اسلامی معاشی نظام کی بنیادی اقدار

عدل

اسلامی معاشی نظام کی بنیادی اقدار

اسلامی معاشی نظام کی بنیادی اقدار انسان اور حیوان میں فرق کرنے والی شے انسان کا اخلاقی حسن ہے۔ لالچ ، حرص، ذاتی مفاد، غصہ، اور اپنی نسل کی بقاءوغیرہ کے حوالہ اور سے انسا وحیوان میں کوئی فرق نہیں لیکن جانوروں میں اچھائی، برائی، اور نیکی وبدی کا شعر نہیں ہوتا جبکہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے نیکی اور بدی کے احساس کو پیدا کر دیا ہے۔ اسلام ایک فرد میں صبر، استقامت، حوصله، نرمی، تحمل، شجاعت، عدالت، معاملہ فہمی، فیاضی، رحم، انصاف، صداقت، امانت، دیانت، وعدے کی پابندی، اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور مکمل دین ہے۔ یہ انسان کی فلاح کے لئے پر سکون اور مثالی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اسلام اخلاقی اقدار کی انسانی زندگی میں کارفرمائی چاہتا ہے ۔ ان اخلاقی اقدار میں تقویٰ، عدل، احسان، مساوات، اور اعتدال کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان مقاصد کے لئے اسلام درج ذیل بنیادی اخلاقی اقدار پر زور دیتا ہے۔

انسان اور حیوان میں فرق

مساوات

اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے حوالے سے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں اور فکر ونظر سے نوازا ہے۔ اس لحاظ سے تو تمام انسان برابر نہیں ہو سکتے لیکن ان فطری اختلافات کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان مستقل حد بندی کر کے انسانوں کو طبقات میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے مساوی ہیں۔ ہر انسان کے خون کا رنگ ایک ہے۔ رنگ نسل، علاقے اور قبیلے کی بنیاد پر ایک انان کو بالاتر اور دورے کو کمتر بجھا غلط ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کے حقوق و فرائض مساوی ہیں۔ رسول مسی و ستم کا ارشاد مبارک ہے۔ تمام انسا آدم علیہ السلامکی اولاد ہیں اور آدم علیہ اسلام مٹی سے تھے۔ پس کسی عربی کو بھی ر اور کسی بھی کوعربی پر پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت نہیں، فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ اسلام انسانوں کے درمیان باہمی مساوات کو مضبوط ومستحکم بنا کر انفرادی و اجتماعی سطح پر عملی زندگی میں اس کا اظہار چاہتا ہے۔ معاشی سطح پر مساوات کے اطلاق کے ضمن میں اسلام چاہتا ہے کہ : کے  تمام انسان اللہ تعالی کی پیدا کردہ اشیا اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا مساوی حق رکھتے ہیں مثلا دریا، پہاڑ ، چشمے، جنگل کی لکڑی، قدرتی درختوں کے پھل ، خودرو گھاس چارہ اور ہوا وغیرہ۔ (11) معاشی اجارہ داریاں قائم کرنے کے نتیجے میں طبقاتی مفادات وجود میں آتے ہیں جو کہ مساوات کے خلاف ہیں۔ ہر انسان ، مسلمان یا کافر کے لئے ضروریات زندگی کا حصول بقائے زندگی کے لئے ضروری ہے خاندان کی مضبوطی ، معاشرتی اقدار کے ذریعے ہر فرد کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ان کا حق ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کے لئے رزق حاصل کرنے کے یکساں مواقع کی فراہمی ضروری ہے۔

عدل

عدل

عدل کے لغوی معنی ہیں کسی شے کو اس کے مقام پر رکھنا، یعنی جس کا جو مقام ہے وہ اسے عطا کرنا۔ نہ تو اصل مقام سے گرانا اور نہ ہی اس کے مقام سے بلا وجہ زیادہ کا معاملہ کرنا۔ عدل کے دوسرے معنی ہیں ” جو جس کا حق ہے اسے دے دینا ۔ گویا اصطلاحی معنوں میں انصاف اور عربی لغت کے اعتبار سے لفظ ” قسط ” عدل کے ان معانی کو بیان کرتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے حقدار کو اس کے حق سے محروم کرنا قلم ہے اور حقدار کو اس کا حق پہنچانا ظلم کے بالمقابل عدل ہے جس کا مطلب کسی کو اس کے حق سے محروم نہ کرنا۔ عدل کو تقوی کے قریب ترین ر قرار دیا گیا ہے اور تقویٰ ایسی خصوصیت ہے جو عبادات کی روح ہے۔ اللہ تعالی نے پوری کائنات اور انسان کو عدل پر قائم کیا ہے کا ئنات کا حسن اس عدل پر قائم ہے۔ معاشیات کے دائرہ میں عدل کو معاشی عدل کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ پیدائش دولت، صرف دولت ، تبادلہ دولت اور تقسیم دولت کے جملہ معاملات کو عدل و انصاف کی بنیاد پر چلایا جائے تا کہ معاشی سرگرمیاں صحت مند بنیادوں پر جاری ہوں اور معاشرہ میں رہتے ہوئے افراد اپنی ضروریات ، عزت و وقار کے ساتھ حاصل کر سکیں۔ اسلام غربت و قحط سالی اور معاشی بد حالی کو ایمان کے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ تلاش رزق کو اللہ تعالی کا فضل تلاش کرنے کا نام دیتا ہے۔ انسانوں کے لئے معاشی خوشحالی کے لئے اسلام ایک جامع نظام دیتا ہے جس کی بنیاد عدل پر ہے۔ صرف دولت کے ضمن میں کفایت شعاری اور میانہ روی پرزور دیا گیا ہ۔ فضول خرچی اور غل سے منع کیا گیا ہے۔ زائداز ضرورت وسائل کو سحق حاجت مندوں اور غریبوں پر خرچ کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔ پیدائش دولت کے ضمن میں انسان اپنی توانائیاں پیداواری اور تعمیری کاموں میں صرف کرے۔ فارغ رہ کر وقت ضائع کرنے کی بجائے تعمیری کاموں میں ہی وقت صرف کیا جائے ۔ گداگری سے بچے اپنے کمائے ہوئے مال کو ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے۔ ہرقسم کے حرام کاروبار اور حرام شیا کی پیداوار اور حرام خدمات سے بچا جائے تقسیم دولت کے ضمن میں اسلام چاہتاہے کہ عاملین پیدائش کے معاوضوں کا تین اور ادائیگی میں انصاف پر ہو جو کہ دی اورغریب سے بچا جائے۔ عیاشانہ طرز زندگی سے بچا جائے۔ اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کی تلقین کے ساتھ زکوۃ کوفرض قراردیا گیا ہے۔ کاروباری معاملات میں لین دین کو کی کے قرار گیاہے۔ کاروباری معاملات میں کو باہمی رضا مندی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ ریاست پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ تمام شہریوں کے لئے ان کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ ٹیکسوں کی وصولی اور اخراجات کے ضمن میں عدل کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ مالک اور مزدور کے تعلقات میں عدل کو پیش نظر رکھا جائے۔ گو یا انفرادی و اجتماعی طور پر اسلام ہر معاملہ میں عدل کو کارفرما دیکھنا چاہتا ہے۔

احسان

احسان کے لغوی معنی ہیں حسن اور خوبصورتی اور اس سے مراد ہے دوسروں کے ساتھ نیکی وبھلائی کرنا ، اچھا کام کرنا کام کو اچھے طریقے سے سر انجام دینا، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالی اسے قیامت کی تکلیف سے نجات دے اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت دے اور مقروض کو معاف کر دے۔ یہی بات قرآن پاک میں یوں فرمائی گئی ہے کہ اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے فراوانی تک مہلت دے دو۔ قرآن وحدیث سے یہ مثالیں واضح ہیں کہ اسلام انسانی زندگی میں احسان کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ احسان کا تقاضہ ہے کہ تنگدست اور محتاج انسانوں کی مالی امداد کی جائے۔ ان کی غربت کے خاتمے اور معاشی مشکلات میں کمی کے لئے کوشش کی جائے ۔ احسان کا درجہ عدل سے آگے ہے۔ عدل کرتے ہوئے انسان کسی بھی فرد ک اس کا حق ادا کرتا ہے اور احسان کرتے کا درجہ سے آگے ہے۔ عدل کرتے ہے ہوئے اس کے حق سے زیادہ ادا کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرہ میں خیراور بھلائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ احسان کے نتیجے میں معاشرہ میں راحت و آرام اور امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ معاشی زندگی میں احسان کا تقاضا ہے کہ انسان عیش و عشرت سے بچتے ہوئے ، اعتدال کے دائرے میں رہتے ہوئے ، ضروریات زندگی کو حاصل کرے اور استعمال کرے۔ اپنی ذاتی ضروریات کی تسکین کے ساتھ ساتھ باقی مخلوق خدا کو س میں شریک کیا جائے۔ اپنے خاندان کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا عزیزوں ، رشتہ داروں، دوستوں، ملازموں ، ہمسایوں، محتاجوں ، مقروضوں، یتیموں اور بیواؤں کو بھی دینے کی اپنے مال میں شریک کیا جائے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے تحفے دینے کی ترغیب رسول اللہ مالی پیر نے فرمائی۔ ایک دوسرے کی روز مرہ ضرورت کی چیز رعایت دینے میں قرآن زور دیتا ہے۔ عمل پیدائش میں عاملین پیدائش خصوصاً مزدوروں ، مزارعوں ، اور ملازموں کے معاوضوں کی ادائیگی میں عدل سے بڑھ کر احسان کا معاملہ کیا جائے۔ آجر منافع کمانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ بے روزگاری ، بیماری، اور حادثات، آلودگی کے خاتے اور تعلیم وصحت کے میدان میں اپنا حصہ ڈالیں عمل پیدائش میں کام کے ماحول، جگہ کام کے طریق کار اور ٹیکنالوجی کے انتخاب میں بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھا جائے۔ مختلف آفات مثلا زلزلہ، سیلاب جیسی کیفیات میں نفع یا نقصان سوچے بغیر ایثار وقربانی کا مظاہرہ کیا جائے۔ مقروض کے لئے اگر ممکن ہو توقرض کی واپسی کے موقع پر کچھ زائد رقم قرض خواہ کو ادا کرے (لیکن یہ معاملہ شرط نہ ہو ورنہ سود ہوگا ۔ اسلامی ریاست کو اپنے شہریوں سے عدل سے بڑھ کر احسان کر دیا اختیار کرنا چاہے۔ عفو درگزر کواختیار کیا جائے حتی کہ زکوۃ کی وصولی کے معاملہ میں بھی نرمی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ رسول ال پیام نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کرنے کے بعد یمن روانگی کے موقع پر ۔ ہے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ زکوۃ کی وصولی کے موقع پر لوگوں کے اچھے اچھے مال کو چھانٹ کر نہ لینا۔ گو یا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی اسلام کا معا اشیاء خدمات کے تبادلہ کے میدان میں ناپ اور تول میں فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاہک کو فائدہ پہنچایا جائے۔ نبی اکرم صلی شمالی ہم نے خرید و فروخت کے دوران نرم خوئی کرنے والے کے لیے دعا فرمائی اور فرمایا کہ جب وزن کرو تو جھکتا ہوا پیمانہ میں احسان کی کارفرمائی ، جزوی معاشیات اور کلی معاشیات سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں ہے۔

ارتکاز دولت اور بے جا خرچ کا خاتمہ

دین اسلام میں جہاں دولت کمانے کے غلط طریقوں کی ممانعت کی گئی ہے وہاں جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کے بے جا سخت مذمت کی گئی ہے۔ خرچ کی دین اسلام دین فطرت ہے اور ہر اس کام کو نا پسند کرتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہو۔ ارتکاز دولت اور دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے معاشی ناہمواریاں اور معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ معیشت میں موثر طلب پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اشیائے ضرورت اور آسائشات کی بجائے معاشرے کے اشیائے تعیش پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور ایسی ہی اشیا کی پیداوار کو فروغ حاصل ہوتا ہے جس سے بہت سی معاشی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ قرآن پاک نے دولت کو جمع کر رکھنے اور ضرورت مندوں تک نہ پہنچانے کی مذمت کرتے ہوئے درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ اسلام چاہتا ہے کہ دولت صرف امرا کے پاس نہ رہے اور صرف امرا کے درمیان میں گردش نہ کرتی رہے۔ بلکہ امرا اپنے مال میں غریبوں کا حصہ با قاعدہ نکالیں۔ قرآن پاک اسے غریبوں کا حق قرار دیتا ہے۔ اسلام میں جہاں دولت کے جمع کرنے اور خزانے بنا بنا کر رکھنے کی مذمت کی گئی ہے وہاں دولت کے بے جا خرچ اور اسراف کو نا پسند کیا گیا ہے۔ قرآن پاک فضول خرچ لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ اللہ تعالی اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ قرآن پاک نے انسان کے لئے جو صیح روش بتائی ہے وہ یہی ہے کہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کیا جائے ۔ اسراف انسان کو بے ہمت بنا دیتا ہے اور یوں معاشرہ کی افرادی قوت کی قوت کار میں کمی آتی ہے اور یوں انسانی سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے اور اعتدال کے نتیجے میں یہ بماریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے ذریعے افراد کی دولت کا ایک بڑا حصہ پیداواری کاموں کے لئے بچ جاتا ہے۔ جس کے صحیح استعمال کے نتیجے میں عوام کی حقیقی ضرورتوں کی تسکین کرنے والی اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ معیشت استحکام حاصل کرتی ہے۔ خود انحصاری کی منزل کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے۔

شکر وقناعت

اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مومن سے دین اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اللہ کی ذات پر توکل کرے۔ معاشی حاجات پوری کرنے کے لئے دنیاوی اسباب کو حلال اور جائز ذرائع کے اندر رہتے ہوئے اختیار کرے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی اسکو جو بھی روزی عطا فرمائے اس کو خوشی سے قبول کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص معاشی لحاظ سے تنگدستی کا شکار ہو تو وہ صرف اور صرف جائز ذرائع اختیار کرتے ہوئے اپنی معاشی جد و جہد کو جاری رکھے اور صبر واستقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے اور ناشکری کا جذ بہ اپنے اندر پیدا نہ ہونے دے۔ جب اللہ تعالی انسان کو اپنی نعمتوں سے نوازتے ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ شکر کا ایک تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اپنی زبان اور عمل کے ذریعے شکر ادا کرے اور اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھا یا جائے ۔ اسی طرح شکر کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمانبردار بندہ بن جائے اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے۔ جائز اور حلال چیزوں پر مال کو خرچ کیا جائے ۔ ناجائز اور حرام چیزوں پر خرچ سے بچا جائے ۔ اسی طرح حلال چیزوں پر خرچ میں میانہ روی اختیار کی جائے۔ فضول خرچی اور بخل کا راستہ نہ اختیار کیا جائے۔ دین اسلام اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں شکر کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچتے رہیں۔ شکر کے جذبے کے تحت انسان اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں پر قناعت کو اختیار کرے۔ قناعت سے مراد ہے کہ حلال ذرائع سے انسان کو جو کچھ مل جائے انسان اس پر راضی اور مطمئن ہو جائے ۔ لالچ اور حرص سے بچے ۔ زیادہ سے زیادہ وسائل اور مال و دولت کے حصول کی خاطر اور سے بچے۔ سے اور و حلال وحرام کی تمیز کوختم نہ کرے۔ قناعت اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جو کہ انسانی زندگی میں سکون کا ذریعہ بنتی  انسان کو بے سکونی اور پریشانی سے بچاتی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اسلامی معاشی نظام کی بنیادی اقدار  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment