انسانی حقوق کیلئے اصلاحی اقدامات ⇐ حکومت نے انسانی حقوق کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے چند اصلاحی اقدامات کئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
انسانی حقوق کی وزارت کا قیام
اکتوبر انیس سو پچانوےء میں انسانی حقوق کی وزارت قائم کی گئی
جسے مندرجہ ذیل امور کا ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے۔
قوانین پالیسیوں
ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے اور
اس کی اصلاح کیلئے قوانین پالیسیوں اور متعلقہ اقدامات کا نفاذ عمل میں لانا۔
کارروائیوں میں ربط
انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کیلے مختلف وزارتوں ڈویژنوں اور صوبائی حکومتوں کی کارروائیوں میں ربط پیدا کرنا۔
مطابقت
جین بین الاقوامی میثاقوں اور معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں ان کے متعلق کی گئی قانون سازی ، ضوابط اور روایات میں مطابقت پیدا کرنا اور اس کیلئے کئے گئے اقدامات کو مانیٹر کرنا۔
دستاویزات
وزارتوں ڈویژنوں صوبائی حکومتوں اور دیگر ایجنسیوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں معلومات شکایات دستاویزات اور رپورٹیں حاصل کرنا۔
تحقیقات
انسانی حقوق کے کسی بھی واقعہ کے متعلق تفتیش اور تحقیقات کی سفارش کرنا ۔
سرکاری ادارے اور تنظیم
پاکستان میں کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے تنظیم یا فورم اور وزارت خارجہ کے ساتھ مشورے کی روشنی میں کسی بھی بین الاقوامی ادارے اور غیر ملکی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے رو برو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں پاکستان کیخلاف کی گئی شکایات یا اعتراضات کا دفاع کرنا۔
بین الاقوامی اداروں
وزارت خارجہ کے ساتھ مشوروں کی روشنی میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں، تنظیموں اور کا نفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنا۔
مختلف پروگراموں کے ذریعے
مختلف پروگراموں کے ذریعے عوام میں انسانی حقوق اور ان کی خلاف ورزیوں کیلئے موجود قوانین کے متعلق شعور پیدا کرنا۔
تکنیکی تربیت
تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق کے متعلق تدریسی پروگرام مرتب کرتا۔ انسانی حقوق کے متعلق پاکستان اور پاکستان سےباہر پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت کیئے سہولیات فراہم کرنا۔
معذور افراد کے حقوق کے تحفظ
معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات کرنا۔ انسانی حقوق کے غیر سرکاری اداروں(این جی اوز) کے ساتھ رابطہ قائم کرنا۔
ڈبیپارٹمنٹ آف ہیومن رائٹس
اس کے بعد جلد ہی وزارت نے ایک کل وقتی سیکرٹری کی سربراہی میں اپنا کام شروع کر دیا۔ تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ایک محکمہ کو ڈبیپارٹمنٹ آف ہیومن رائٹس کا درجہ دیں تا کہ وہ صوبائی حکومت سے متعلق انسانی حقوق کے جملہ مسائل کے سلسلے میں ایک مؤثر محکمے کے طور پر کام کر سکے۔
عورتوں کی بہبود کیلئے سرکاری اقدامات
حکومت کی طرف سے عورتوں کی مجموعی حالت سدھارنے کیلئے بھی چھ مفید اقدامات کئے گئے ہیں جن کا ذکر درج نہیں ہے۔
ویمن بنک
فرسٹ ویمن بنک ایگری کلچرل ڈیولپمنٹ بنک کریڈٹ پروگرام کے ذریعے محنت کش خواتین کیلئے آسمان قرضوں کی سہولت فراہم کی گئی۔
سکیم کا اجراء
انسانی حقوق کیلئے اصلاحی اقدامات دیہاتی خواتین کیلئے زم شرائط پر قرضوں کی ایک سکیم کا اجراء کیا گیا۔
ایگری کلچرل ڈیویلپمنٹ
ایگری کلچرل ڈیویلپمنٹ بنک ایک ڈی بی پی ) کے ویمن کریڈ پروگرام خواتین کا کریڈٹ پروگرام کے تحت چھوٹے کم اور طویل المعیاد ( ڈیڑھ سال سے 5 سال کے عرصے میں قابل واپسی ) قرضے دیئے گئے ۔ ان قرضوں کیلئے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد حتی کہ زیورات کو بھی بطور ضمانت قبول کر لیا جاتا ہے۔
ویمن پولیس فورس
عورتوں کی داد رسی اور ان کو فوری انصاف کی سہولت فراہم کرنے کیلئے ویمن پولیس فورس تشکیل دی گئی۔
پانچ رکنی انکوائری کمیشن
خواتین کیلئے پانچ رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جس کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں
خواتین کیخلاف امتیازی قوانین پر نظر ثانی کرنا۔
موجودہ قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کیلئے ان میں ترامیم کرنا ۔
خواتین کی حالت سدھارنے کیلئے مناسب اور ضروری اقدامات کی سفارش کرتا ۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ایک آزاد اور غیر سرکاری ادارہ ہے ۔ اس نے 1987 ء میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ ایچ آر سی پی اعلی ترین شعبہ اس کی جنرل باڈی ہے جو اپنے منتخب شدہ ارکان پر مشتمل ہے ۔
عدالتی کارروائیوں
جنرل باڈی کا سال میں کم از کم ایک اجلاس ضرور منعقد ہوتا ہے۔ یہ کمیشن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو منظر عام پر لانے اور عوامی احتجاجوں رابطہ مہموں اور عدالتی کارروائیوں کے ذریعے ان کا حل ڈھونڈنے کے علاوہ سیمینار ورکشاپس اور جائز و وفود بھی تشکیل دیتا ہے۔
سالانہ رپورٹ
ایک سہ ماہی نیوز لیٹر اور ایک اردو ماہنامہ ” جہد حق شائع کرنے کے علاوہ ایچ آر سی پی کی طرف سے انسانی حقوق کی صورتحال کے متعلق ایک سالانہ رپورٹ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں جاری کی جاتی ہے۔
کمیشن کا برانچ آفس
کمیشن کے برانچ آفس کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں واقع ہیں ۔ حیدر آباد میں ایک سپیشل ٹاسک فورس اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ کمیشن کا اسلام آباد میں ایک مرکز برائے فروغ جمہوریت بھی قائم ہے۔
پاکستان میں بنیادی حقوق
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا نواں بڑا ملک ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی تقریبا 18 کروڑ ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق شرح خواندگی تقریبا 50 فیصد ہے۔
پاکستان میں بنیادی حقوق کی تاریخ
چودہ اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مجلس دستور ساز نے 1949ء میں قرار داد مقاصد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ یہ قرار داد رہنما اصولوں پر مبنی تھی جنہیں بجاطور پر آئین کی تمہید کہا جا سکتا ہے ۔
دستور سازی کا کام
دستور سازی کا کام آہستہ روی سے جاری رہا۔ اس وقت کی دستور ساز اسمیلی قوم کو آئین دینے میں کامیاب ہوگئی ۔ یوں بنیادی حقوق 1947 ء سے 1956ء تک معرض التواء میں پڑے رہے ۔ دفعہ 144 ہنگامی حالت اور سیفٹی ایکٹ کا استعمال وقتاً فوقتاً جاری رہا۔ ظاہر ہے ان قوانین کے ہوتے ہوئے بنیادی حقوق تعطل کا شکار رہے۔
انیس سو چھپن ء کے آئین کی عارضی زندگی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا انیس سو چھپن ء کا آئین صرف دو سال کے قلیل عرصہ کیلئے نافذ رہا۔ اس دو سال سے عرصے کے دوران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے کئی دفعہ سیاسی پارٹیاں تبدیل کیں۔
اقتدار کی رسہ کشی
صدر سکندر مرزا نے بھی وہی طریقے استعمال کئے جو گورنر جنرل غلام محمد نے کئے تھے۔ متواتر دو سال کی حصول اقتدار کی رسہ کشی نے عوام کے دلوں میں سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کیخلاف نفرت اور شکوک کی فضا پیدا کر دی ۔ آئے دن حکومت میں رد و بدل کے باعث ملکی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ انجام کار مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
سیاسی جماعتیں
تمام سیاسی جماعتیں غیر قانونی قرار دے دی گئیں۔ ایوب خان نے 127 اکتوبر 1958ء کو سکندر مرزا کو بھی چلتا کیا اور ان کی جگہ خود چیف مارشل لاء ایڈ مسٹر یٹر اور صدر پاکستان بھی بن گئے۔
انیس سو باسٹھء کے آئین میں بنیادی حقوق
پاکستان میں یہ دوسر آئین تھا جس کا اعلان جنرل محمد ایوب خان نے یکم مارچ 1962 ء کو کیا۔ پاکستان کا یہ دستور کئی لحاظ سے دنیا کے دساتیر سے منفرد حیثیت رکھتا تھا۔
صدارتی نظام
اس کی تشکیل کے وقت امریکی دستور کو بطور نمونہ پیش نظر رکھا گیا اور اس کا پیش کردہ نظام صدارتی نظام حکومت کہلاتا تھا لیکن پاکستان کے مخصوص حالات کی بناء پر یہ کئی لحاظ سے امریکی دستور سے مختلف تھا۔
دستاویز
ابتداء میں 1962ء کے آئین میں بنیادی حقوق کی کوئی دستاویز شامل نہ تھی لیکن حزب اختلاف کے پر زور مطالبے پر بنیادی حقوق سے متعلق ایک دستاویز اس آئین میں شامل کر لی گئی لیکن مختلف قوانین کے ذریعے بنیادی حقوق کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد کو مشکل بنا دیا گیا۔
ایوب خان کے زوال کے ساتھ 1962ء کے آئین کا خاتمہ
صدر ایوب خان کا دور حکومت اگر چہ طویل تھا اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے سنہرا بھی تھا لیکن اس دور کے ظاہر سیاسی استحکام کے پس پردہ انتشار کی قوتیں مستحکم ہوتی چلی گئیں ۔
ایبڈو کے تحت
ایبڈو کے تحت جو سیاستدان نا اہل قرار دیئے جاچکے تھے انہوں نے متحد ہو کر حکومت کیخلاف عوام میں نفرت کے جذبات کو پروان چڑھایا ۔ حکومت کیخلاف تحریک سارے ملک میں پھیل گئی تو انتشار اور بدامنی کی حالت کا سدباب کرنے کی خاطر صدر ایوب نے راولپنڈی میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک گول میز کانفرنس طلب کی ۔
کا نفرنس
جو نہی یہ گول میز کا نفرنس نا کامی سے دوچار ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ساتھ ہی 1962 ء کا دستور بھی منسوخ کر دیا گیا ۔ تمام اختیارات فوج کے کمانڈر انچیف آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کر دیئے گئے اور 25 مارچ 1969ء کو ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔
سول چیف مارشل لاء
سقوط ڈھاکہ کے بعد دسمبر 1971 ء میں یحییٰ خان صدارت سے مستعفی ہوگئی اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات منتقل کر دیئے گئے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “انسانی حقوق کیلئے اصلاحی اقدامات“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻 مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
…….انسانی حقوق کیلئے اصلاحی اقدامات ……..