا۔ اس وقت تک امن قائم نہیں رہ سکتا ۔ قرآن پاک میں مختلف مقامات پر عدل کا بیان ملتا ہے چند آیات کا حوالہ درج ذیل ہے۔
شہادت
ترجمہ: “اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کیلئے سچی گواہی دو ۔ خواہ (اس میں ) تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو اللہ ن کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑ دینا اگر تم پیچدار شہادت دو گے یا شہادت دینے سے بچنا چاہو گے تو(جان رکھو )اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔ (النساء (135)
انصاف کی گواہی
ترجمہ کا ایمان والو اللہ کیئے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔ ” (المائدہ 8)
صلہ رحمی کا حکم
ترجمہ اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائ اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم یا درکھو۔ (النحل (9)
حدود و قصاص
قرآن میں مختلف جرائم کیلئے حد بیان کی گئی ہے ۔ سزا کے قرآنی فلسفہ کو سمجھنے کیلئے سورۃ البقرہ کی آیت 179 کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
مومن
اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اسے عقلمندو تاکہ تم بچتے رہو۔ ( سورة البقرة (179) اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہو جائیں ۔ (سورۃ یونس 99)
اسلامی قانون کا دوسرا مآخذ – سنت نبوی
سنت نبوی سے مراد وہ تمام امور ہیں جو خود نبی کریم ﷺ سے آپ کے اقوال یا افعال کی صورت میں منقول ہوں یا کسی ایسے قول یا فعل کی صورت میں منقول ہوں جس سے آپ نے منع نہ فرمایا ہو۔
مفہوم کے لحاظ سے
اس مفہوم کے لحاظ سے سنت حدیث کے مترادف ہے ۔ سنت کا اطلاق دور نبوی کی اس عملی اور واقعی صورتحال پر بھی ہو جاتا ہے جس میں شرعی احکام عملی صورت میں جاری ہوئے ۔ سنت رسول قرآن کی عملی تشریح ہے۔ قرآن مجید نے رسول اکرم کی پیروی کو واجب قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
وما اتكم الرسول فخذوه – ترجمہ: “جو کچھ پیغمبر تم کو دے اس کو لے لو۔”
رسو اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے مبلغ بنا کر بھیجا ۔ آپ قرآن کے مطلب کو کبھی قول سے کبھی فعل سے اور کبھی قول و فعل دونوں سے بیان فرماتے تھے۔ مثلاً آپ نے نماز ادا فرمائی اور فرمایا۔
اسلامی قوانین
اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ۔ چنانچہ اس بنیاد پر سنت کو اسلامی قوانین کے اہم مآخذ کی حیثیت دی جاتی ہے۔
سنت کی طرف رجوع
شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ” حجہ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں جب حضرت ابوبکر کے سامنے کوئی مسئلہ آتا تو پہلے وہ قرآن کریم میں اس کا حل تلاش کرتے اگر نہ ملتا تو سنت کی طرف رجوع کرتے اگر اس میں بھی نہ ملاتو صحابہ کرام کو جاتے اور پوچھتے کہ اس مسئلے پر کسی نے حضور اکرم ﷺ سے کچھ سنا ہے اگر صحابہ کچھ بتاتے اور تو آپ بہت خوش ہوتے اور اس کے مطابق مسئلہ حل کرتے ۔ بعد کے خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
اہمیت کا حامل
اسلامی قانون میں حدیث کی اہمیت کی وجہ سے مسلمانوں نے اس پر بہت تحقیق کی۔ اس کے پرکھنے کیلئے اصول وضع کئے اور اس بنیاد پر کئی نئے علوم مرتب کئے ان میں علم اسماء الرجال خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں تقریبا 5 لاکھ راویوں کے حالات محفوظ ہو گئے۔
اسلامی قانون کا تیسرا مآخذ اجماع
فقہاء کی اصطلاح میں اجتماع کسی معاملہ میں اہل حل و عقد کے اتفاق کو کہتے ہیں۔ چنانچہ فقہ کے مطابق” رسول کی امت کے اہل حل عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے ۔
اجماع کے اصول
رسول اکرم ﷺ وصال کے بعد جب سلسلہ وحی منقطع ہو گیا تو وضع قانون کیلئے جہاں حدیث سے بھی رہنمائی نہ حاصل ہو تو وہاں اصول اجماع بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ خلافت کیلئے حضرت ابوبکر کا انتخاب اس اجماع کے اصول پر مبنی تھا۔ اجماع کے معنی عزم و اتفاق کے ہیں قرآن حکیم میں فرمایا گیا۔
ترجمہ
فاجمعوا اهواء کم و شرکاء کم – (التوبه (71) ترجمہ “تم اپنی بات طے کر لو اور اپنے شریکوں کو اکٹھا کر لو ۔”
اہمیت و ضرورت
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمات قرآن اپنی جگہ کامل ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں پیش آنے والے مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کرنے کیلئے اجماع کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ یہ اجماع حالات کی مناسبت سے ملت کی فلاح و بہبود سے متعلق جملہ امور میں ہو سکتا ہے ۔
علمی حیثیت
دراصل قانون کو حالات اور زمانے کے مطابق ڈھالنے کیلئے اجماع ایک قسم کا اختیار ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے ان لوگوں کو عطا ہوا ہے جو فکری اور علمی حیثیت سے اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “اسلامی قانون کے بنیادی مآخذ“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻 مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……. اسلامی قانون کے بنیادی مآخذ …….