اسلام کا معاشی نظام

اسلام کا معاشی نظام ⇐اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام انسان کی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہدایات دیتا ہے اور اپنے ماننے والوں ے تقاضا کرتا ہے کہ وہ پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ یوں اسلام اپنے سامنے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ والوں سے کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح وہ معاشی معاملات میں بھی اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں۔ اسلام کے دو سب سے بڑے ماخذ قرآن اور سنت رسول سال رہی ہیں۔ قرآن وسنت میں وہ بنیادی اُصول دیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر ہر زمانہ میں پیش آنے والے مسائل کا حل موجود ہے۔ ان اصولوں کی بنیاد پر بنی اجتہاد کا راستہ اختیار کر کے ہر دور میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ بیسویں صدی میں نظام اشتراکیت نے مساوات اور مزدوروں کی آمریت کا نعرہ لگا یا اور گلوبلائزیشن  کے علمبردار اور طاقت و تیز طراری کی بنیاد پر آگے بڑھنے والے نظام سرمایہ داری نےدنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن ستر سال کے عرصہ میں نظام اشتراکیت گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ آج ہر طرف نظام سرمایہ داری کا غلبہ ہے لیکن اس کے خلاف دنیا بھر میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار ورلڈا کٹاسک فورم ، ورلڈ بنک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف وغیرہ کے مختلف ملکوں میں منعقد ہونے والے اجلاسوں کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ درمیان تفاوت دالنا بدان اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام بھی انسان کو معاشی تسکین نہ دے سکا۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک کے بڑھتا جارہا ہے۔ غریب روز بروز زیادہ غریب ہوتا جا رہا ہے اور امرا کی امارت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام بنیادی طور پر عدل کا علمبردار ہے۔ اس کا مطمع نظر یہ ہے کہ ہر فرد کے ساتھ انصاف ہو، جو جس کا حق ہے اسے ملے ۔ معیشت کو تقوئی ، عدل، احسان، مساوات، تعاون، اعتدال اور حلال و حرام کے بنیادی تصورات پر استوار کیا جائے ۔ ہر ایک کے حقوق اسے ابن مانگے مل جائیں۔ اس نظام کا قیام انسان کو اس کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی عزت نفس اور دینی فعالیت کا باعث بنتا ہے۔

اسلام کا معاشی نظام

اسلامی معاشی نظام کی بنیادی خصوصیات

اسلام کا معاشی نظام ایک متوازن نظام ہے جو ایک طرف معاشرہ کی موثر تسکین کرتا ہے اور دوسری طرف انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ اس نظام کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔

ذاتی ملکیت کا حق

دین اسلام کے مطابق ہر چیز کا مالک اللہ رب العالمین ہے۔ اس نے ذاتی ملکیت کا حق نسان کو عطا کیا ہے لیکن چین ملکیت مطلق نہیں ہے بلکہ فرد کے حق ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مجموعی مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ہر فرد کے مال میں اس کے قریبی عزیزوں ، ہمسایوں ، دوستوں، حاجتمندوں اور غریبوں کے حقوق کی ادائیگی پر رضاکارانہ طور پر زور دیا گیا ہے مثلا صدقہ زکوة ، خیرات ، وقف و غیره

وسائل سے بھر پور استفادہ

اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں انسان کے فائدے کے لئے بے شمار وسائل رکھے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان فکر عمل کی صلاحیتوں کو پورے طور پر استعمال میں لاکر ان وسائل کو اپنے اور دیگر انسانوں کے فائدے کے لئے استعمال میں لائے۔ ترک دنیا اور دنیاوی لذت سے منہ موڑ نا خدا ترسی نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کے اندر رہتے ہوئے علم وفنون کے حصول اور اس کے انسانی فلاح کے لئے استعمال پر زور دیا گیا ہے تا کہ نی نئی ایجادات اور اختراعات کے ذریعے اس کی بھلائی کے لئے ان وسائل کو استعمال میں لایا جا سکے۔

حصول رزق حلال اور اُس کا استعمال

اسلام نے حصول رزق حلال پر بے حد زور دیا ہے۔ چنانچہ محنت کی عظمت کی جو مثال دینِ اسلام میں پیش کی گئی ہے وہ کسی اور نظام کا خاصا نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو گدا گر بن کر رہنے، دوسروں کے سامنے سوال کرنے اور محتاج رہنے کی مذمت کرتا ہے۔ محنت کرنے والے کو اللہ کا دوست قرار دیتا ہے لیکن دولت کے کمانے کے حلال ذرائع کو پسند کرتا ہے۔ نا جائز ذرائع سے دولت کمانے اور خرچ کرنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ چوری، رشوت، جوا، سود، دھوکہ دہی، نشہ آور اشیا کی پیداوار اور خرید وفروخت حتی کہ ایسی اشیا کی نقل و حملبھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔ اسی طرح مصوری ، بت گری و بت فروشی، موسیقی، ذخیرہ اندوزی ک نا پنا وتولنا ، جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنا، ڈاکہ زنی، مالک کی اجازت کے بغیر شے لینا اور خریدو فروخت کرنا وغیرہ حرام قرار دیا گیا ہے۔ اسلام حرام مال کھانے کو حرام قرار دیتا ہے۔

صرف دولت میں اعتدال

چونکہ اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے اس لیے صرف دولت میں بھی میانہ روی پر زور دیا گیا ہے جس طرح پیدائش دولت حصول رزق کے لیے حلال ذرائع اپنا نا ضروری ہے اسی طرح صرف دولت کے لیے بھی حلال طریقے اپنانا از حد ضروری ہے بلکہ جائز مقامات پر بھی اعتدال سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلامی معاشی نظام میں انسان کوحق دیا گیاہے کہ اللہ تعالی نعتوں کوصرف کرے لیکن بین مطلق نہیں ہے۔ اس حق کو کچھ حدود کے ساتھ محدود کر دیا گیا ہے مثلاً حلال ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حلال طریقے سے اور حلال چیزوں پر ہی خرچ کیا جائے اور یہ کہ انسان اپنے مال کوحقیقی ضروریات پر ہی خرچ کرے۔ اپنی زائد دول میں دیگر ضرورت مند لوگوں کوبھی صہ دار بنائے ۔ اسلامی معاشرہ کے اجتماعی مفاد کے تحفظ کے لئے فرد کی ذات اور اخلاق و کردار کو تباہ کرنے والی اشیا مثلا شراب، اور دیگر منشیات پر اور کہ انسان دولت صرف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دولت کے بے جا خرچ یعنی اسراف کی ممانعت کی گئی ہے اور دولت سمیٹ کر رکھنے اور دینی ضرورت پر رمان کرنے کوبھی اپنی قراردیا گیاہے۔ نام خود در عیش وعشرت کے لئے خرچ کرنے کی بھی مخالت کی گئی ہے مثل سورۃ الفرقان میں اللہ کے پسندیدہ بندوں کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ نہ تو فضول خرچ ہوتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا رویہ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کا ہوتا ہے۔

مال و دولت کے خزانے جمع کرنے کی ممانعت

اسلامی نظام معیشت میں دولت کمانے کے لئے جائز ذرائع اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے اورنا جائز ذرائع کو حرام قراردیا گیا ہے جبکہ دولت کے خرچ کرنے کے سلسلہ میں اسراف  فضول خرچی اور بخل کنجوسی سے منع کیا گیا ہے۔ اسلام دولت کو سمیٹ کر رکھنے، اپنی زاتی ضروریات اور خاندانی ضروریات پر خرچ نہ کرنے اور اللہ کی راہ میں غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ نہ کرنے کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کے محاسن کسی بھی معاشی نظام سے بدر جہا بہتر ہیں جو لوگ بچ بچا کر مال جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے وہی مال روز محشر ان کے لیے وبال جان بن جائیگا۔ مال و دولت جمع کر کے رکھنے اور بخل کے نتیجے میں دولت کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ جس سے مارکیٹ میں پیدا شدہ اشیا کی فروخت میں کمی آتی ہے۔ سرمایہ کاری میں بھی کمی آجاتی ہے۔ اشیائے سرمایہ اور آلات پیدائش سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ پیروزگاری اور معاشی بحران پیدا ہوتے ہیں اور یوں اللہ کی رحمت اور خیر و برکت سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔

گردش دولت پرزور

اسلامی نظام معیشت جہاں اشیا و خدمات کی پیداوار پر زور دیتا ہے وہاں دولت اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم پر بھی زور دیتا ہے۔ اس نظام میں سب سے زیادہ زور دولت کی گردش پر دیا گیا ہے تا کہ دولت صرف امرا کے درمیان میں گردش نہ کرتی رہے بلکہ دولت کا رخ امرا سے غربا کی طرف ہو جائے اور معاشرے کے تمام طبقات بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ اسلام نے والدین، عزیز و اقارب ہمسائیوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ اس سلسلہ میں اسلامی نظام معیشت میں رضا کارانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ قانونی اقدامات بصورت زکوة تقسیم میراث و غیره کئے گئے ہیں۔ صدقہ فطر اور کفارہ کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ گردش دولت بڑھانے کے لئے قانونی اور رضا کارانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حسب ضرورت اور استطاعت کے مطابق امیروں پر ٹیکس لگا سکتی ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ وہ تمام سرگرمیاں ممنوع قرار دی گئی ہیں جو گردش زرو دولت میں رکاوٹ پیدا کریں۔ سود اور جو احرام قرار دیئے گئے ہیں۔ سٹہ بازی اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کی گئی ہے۔

معاشی آزادی

اسلامی معاشی نظام تمام افراد کے لئے رزق کی تلاش اور اسے حاصل کرنے کے یکساں مواقع کو یقینی بناتا ہے۔ اجارہ داریوں کی ممانعت اور مختلف افراد کورنگ نسل ، قبیلے، یاکسی اور بنیاد پر خصوصی امتیازات کی ممانعت کرتا ہے۔ اس آزادی پر ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آزادی کا استعمال شریعت کی حدود کے اندر رہ کر کیا جائے ۔ مساویانہ تقسیم دولت( اسلام وال کی تقسم کو تو افرادکے ہاتھوں میں کھلا چھوڑ کرطبقاتی تقسیم ک راہ کھولا ہے اور نہی مساوی تقسیم دولت کا قائل ہے۔ اس لئے کہ مادی تقسیم دول نہ تو مکن ہے اور نہ ہیمنت کی تقسیم کار کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ اسلامی معاشی نظام اس کے مقابلہ میں آمدنی ودولت کی منصفانہ بنیادوں پر تقسم کو یقینی بناتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے دولت کو حلال ذرائع سے کمانے پر زور دیا گیا ہےاور حرم کی کمائی کی بھر پور مذمت کی گئی ہے اور اس اپنے نفس کو قل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے (بحوالہ سورة النساء:  اس کے بعد عاملین پیدائش کے معاوضوں کے تعین اور ادائیگی میں تقوی، خوف خدا اور عدل پر زور دیتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر ان کے ساتھ احسان ، تعاون اور مساوات کے اصولوں پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ ان سب احتیاطوں کے باوجود اگر دولت کی تقسیم میں ناہمواری پیدا ہوتی ہے تو زکوۃ وصدقات اور دیگر اقدامات کے ذریعے اس تقسیم کو منصفانہ بنانے کی بھر پور سعی کرتا ہے۔

اصلاحی ریاست کا معاشی کردار

اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں نظام عبادات کی تشکیل اور قیام کے بعد زکوۃ پر مبنی نظام معیشت کو قائم کرنا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے لوگوں کی تکالیف کو دور کر کے ان کی پریشانیوں کے خاتمہ پر زور دیتا ہے۔ ریاست کے سربراہ کو عوام کی ضروریات کی تکمیل کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ رسول سلم کے ارشاد کے مطابق :- جس کا کوئی ولی  سر پرست نہیں سلطان اس کا سر پرست ہے۔ اس طرح ہر فرد کے لئے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں خوراک لباس اور رہائش ہی شامل نہیں ہیں بلکہ تعلیم اور صحت کو بھی ہر فرد کاحق قرار دیا گیا ہے تاہم اس کی ترتیب کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ سب سے کی ذمہ داری فرد پر اس کے بعد معاشرہ پر اور آخری چارہ کے طور پر ریاست اس بات کا اہتمام کرے کہ کوئی شخص بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہ رہ جائے۔

قیمتوں کی میکانیت

قیمتوں کی میکانیت
قیمتیں بطور مثال

اسلامی معاشی نظام طلب درسد کی قوتوں پر انحصار کرتا ہے۔ جس سے قیمتیں متعین ہوتی ہیں اور یہ قیمتوں کا نظام معاشی سرگرمیوں کا رخ متعین کرتا ہے تا ہم اسلامی معاشی نظام میں قیمتوں کے نظام کو بے لگام اور کھلا نہیں چھوڑا گیا بلکہ اخلاقی نظام کے نفاذ کے ذریعے ایک نظم وضبط میں جکڑا گیا ہے  یہ اخلاقی اقدار انسان کی راہ کو کھوٹا ہونے اور غلط طور پر کمائی کرنے، قیمتوں پر اثر انداز ہونے سے روکتی ہیں۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “اسلام کا معاشی نظام”  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

 

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

Leave a comment