اسلامی قوانین کا ارتقاء

اسلامی قوانین کا ارتقاء ⇐ اگر چہ اسلامی قانون بنیادی طور پر مکمل ضابطہ حیات ہے لیکن نئے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کیلئے مختلف ادوار میں قرآن وسنت کی روشنی میں فتاوی ( قانون سازی ) سے کام لیا گیا۔ اسلامی قوانین کے ارتقاء کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

 عہد نبوی ( دو روحی )

 عہد خلافت راشده ( دور توضیح)

دور صحابہ وتابعین

 تدوین فقہ (دور مذاہب)

دور تقلید

ان ادوار کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے

اسلامی قوانین کا ارتقاء

 عہد نبوی یا (دو روحی)

اس دور میں شریعت ( اسلامی قوانین ) براہ راست حضور کی ذات سے وابستہ تھی۔ آپ پر وحی نازل ہوتی اور اس کی روشنی میں آپ مختلف معاملات کی وضاحت کرتے اور فیصلے صادر فرماتے۔

تعلیمات

یہ تعلیمات عمومی طور پر اصولی اور دستوری تھیں، جن کی بنیاد پر زمانہ اور حالات کے مطابق قانون سازی ہو سکتی تھی ۔

قرآن اور سنت

حضور مسائل پر کبھی پہلے سے موجود قوانین کو اصلاح کے ساتھ نافذ فرمادیا۔ اس دور میں اسلامی قوانین کے صرف دو مآخذ تھے ۔ قرآن اور سنت ۔ قرآن میں ایک صالح معاشرہ کیلئے قوانین موجود ہیں۔

انسداد کیلئے ہدایت

نزول قرآن کی نوعیت یہ تھی کہ جیسے جیسے مسائل و خطرات پیش آتے ان کے حل اور انسداد کیلئے ہدایت الہی نازل ہوتی ۔ حضور کی تشریحات کا بھی یہی رنگ تھا۔ جب کوئی مسئلہ پیش ہوتا یا غلط فہمی ہو جاتی تو حضور تشریح فرما دیتے۔

 خلافت راشدہ کا زمانہ

آنحضور کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ خلافت راشدہ کے دور میں فتوحات کی کثرت اور مختلف ملکوں اور قوموں سے روابط کی وجہ سے نت نئے سماجی و اجتماعی مسائل ابھرے ۔

 خلافت راشدہ کا زمانہ

توضیح اجماع

خلفائے راشدین نے قرآن و سنت کی توضیح اجماع صحابہ اور مشاورت سے ان مسائل کو حل کیا ۔ اجماع اور مشاورت سے کام لینے کی ترغیب قرآن وسنت میں موجود تھی ۔

استفادہ

صحابہ کرام نے اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے ان سے استفادہ کیا۔ اجماع کو ایک منظم شکل دی گئی ۔ باہمی صلاح مشورے سے مسائل کا حل ڈھونڈا جاتا تھا ۔ جب کوئی مسئلہ در پیش ہوتا اس کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کیا جاتا۔

دور صحابہ و تابعین تدوین فقہ کا ابتدائی دور

یہ دور 41 ہجری سے لے کر دوسری صدی کے آغاز تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں اسلامی قوانین کی با قاعدہ تدوین شروع ہوئی ۔ عام علماء اور فقہاء نے دوسرے ممالک اور علاقوں کی طرف سفر شروع کیا اور مختلف شہروں میں پھیل کر تبلیغ دین اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور بہت سے نامور شاگرد پیدا کئے۔

مسلمانوں کی تعلیم و تربیت

غیر عرب مسلمانوں کی تعلیم و تربیت میں فروغ ہوا۔ روایت حدیث کا رواج عام ہوا اور حدیث کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھا۔ اسلامی قوانین کو سمجھنے کیلئے سنت کے استعمال پر اختلاف ظاہر ہوئے۔ اہل مدینہ سنت کو مدنظر رکھ کر فتوی دیتے تھے جبکہ اہل عراق زیر غور مسئلے پر کوئی حدیث نہ ملنے کی صورت میں عقلی اور اصولی معیار بھی استعمال کرتے تھے۔

فقہاء کے مختلف مسائل

اس بنیاد پر اسلامی قوانین کیلئے قیاس استحسان اور استصلاح وغیرہ کا استعمال ہونے لگا۔ مکہ مدینہ مصر شام یمن اور عراق میں فقہاء نے مختلف مسائل کے حل کیلئے فتوے دیئے ۔

مشہور فقہاء و مفتی

مدینے میں مشہور فقہاء میں حضرت عائشہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عکرمہ حضرت محمد بن مسلم حضرت عامر بن شرجیل شام میں حضرت عمر بن عبد العزیز مصر میں عبداللہ بن عمرو بن العاص یمن میں طاؤس بن کیسان مشہور فقہاء و مفتی تھے۔ اس دور میں فقہ کے مختلف مذاہب نہیں تھے اور کوئی شخص کسی بھی مفتی سے رائے لے لیتا تھا۔

احادیث کا رواج

اس دور میں شیعہ اور خوارج نے بھی ترقی کی۔ حدیث کی اہمیت کے پیش نظر جعلی احادیث کا رواج ہوا تو روایت و تدوین حدیث کا با قاعدہ علم شروع ہوا اور حدیث کی صحت پر زور دیا جانے لگا۔

احادیث کا رواج

تدوین اصول فقہ دور مذاہب

اس دور کی ابتداء دوسری صدی ہجری کے آغاز سے ہوئی ۔

اس وقت تک مختلف مکاتب فکر وجود میں آچکے تھے

 اس دور میں فقہ کی با قاعدہ تدوین ہوئی۔

 کئی فقہی مذاہب قائم ہوئے ۔

اہم محدثین

اس دور میں تدوین حدیث کا کام ہوا اور مختلف مسلم ممالک سے محدثین نے اس میں حصہ لیا۔ اس دور کے اہم محدثین میں امام مالک بن انس عبدالمالک بن عبدالعزیز سفیان ثوری اور عبدالرحمن الاوزاعی شامل ہیں تدوین کے ابتدائی دور میں حدیث اور صحابہ کے اقوال جمع کئے گئے ۔

صحیح احادیث کا ذخیرہ

بعد میں ان دونوں کو الگ الگ جمع کیا گیا۔ اگلے مرحلے میں احادیث کی چھان بین کی گئی اور صحیح احادیث کا ذخیرہ کیا گیا ۔ حدیث کی چھ کتابیں صحاح ستہ کے نام سے وجود میں آئیں۔ ان کے نام درج ذیل ہیں۔

صحیح بخاری

صحیح مسلم

سنن ابی داؤد

ترمذی

النسائي

ابن ماجه

اس دور میں فقہ کے اصول مدون ہوئے ۔ اختلافات کی بنیاد پر مسلمانوں میں چار فقہی مذاہب حنفی مالکی شافعی اور حنبلی فروغ پذیر ہوئے اور انہوں نے سب سے زیادہ رواج پایا۔ شیعہ میں زیدیہ اور امامیہ (اثناء عشریہ یا جعفریہ ) کے فقہ جاری ہوئے ۔

خصوصیت

اس دور میں فقہ کی بڑی خصوصیت تھی کہ یہ عملی سے نظری میں تبدیل ہو گیا۔ یعنی اب صرف در پیش مسائل کے حل کیلئے بحث نہیں ہوتی تھی بلکہ فرضی اور ممکنہ مسائل سے بھی بحث کی جاتی تھی۔ اس سے فقہ ایک نہایت وسیع علم بن گیا۔ اس دور کے بعد چند فقہی مذاہب رائج ہو گئے ۔

 دور تقلید

فقہ میں تقلید سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت میں جن مسائل کا واضح حل نہیں ہے ان کے متعلق کسی فقیہہ کی رائے کو تسلیم کر کے اس کی فقہ پر عمل کیا جائے ۔ چار فقہی مذاہب میں دوام آیا تو دور تقلید شروع ہو گیا۔ چوتھی صدی ہجری کے بعد اہل سنت نے ان چار مذاہب میں سے کسی نہ کسی کی پیروی شروع کر دی۔

اسلامی قانون کے مترادف

یہ پیروی عام اور جامد ہو گئی اور چاروں مذاہب، شریعت اور اسلامی قانون کے مترادف قرار پائے اور مختلف اسلامی ممالک میں رائج ہوئے ۔ وسطی ایشیا اور برصغیر پاک و ہند میں فقہ حنفیہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے ۔

اسلامی قانون کے مترادف

تنقید                            

تاریخی طور پر سلطنت عثمانیہ میں حفی فقہ کو سرکاری طور پر رائج کیا گیا۔ حجاز مصر افریقہ میں فقہ مالکی عام ہے۔ لبنان، شام، یمن وغیرہ میں شافعی فقہ کے پیرو کار زیادہ ہیں۔ حنبلی فقہ کے پیروکاروں کی تعداد قلیل ہے اور آذر بائیجان میں فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ دور حاضر میں تنقید عام ہو گئی ہے اور اجتہاد کیلئے مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔

جدت پسند طبقے

مسلمانوں کے جدت پسند طبقے جو جمہوریت پسند بھی ہیں ان کا خیال ہے کہ منتخب اسمبلیاں اجتہاد کا فریض سر انجام دے سکتی ہیں ۔ دوسری طرف علماء کا خیال ہے کہ اسمبلیوں کے ارکان عموماً تعلیمات اسلام سے ناواقف ہوتے ہیں جبکہ اجتہاد کیلئے علم دین بنیادی شرط ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کواسلامی قوانین کا ارتقاء  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

…….اسلامی قوانین کا ارتقاء   …….

Leave a comment