ایک آئینی خلاء ⇐ پچیس مارچ 1969 ء سے لے کر 17 اپریل 1972 ء تک کا عرصہ ایک بار پھر آئینی خلاء کی نذر ہو گیا ۔ 17 اپریل کو قومی اسمبلی نے ایک عبوری آئین کی منظوری دی۔ عبوری آئین کے تحت 21 اپریل کو بھٹو نے صدارت کا حلف اٹھایا۔
مستقل آئین کی تشکیل
عبوری آئین کے بعد مستقل آئین کی تشکیل کیلئے کوششیں تیز کر دی گئیں 1973 ء کا آئین تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ منظوری سے جو کہ قومی اسمبلی میں حق نمائندگی رکھتی تھیں، منظور کیا گیا۔
آئین کا تحفظ
انیس سو تہتر ء کا آئین اپنی تمام ترامیم کے باوجود ایک مستقل آئین کی حیثیت رکھتا تھا ۔ گزشتہ ادوار میں 1956ء اور 1962ء کے دساتیر کا جو حشر ہوا اس کے پیش نظر آئین کا تحفظ ناگزیر تھا ۔ لہذا موجود ہو آئین میں دفعہ 16 اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اس آئین میں سلسلہ وار بنیادی حقوق کی دفعات درج ہیں جن کو سوائے ایمر جنسی کے معطل نہیں کیا جا سکتا۔ ہے
امن عامہ کی صورتحال
انسانی حقوق میں سرفہرست زندگی کا تحفظ ہے اس لئے کسی بھی معاشرے میں انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے امن کا برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
واقعات
اخبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا کہ جب پاکستان میں مختلف علاقوں میں دھما کے قتل و غارت زنا چوری اور ڈاکہ زانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما نہ ہوتا ہو ۔ یوں لگتا ہے گویا یہ واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صور تحال تسلی بخش نہیں ہے۔
جرائم میں اضافہ
جوں جوں سیاست میں کرپشن بڑھ رہی ہے جرائم میں کچھ ایسے نئے رجحانات کا اضافہ ہوا ہے جو عوام کیلئے بے حد تشویشناک اور پریشان کن ہیں ۔ مثلاً
مافیا کی کارروائیاں
ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشوں کا ملنا اور بھتہ مافیا کی کارروائیاں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔
تاوان
اغواء برائے تاوان کی وبا سندھ کے علاوہ پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔
جرائم میں اضافہ
بچوں اور خصوصا لڑکیوں پر خوفناک تشدد کے جرائم میں اضافہ۔
مسافر
شاہراؤں پر چلتی ویگنوں اور بسوں میں مسافروں کو لوٹ لینا اور سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کی دن دیہاڑے چوری۔
مذہبی فرقہ واریت کے تنازعات
مذہبی فرقہ واریت کے تنازعات جن کے نتیجے میں مسجدوں میں نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے انہیں ہلاک اور زخمی کر دینا ۔
خاندان کے افراد
گھروں میں گھس کر خاندان کے افراد ( جس میں ننھے اور معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں ) کو بے دردی سے قتل کر دینا ۔
دہشت گردوں کی کارروائیاں
دہشت گردوں کی کارروائیاں ۔ خودکش دھما کے اور بم حملے جن میں کثیر تعداد میں بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات
دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر ملک کے طول و عرض میں بم حملوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک تیس ہزار کے قریب بے گناہ شہری اور پانچ ہزار کے قریب سکیورٹی اداروں کے اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
فوجی چھاؤنیاں
فوجی چھاؤنیاں پولیس اور خفیہ اداروں کے ہیڈ کوارٹر آرمی اور نیوی کی عمارات غرض کوئی جگہ بھی ملک دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔
قبائلی جھگڑوں میں جانوں کا ضیاع
صوبہ سرحد اور بلوچستان کے قبائل جھگڑوں میں اکثر و بیشتر جانیں ضائع ہوتی رہتی ہیں ۔ اس طرح کے جھگڑے اور تصادم میں دور جاہلیت کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبائل سرار کسی اصول کے پابند نہیں ہوتے ۔
قبائلی روایات
جہاں وہ انسانی حقوق کو اپنے لئے مفید سمجھتے ہیں وہاں ان کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور جہاں اپنی قبائلی روایات کو اپنے خلاف دیکھتے ہیں وہاں وہ تمام انسانی حقوق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
پنجاب میں آباد مزاریوں
بلوچستان میں رئیسانی اور بگٹی قبائل اور پنجاب میں آباد مزاریوں اور لغاریوں کے درمیان کئی بار تصادم ہوئے جن میں بیسیوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مگسی قبائل
بلوچستان میں مگسی قبائل کے دوگروہوں میں دو مرتبہ تصادم ہوا جس کے نتیجے میں کئی افراد مارے گئے ۔اچکزئی قبیلے کی دو شاخوں غیب زنی اور حمید زنی کے درمیان ایک مجرب میں کئی افراد مارے گئے ۔ رئیسانی جمالی رند لنڈا اور کیتھران قبائل کے جھگڑوں میں کئی درجن جانیں تلف ہو گئیں۔
عورتوں پر تشدد
جان و مالک کے تحفظ کے بعد انسانی عزت و حرمت کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کے لحاظ سے اسلام میں مردوزن برابر ہیں اور دونوں کی عزت و وقار میں کوئی فرق نہیں ۔ ہندوؤں کے ساتھ صدیوں کے میل ملاپ نے مساوات کا یہ تصور ہمارے ذہنوں سے محو کر دیا ہے۔ مرد اپنے آپ کو فوقیت دیتا ہے اور عورتوں پر ظلم و جبر کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔
خواتین سے امتیازی سلوک
خواتین سے امتیازی سلوک زندگی کے ہر شعبے میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ پیدائش سے لے کر ازدواجی تعلقات اور پھر مرتے دم تک معاشرتی اور ریاستی سطح پر پایا جاتا ہے ۔ 1995ء میں سرکاری سطح پر ملک کی خاتون وزیر اعظم نے چند اقدامات بھی کئے لیکن عورتوں کیخلاف جرائم میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔
پولیس کے ذرائع کے مطابق
عورت کیخلاف سرزد ہونے والے بہت سے ایسے جرائم جن کا تعلق گھر یلو جنسی تشدد سے ہے رپورٹ نہ ہونے کے باعث بے نقاب نہیں ہوتے ۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق عورت کیخلاف کئے جانے والے جرائم کے صرف 35 فیصد واقعات تھانوں میں رپورٹ کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال عورتوں کیخلاف 17,000 جرائم رپورٹ کئے گئے ۔ اس تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔
اظہار رائے کی آزادی
آئین کی روسے پریس کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور ہر شہری کو تقریر کرنے اور اپنی رائے یا مافی الضمیر کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے لیکن عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی عموما حکومت کی پالیسیوں کے تابع ہے اور ذرائع ابلاغ کے اکثر اداروں جیسے ریڈیو ٹیلیویژن وغیرہ اپنے کنٹرول میں لے کر انتظامیہ ان پر مختلف قوانین کے ذریعے پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے ۔
حکومت کی کارکردگی پر تنقید
وہ ٹی وی چینلز اور اخبارات ور سائل جو حکومت کی کارکردگی پر تنقید کا حق استعمال کرنے سے باز نہیں آتے ان کے اجازت نامے (اعلان) منسوخ کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات لکھنے اور حکمرانوں کی بدعنوانیاں بے نقاب کرنے کا بے باک صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کئی ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔
واقعات
چنانچہ پنجاب اور اندرون سندھ سے پولیس اور دیگر حکام کی طرف سے مقامی رپورٹرز کومختلف الزامات کی بناء پر پریشان کرنے اور حراست میں لینے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ مذہبی اور لسانی گروہوں کی طرف سے صحافیوں کو سراسیمہ کرنا اور اخبارات کے دفاتر پر حملے کر کے توڑ پھوڑ کا مظاہرہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا احترام نہیں کیا جاتا ۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “ایک آئینی خلاء“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻 مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……..ایک آئینی خلاء …….