افزائش آبادی کی پیمائش

افزائش آبادی کی پیمائش افزائش آبادی کی پیمائش کے مختلف اقسام کو تفصیلاً اس یونٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ آبادی کی پیمائش اور اس کی اقسام کا جانا ہمارے لئے کسی علاقے میں آبادی کے بڑھنے یا گھٹنے کا جائزہ لینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آبادی کے سائز میں تبدیلی کسی عرصے کے دو مختلف پوائنٹس کے فرق سے کی جاتی ہے ۔

  • اس لئے آبادی بڑھ بھی سکتی ہے اور گھٹ بھی سکتی ہے۔
  • اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ہوگا۔
  • جب کہ منقی شرح افزائش آبادی سے یہ ظاہر ہوتا ہے
  • کہ آبادی گھٹے گی اور اگر شرح افزائش آبادی صفر ہو تو اس کا مطلب ہے
  • کہ آبادی جوں کی توں رہے گی اور پیدائش کی وجہ سے آبادی میں اضافہ مرنے والوں کی تعداد کے برابر ہو گا۔
  • آبادی میں تبدیلی کی پیمائش مطلق اعداد ( مطلق نمبر) میں کی جاسکتی ہے۔
  • مثال کے طور پر پاکستان کی آبادی 1998ء سے 2011ء کے عرصے میں 132 ملین سے بڑھ کر 177 ملین ہو گئی۔
  • اس عرصے میں آبادی کے سائز (آبادی) میں تبدیلی 45 ملین کے برابر ہے۔

ملین177-132ملین = 45 ملین

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آبادی میں گزشتہ تیرہ سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آبادی کے سائز میں تبدیلی جاننے کے لئے آبادی کے سائز کے تخمینے دو عرصوں میں درکار ہوتے ہیں لیکن شرح تبدیلی نکالنے کے لئے ان دو عرصوں کے بارے میں علم ہونا چاہیے اور ساتھ ساتھ  (بنیادی سال) کے بارے میں بھی علم ہونا چاہیے۔

افزائش آبادی کی پیمائش

افزائش کا طریقہ

  1. پھر افزائش کا طریقہ فرض کیا جاتا ہے
  2. کہ یہ لکیری ہے یا لوگاریتھمک۔ شرح افزائش آبادی کو بجھنے کے لئے کئی مساواتیں (مساوات) اختیار کی جاتی ہیں۔
  3. آبادی میں تبدیلی کی مزید تقسیم اور اس کا اثر عمر اور جنس کے گروپ میں بھی دیکھا جاتا ہے۔

ان کا موازنہ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ عمر کے مواد (عمر کا ڈیٹا) کو مزید دو عرصوں میں تقسیم کیا جائے اور اس عمر سے آگے بڑھنے والوں کو منفی جب کہ اس عمر تک پہنچے والوں کو جمع کر لیا جائے۔

سالانہ اوسط شرح

  • اکثر و بیشتر ترقی ممالک میں آبادی کے اعداد و شمار دس سالہ مردم شماری (دس سالہ) ریکارڈ کی صورت میں دستیاب ہیں۔
  • اگر ہم یکے بعد دیگرے ہونے والی دو مردم شماریوں کے اعداد و شمار لے لیں
  • تو ان کے مدد سے افزائش آبادی کی سالانہ اوسط شرح بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔
  • اس مقصد کے لئے فرض کر لیا جاتا ہے کہ افزائش آبادی سود مرکب (مرکب سود) کے اصول پر ہوتی ہے
  • اور جس طرح اصل زر پر سود مرکب کا اضاف ہوتا ہے

آبادی میں اضافہ

افزائش آبادی کی پیمائش ویسے ہی آبادی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔  مردم شماریوں کے درمیانی عرصے میں جن عوامل سے آبادی میں اضافہ واقع ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔

  • اموات کے مقابلے میں پیدائش میں زیادتی (موت پر پیدائش کی زیادتی) اندون ملک آنے والوں
  • اور بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں فرق  امیگریشن اور ہجرت چونکہ پیدائش اموات
  • اور نقل مکانی سے متعلق قابل اعتبار اور حتمی اعداد و شمار (قابل اعتماد ڈیٹا) کا ملنا نا ممکن ہوتا ہے

مردم شماری کے اعداد وشمار

اس لئے افزائش آبادی کی سالانہ شرح معلوم کرنے کے لئے ہمیں مردم شماری کے اعداد وشمار پر ہی ا نحصار کرنا پڑتا ہے۔ دو متواتر مردم شماری میں کل آبادی کے اعداد وشمار میں پایا جانے والا ہا ہم فرق پی2 پی 1 درمیانی عرصہ کے دوران ہونے والی افزائش آبادی کی مقدار کو ظاہر کرتا ہے ۔

آبادی کی شرح

  1. جبکہ دونوں اعداد و شمار کا باہمی تناسب (پی2پی1) ان کی اضافی متناسب مقدار کی نشاندہی کرتا ہے۔
  2. اگر اس تناسب کا شمار کسی ملک کے مختلف علاقوں یاڈویژن کی بنیاد پر الگ الگ کر لیا جائے تو
  3. اس طرح ان علاقوں میں افزائش آبادی کی شرح کا تقابلی مطالعہ ( ترقی کی تقابلی پیمائش) بھی کیا جا سکتا ہے۔
  4. ان اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے
  5. کہ شرح افزائش آبادی مختلف ادوار میں کیا رہی ہے

آبادی کی شرح

شرح اضافہ

اس کا باہمی تناسب کیا تھا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ  ( مردم شماری کے درمیان وقفہ) یکساں ہونا چاہیے۔ اگر یہ یکساں نہ ہوں تو متعلقہ مقداروں کو قابل موازنہ (موازنہ) بنا لینا ضروری ہے

  • اس مقصد کے لئے ان کو افزائش کی سالانہ شرحوں ( نمو کی سالانہ شرح) میں تبدیل کر لیا جاتا ہے ۔
  • یہاں ہم یہ فرض کر لیتے ہیں
  • کہ شرح افزائش یکساں اور (مستقل) رہی ہے پھر یہ معلوم کرتے ہیں
  • پی او ابتدائی آبادی ہو تو پی ( آبادی بوقت ) مندرجہ ذیل ہوگی۔

Pt=p o(1+r) t

یہاں “آر” سے مراد افزائش آبادی کی شرح اور ٹی سے مراد کوئی معینہ مدت ہے۔ اب اگر دونوں اطراف کا لوگارتھم لیا جائے تو حاصل درج ذیل ہو گا۔

Log(p t/p o)=t l o g (1+r)

Log (Pt/Po) =t log(1+r)

  1. لوگارتھم لمبے حساب کو مختصر کرنے کا قاعدہ ہے۔ اب اگر دونوں اطراف کا اینٹی لاگ نکال لیا جائے
  2. تو ہم بآسانی شرح افزائش آر معلوم کر سکتے ہیں۔
  3. دو مردم شماریوں کے درمیانی وقفہ کے دوران کی مقدار . معلوم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
  4. جن دو مردم شماریوں کے درمیانی اعداد و شمار لئے جائیں اس سے جغرافیائی طور پر ایک ہی علاقہ کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔
  5. بصورت دیگر بعض خاص قسم کے رود بدل (ایڈجسٹمنٹس)کرنے ہوں گے۔
  6. مردم شماریوں کے اعداد و شمار لینے کے اوقات
  7. یعنی دن ماہ اور سال وغیرہ کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔
  8. مردم شماریوں کے درمیانی وقفہ کا تعین ترجیحاً قریب ترین دنوں کی بنیاد پر یا کم از کم قریب ترین مہینے کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔

 مردم شماری کے درمیانی وقفہ اور بعد ازاں آبادی کا تخمینہ

اگر دو مردم شماریوں کی معینہ مدت ( تاریخوں) کے موقع پر موجود کل آبادی کی مقدار معلوم ہو اور درمیانی عرصے کے دوران افزائش آبادی کی شرح بھی معلوم کر لی جائے

  • تو ان دونوں معینہ تاریخوں کے درمیانی عرصہ میں کسی بھی خاص وقت پر موجود آبادی کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔
  • جس کے لیے ” ٹی” کی متعلقہ قدر کو مندرجہ ذیل فارمولے میں بدلنا(متبادل)ہوگا۔

P₁ = p. (1+r)’

  1. جبکہ یہاں پر یہ فرض کر لیا گیا ہے
  2. کہ دو مردم شماریوں کے سارے درمیانی عرصہ میں شرح افزائش آبادی ایک ہی رہی ہوگی۔
  3. اسی طرح مردم شماری کے بعد کے عرصے میں بھی کسی خاص وقت پر آبادی کی مقدار کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔

 مردم شماری کے درمیانی وقفہ اور بعد ازاں آبادی کا تخمینہ


افزائش آبادی اور عمر کی ساخت

پہلی چیز جو آبادی میں تبدیلی کا باعث ہوتی ہے وہ آبادی کا قدرتی طور پر بڑھنا ہے جو پیدائش اور اموات کے فرق سے معلوم کیا جاتا ہے۔ دوسری چیز کا تعلق، نقل مکانی (ہجرت) سے ہے

  • جو کسی ملک سے باہر نقل مکانی کر کے جانے والوں (باہر مہاجرین) اور ملک کے اندر (میں – مہاجرین) کے فرق سے معلوم کی جاتی ہے۔
  • ملک کی مجموعی آبادی کی شرح افزائش معلوم کرنے کے لئے مندرجہ بالا وہ تصورات استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
  • کیونکہ ان کا تعلق مجموعی آبادی (کل آبادی) سے ہے۔
  • عام طور پر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں جہاں پیدائش واموات سے زیادہ ہوتی ہے، جوان عمروں ( عمر کا ڈھانچہ) ایک مخصوص رجحان رکھتا ہے
  • اس میں بچوں کی ایک بڑی تعدا دکا سال سے کم عمر کی ہوتی ہے
  • افزائش آبادی کی پیمائش

بچوں کی اموات

بچوں کی اموات زیادہ ہوں اور ان کے زندہ رہنے کا احتمال کم ہوتو اس صورت میں بہت سے لوگ پہلے مر جاتے ہیں اور آبادی میں 60 سال کی عمر کو پہچنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی خاص عمر کے گروپ اور براہ راست اثر عمروں کی مجموعی ساخت(عمر کا ڈھانچہ) پر پڑتا ہے ۔ اگر عورتوں کی شرح پیدائش بڑھ جائے تو 40 سال کی عمرکو کہنے والے چوںکی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

  1. جب کہ اگر یہ تم کم ہو 9-5 سال تک پہنچنے والے بچوں کی تعداد کم ہوگی ۔
  2. اس لئے ترقی پذیر ممالک میں جواں عمروں کا آبادی میں تناسب زیاد ہوتا ہے ۔
  3. جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں بوڑھے لوگوں کی اموات کم ہونے کی وجہ سے عمر کی ساخت میں بوڑھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
  4. جب کہ ان کے مقابلے میں جوانوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔
  5. پس عمر کی بناوٹ (عمر کی ساخت کی نوعیت)جانچنے کے لئے یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ اشخاص کا تناسب (عمر کا وسیع گروپ) میں کتنا ہے۔

بچوں کی اموات

پاکستان کی آبادی

  • پاکستان کی آبادی میں جواں عمروں کی تعداد زیادہ ہے ۔ 34
  • -10 سال کی عمر تک کے لوگوں کا تناسب کل سے آبادی کا 51 ہے
  • جب کہ 7 فیصد لوگ ایسے ہیں جو 65 سال سے زائد عمر کے ہیں ۔
  • اس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کی آبادی کی عمرکی ساخت زیادہ جواں عمر ہے۔
  • یہاں جوان لوگوں میں پیدائش زیادہ ہے
  • اور اموات کی تعداد بھی بوڑھے لوگوں میں زیادہ ہے۔
  • عمر او جنس کی ساخت (عمر-جنسی ڈھانچہ)کو ظاہر کرنے کا ایک مفید طریقہ عمر اور جس کا مخروطی مینارہ یعنی (عمر جنس پرامڈ)  ہے۔

آبادی کا استحکام

  1. ان آبادیوں میں ہم جہاں اہم شرحیں (اہم کہانی)
  2. مثلا پیدائش اموات گزشتہ عرصے میں تبدیل نہیں ہوتی ہیں
  3. ان ملکوں میں آبادی کا استحکام  ہوتا ہے۔
  4. یہاں عمرو جنس کا مخروطی مینارہ (عمر – جنسی اہرام) مختلف عمر کے گروپس میں تعداد بڑھنے کے باوجود تبدیل نہیں ہوتا ہے۔
  5. مندرجہ بالآ خر مخروطی مینارہ (لونڈی) میں
  6. آپ پاکستان کی آبادی کا لحاظ عمرو جنس (20132011) تجزیہ کر سکتے ہیں۔
  7. عالمی سطح پر دیکھا جائے
  8. تو ترقی یافتہ ممالک میں عمر کی ساخت میں بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوتی جارہی ہے

آبادی کا استحکام

آبادی کے ترقی یافتہ ممالک

  • نسبتا جواں عمر آبادی کے ترقی یافتہ ممالک میں 2009ء میں 22 فیصد آبادی بوڑھوں پر مشتمل تھی
  • جو 2050ء تک 33 فیصد ہوتا متوقع ہے۔
  • ان ممالک میں بوڑھوں کی تعداد بچوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے
  • جو ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
  • جبکہ ترقی ۔ پذیر ممالک میں یہ شرح 2009ء میں 8 فیصد سے 2050ء میں 20 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے ۔ 2009
  • ء سے دنیا کی نصف سے زیادہ ممالک کے لئے آبادی میں جوانوں اور بوڑھوں کی عمروں کے ساخت میں عدم استحکام ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے ۔
  • ترقی یافتہ ممالک میں 79 ممالک نے 2009ء میں آبادی میں بوڑھوں کی تعداد یعنی (خستہ تا مسئلہ) کو آبادی کے لحاظ سے ایک اہم  مسئلہ قرار دیا ہے
  • تاہم ترقی پذیر ممالک میں 46 فیصد مما لک نے اس مسئلے کی طرف نشاندہی کی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوافزائش آبادی کی پیمائش  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

………….افزائش آبادی کی پیمائش…………..

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *