انسانی حقوق کی تاریخ ⇐ اہل مغرب بنیادی حقوق کے تصور کی ارتقائی تاریخ کا آغاز پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان سے کرتے ہیں اور پھر پانچویں صدی عیسوی کے زوال پذیر روم سے اپنے سیاسی فکر و تدبر کا رشتہ جوڑتے ہوئے یک دم گیارہویں صدی عیسوی میں داخل ہو جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کا درس
چھٹی سے دسویں صدی عیسوی تک کا پانچ سو سالہ طویل عہد ان کی تاریخ میں شامل نہیں جبکہ اس عہد میں اسلام نے حقوق انسانی کا درس دیا اور اصول وضع کئے جن کی پیروی آج مہذب دنیا کر رہی ہے۔
زمانہ قدیم اور ازمنہ وسطی میں انسانی حقوق
قدیم دور کا انسان اپنے حقوق سے بالکل نا آشنا تھا۔ قدیم یونان اور روم کی کتابوں میں کہیں کہیں ان کا ذکر ملتا ہے۔ مختلف قدیم مفکرین مثلا ہیروڈوٹس سقراط زینو الپیان الپسیئن وغیرہ نے انسانی حقوق کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔
آزادیاں
اسی دوران مغرب میں بادشاہوں اور امراء کے ظلم و جبر سے تنگ آئے ہوئے عوام الناس میں یہ شعور آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہا تھا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور انہیں بھی کچھ آزادیاں ملنی چاہئیں ۔ اس شعور کی کچھ جھلک ہمیں میگنا کارٹا میں ملتی ہے جو کہ 15 جون 1205ء کو جاری کیا گیا۔
نظر یہ بنیادی حقوق
حقوق کیا ہیں بنیادی حقوق کے ضمن میں سب سے پہلا سوال ہو سامنے آتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق وہ ہیں جو کسی انسان کو فطرت نے عطا کئے ہیں جو در اصل اس کے بنیادی حقوق ہیں ۔ ان میں حق زندگی حق عزت تحفظ وغیرہ جیسے حق شامل ہیں ۔ ان کا تسلیم کیا جانا از حد ضروری ہے ۔ مغرب میں یہ نظریہ بنیادی حقوق یعنی کا نظریہ کہلاتا ہے۔
معاہدہ عمرانی کا نظریہ
دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر ان حقوق کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے معابد اعمال بہت اچھا ان پر مشتمل ہے۔) کا نظریہ پیش کیا گیا۔
زمانہ قدیم کے قبائلی
اس کا لب لباب یہ ہے کہ مشترکہ اور متفقہ رائے کے تحت لوگ اپنے سماجی سمندری حل کرتے ہیں ۔ حکومت کا جواز عوام کے انتخاب پر ہے اور یہ بات سب سے پہلے زمانہ قدیم کے قبائلی لوگوں کو سو جھی جن کا خیال تھا کہ کوئی بھی حکومت ان کی مرضی کے بغیر چل سکتی ہے نہ قائم ہو سکتی ہے۔ گو یہ نظر یہ محض ایک مفروضہ پر قائم ہے۔
جان لاک کی معاہدہ عمرانی کی نئی تعبیر
سولہ سو اٹھاسی ء کے شاندار انقلاب جب مطلق العنان بادشاہت کی گرفت کمزور کی اور قانون حق کے ذریعہ پارلیمنٹ اور عوام کے حقوق و اختیارات میں کچھ اضافہ ہوا تو جان لاک نے معاہدہ عمرانی کی نئی تعبیر پیش کرتے ہوئے اقتدار اعلیٰ کو بادشاہ اور عوام کے درمیان تقسیم کیا اور عوام کی رضا مندی کو اولین حیثیت دی کہ جس کے بغیر کسی بادشاہ کو حکمرانی کا حق نہیں مل سکتا۔
روسو کا عوام کی حکمرانی کا تصور
یہ فرانسیسی مفکر روسو تھا جس نے بادشاہ کی مطلق العنان حکمرانی پر آخری ضرب لگائی اور معاہدہ عمرانی کی ایک نئی تو جیہہ پیش کرتے ہوئے اقتدار اعلی کا تاج بادشاہ کے سر سے اتار کر عوام کے سر پر رکھ دیا۔
جنوب میں انسانی حقوق کے تحفظ کے قوانین
قانون میں بے جا میگنا کارٹا” قانون حقوق فرانس کا منشور انسانی حقوق اور امریکی آئین کی دس ترمیما یہ دو دستاویزات ہیں جو برطانیہ فرانس اور امریکہ کے مخصوص سیاسی اور معاشرتی حالات کی پیداوار ہیں۔
حکمرانوں کے در میان تقسیم
وہاں بنیادی حقوق انسانی شعور کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ابھرے ہیں اور عوام اور بادشاہ یا حکمرانوں کے در میان تقسیم اختیارات کی طویل کشمکش کے دوران مختلف معاہدات پارلیمنٹ کے فیصلوں اعلانات اور سیاسی مفکرین کے نظریات سے وجود میں آئے ہیں۔
بنیادی حقوق پر اسلام کا اثر
اہل مغرب کا دعوی ہے کہ مغرب میں حقوق کی تاریخ تین چار سو سال پرانی ہے اور انہوں نے بڑی جدو جہد اور کاوشوں سے جو کچھ حاصل کیا ہے پوری دنیا آج اس سے فیض یاب ہو رہی ہے لیکن اہل مغرب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے انسانیت کو جن حقوق انسانی سے روشناس کرایا اہل مغرب کو ان حقوق کا احساس اب ہوا ہے۔
مذہبی تعلیمات
امریکی برطانوی اور فرانسیسی دسا تیر کا مطالعہ اگر مذہبی پس منظر میں کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ امریکہ برطانیہ اور فرانس میں بھی بنیادی حقوق کامل مأخذ مذہبی تعلیمات اور بالخصوص یورپ پر اسلام کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہے۔
برطانیہ میں انسانی حقوق کی صورتحال
جدید دنیا میں انسانی حقوق کے پرچار اور فروغ میں برطانیہ صف اولمیی شامل ہے۔ سترہویں صدی کے نصف تک بادشاہ جیسے تیسے انفرادی طور پر حکومت چلاتے رہے لیکن بالآخر عوام کو حکومت میں اپنا حصہ دار بنانا پڑا۔
بل آف رائٹس
برطانوی پارلیمنٹ نے 1689ء میں ایک ایسے مسودہ کی منظوری دی جو برطانیہ کی آئینی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ اسے قانونی حقوق (حقوق کا بل) کا نام دیا گیا۔
معاہدہ عمرانی کا نظریہ
اسی صدی میں جان لاک نے معاہدہ عمرانی کا نظریہ پیش کیا جو کہ انسانی حقوق کی تاریخ میں انقلاب کا باعث بنا۔
برطانیہ کے ظالمانہ قوانین
اٹھارہویں صدی عیسوی تک برطانیہ میں ایسے قوانین موجود تھے جن کو موجودہ دور کے حساب سے ہم ظالمانہ کہ سکتے ہیں۔ اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ کیتھولک فرقہ(کیتھولک) کے حامی لوگوں کو تنگ کیا جاتا اور انہیں کوئی سرکاری ملازمت نہیں ملتی تھی ۔
فیکٹریوں کی چمنیاں
بچوں اور عورتوں سے عام مشقت کی جاتی اور کوئی لیبر پالیسی نہ تھی بلکہ اکثر اوقات مزدوروں کو بارہ گھٹنے سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بچے فیکٹریوں کی چمنیاں صاف کرتے ہوئے وہیں دم گھٹنے سے مر جاتے۔ معاشرے میں اور اونچ نیچ عام تھی۔ پھر آہستہ آہستہ ایسے قانون بنائے گئے جس سے انسانی حقوق کی حفاظت ہو سکے۔
ووٹ کا حق اور دیگر حقوق
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور آتا گیا اور بیسویں صدی کے پہلے نصف میں عام آدمی کو ووٹ کا حق مل گیا۔ یہ بات بھی ذہن میں ر ہنی چاہیے کہ برطانیہ میں بہت دیر بعد خواتین کو روٹ کا حق دیا گیا ہے۔
بچوں سے مشقت
بچوں سے مشقت پر پابندی لگا دی گئی ۔ کام کرنے کے اوقات کا تعین کر دیا گیا اور کسی کے انفرادی معاملات میں دخل اندازی کو نا جائز قرار دیا گیا۔ پولیس کسی کو بلا وجہ تنگ نہیں کرسکتی تھی۔ برطانیہ میں تو سرے سے کوئی تحریری دستور ہی نہیں ہے تاہم ان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت بڑے اچھے طریقے سے کی جاتی ہے ۔ اسی لئے وہاں بنیادی حقوق کا محافظ ملک کا عام قانون ہے اور ان کے حصول کیلئے عام عدالتوں سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “انسانی حقوق کی تاریخ“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻 مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……… انسانی حقوق کی تاریخ ……….