باورچی خانے کی صفائی ⇐ باورچی خانہ گھر کے اس کمرے یا جگہ کو کہتے ہیں جہاں کھانا تیار ہو۔ ہمارے اکثر گھروں میں برآمدے کا ایک حصہ چق لگا باورچی خانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ گاؤں میں عموماً صحن کے ایک حصے میں چولہا لگا کر اور اردگرد چھوٹی سی دیوار بنا کر باورچی خانہ کا کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر گھر کے سارے لوگ باورچی خانے میں اکٹھے ہو کر کھانا کھاتے ہیں ۔ اس طرح سے باورچی خانہ کھانے کے کمرے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ باورچی خانے کی صفائی میں سب سے اہم اسے کھیوں اور مچھروں سے پاک کرتا ہے ۔ اس کیلے اگر ممکن ہوتو با در چی خانے کا دور از و جالی کا رکھا جائے لیکن جولوگ صحن میں کھانا پکاتے ہیں اشیائے خوردنی کو ڈھانپ کر رکھیں ۔ مکھیوں اور مچھروں سے خطر ناک بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ مثلاً ہیضہ ٹائیفائیڈ وغیرہ۔ اس لئے اشیائے خوردنی کی صفائی کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خشک اشیاء جیسے دائیں آنا چاول، نمک، مرچیں، گرم مصالحہ ڈبوں میں بند ہوں تو لکھیوں اور مچھروں اور لال بیگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اشیاء رکھنے سے پہلے ڈبے خشک ہونے چاہئیں تا کہ چیزیں گیلی ہونے سے بچ سکیں ۔ ایسی اشیاء مثلا سبزی، گوشت دودھ مکھن وغیرہ۔ ان کو صاف رکھنے کیلئے مناسب طریقے اختیار کئے جائیں۔ یکھن سبزی اور گوشت کو فریج میں رکھیں۔ اگر فریج نہ ہو تو نعمت خانے میں رکھیں ۔ جہاں انہیں ہوا بھی ملتی رہے اور کیڑے مکوڑوں سے بھی محفوظ ہوں ۔ دودھ کو ڈھانپ کر رکھیں تا کہ مکھی مچھر وغیرہ اس میں داخل نہ ہو سکیں ۔ اکثر گھروں میں دودھ بغیر ڈھکے چولہے پر کئی گھنٹے تک پڑا رہتا ہے۔
نوٹ
ایسے تمام بیکٹیریا جو متعدی امراض پھیلانے میں مدد دیتے ہیں ان کو ہاتھو جنگ بیکٹیریا کا نام دیا جاتا ہے۔
برتنوں کی صفائی
برتن باورچی خانے کی اہم ضرورت ہیں۔ ہم کھانا برتنوں میں پکاتے اور کھاتے ہیں ۔ اگر بر تن گندے ہوں تو غذا کو اچھی طرح صاف پانی سے دھوئیں تاکہ اس کی سطح پر ریت وغیرہ کے ذرات نہ رہ جائیں ۔ ٹوٹے ہوئے برتنوں ( جیسے پیالیوں اور پلیٹوں کے سرے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں) کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ جراثیم ان ٹوٹے ہوئے حصوں میں داخل ہو کر بیماریوں کا موجب بنتے ہیں ۔ برتن کئی قسم کی دھاتوں سے بنے ہوتے ہیں ۔ مثلاً نام چینی ایلومینیم روغنی مٹی ، سٹین لیس سٹیل وغیرہ پیتل کے برتنوں کو قلعی کرواتے رہنا چاہیے۔ اس سے ایک تو برتن دیدہ زیب لگنے لگتے ہیں دوسرے کھانا زہر آلود ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ گاؤں میں اکثر کھانا من کی باغی میں پایا جاتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھناضروری ہے کہانی کے پوتوں میں کوئی دردار بیر نہ ہو جو جراثیم کے چھپانے کا باعث ہوتی ہو اور یہ ہر ٹیم کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔
کوڑا کرکٹ سے چھٹکارا
کوڑا کرکٹ چھلکے ہڈیاں کا نہ پھینکنے کیلئے ایک املانے والا میمن یار یہ ہو جس سے کمیاں کوڑے پر نہیں بیٹھتیں اور اس ڈبے یا نین کو روزانہ اچھی طرح صاف کریں تا کہ کسی قسم کی ہونہ آئے۔ اگر چوہوں کی روک تھام نہ کی جائے تو ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی افزائش روکنے کیلئے ہا تو چوہوں کو مار دینا چاہیے یا ہوگا دینا چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ باورچی خانے کی مکمل طور پر صفائی ہو اور خوراک کا کوئی ذرا ادھر ادھر بھرا نہ ہو اور اگر ضرورت پڑے تو چو ہے ماردوائی استعمال کرنی چاہیے۔
بچے کھچے کھانے کو ذخیرہ کرنا
گھروں میں عموما کھانے پینے کی اشیاء کی جاتی ہیں جن کو محفوظ کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثلا:
- چھلکے کا استعمال
- جالی سے ڈھانکنا
- نعمت خانہ
- گرم کرنا و غیر
ہمارے دیہاتوں میں عام طور پر بچے ہوئے کھانوں کو اور دوسری اشیاء کو سٹور کر نا مشکل ہوتا ہے۔ کھانے کی غذائیت کو برقرار رکھنے کیلئے چھلکے کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ باورچی خانہ یا برآمدے میں رسی سے لگا دیا جاتا ہے اور کھانے کی اشیاء کو باریک کپڑے سے ڈھانپ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس سے اشیاء کو چاروں طرف سے ہو اہلتی رہتی ہے۔ چھلکے کے علاوہ نعمت خانہ بھی اشیاء کو محفوظ رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نعمت خانہ کی جالی سے تازہ او المت خانے میں رکھی ہوئی کھانے کی شے کو محفوظ رکھتی ہے۔ عموماً کسی خوراک یا غذا کے خراب ہونے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس غذا میں کون سی قسم کے اور کتنی مقدار میں جراثیم موجود ہیں اس لئے اگر کھانے پینے کی اشیاء کو اس طریقے سے رکھا جائے کہ ان میں جراثیم داخل نہ ہونے پائیں تو زیادہ دن تک محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ اسی طرح غذا کو رکھنے کیلئے 116 سینٹی گریڈ سے 19 سینٹی گریڈ تقریبا پون گھنٹہ پکانا ضروری ہے۔ بیکٹیریا کی بعض اقسام اپنے ارد گر د خول بنا لیتے ہیں۔ ان کو تلف کرنے کیلئے وقت اور درجہ حرارت میں اضافہ کرنا ضروری ہوتا ہے یا پھر ایک اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ یہی عمل یعنی گرم کرنا دو مرتبہ کر لیا جائے ۔ مثال پہلے ایک گھنٹہ کیلئے 100 درجہ سینٹی گریڈ پر گرم کریں۔ اسی طرح دوسرے دن ایک گھنٹہ کیلئے 10 درجے سینٹی گریڈ پر گرم کیا جائے ۔ اس طرح جو جراثیم پہلے روز اپنے ارد گر دخول بناتے ہیں وہ دوسرے اور تیسرے روز خول ٹوٹنے پر ختم ہو جاتے ہیں اور پکا ہوا کھانا اس طرح ایک دور وز تیک بالکل صحیح حالت میں رہتا ہے۔
جلد خراب ہونے والی اشیاء کو سٹور کرنا
ایسی اشیاء جو جلد خراب ہو جانے والی ہوتی ہیں۔ وہ عموماً دودھ اور دودھ سے بنی ہوتی ہیں جیسے مکھن ، پنیر دہی وغیرہ ۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 10 سے 20 فیصد غذا ئیں گلنے سڑنے کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں ۔ اکثر اوقات گھر میں ضرورت سے زیادہ اشیاء بچ جاتی ہیں اس لئے ان اشیاء کو دو چار روز کیلئے سٹور بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران ان کی غذائیت تیز گرمی جوپ سے ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جلد خراب ہونے والی اشیاء کو سردیوں کے موسم میں تو ہفتہ بھر کیلئے ٹھنڈی جگہوں پر سٹور کیا جا سکتا ہے لیکن گرمیوں میں یہ بہت جلد خراب ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر مچھلی، گوشت ٹماٹر پا لک اور پھلوں میں امرود کیلا وغیرہ ۔ گوشت اور مچھلی کی غذائیت کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو برف میں رکھا جائے اگر چہ شہروں میں یہ عمل آسان ہے لیکن دیہات میں اس پر عمل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہاں برف ملنا مشکل ہے۔ اس لئے دیہات کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایسی اشیاء ضرورت کے مطابق خریدیں اور ضرورت سے زائد چیز خرید نے سے پر ہیز کریں۔ اس طرح انہیں سٹور کرنے کا مسئلہ در پیش نہیں ہوگا اور دوسرے دن کیلئے پھر تازہ چیزیں منڈی یا مقامی دکان سے خرید سکیں۔
دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء کو سٹور کرنا
دودھ کی غذائیت کو برقرار رکھنے کیلئے اسے ابال لیا جاتا ہے۔ ابالنے کی وجہ سے اسے ایک دو دن رکھا جا سکتا ہے ۔ دودھ سے بنی اشیاء مکھن اور دہی ایک دو دن تک ٹھیک حالت میں رو سکتے ہیں۔ دودھ کے جراثیم بھی وہی میں موجود ہوتے ہیں ۔ اگر دہی کا درجہ حرارت کمرے کے درجہ حرارت کے مطابق ہو تو اس کی غذائیت میں فرق آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی وہی کھنا ہو جاتا ہے اگر دہی کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو اس میں دودھ کے جراثیم کے علاوہ دوسرے جراثیم بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔ جس سے دہی میں پھٹکریاں سی بن جاتی ہیں اور اس سے ناگوار قسم کی بو آنے لگتی ہے۔ اس لئے دہی کے برتن صاف ستھرے ہونے چاہئیں اور مکھیوں کی زد سے محفوظ رکھیں۔ رہی کو کھلا نہ چھوڑیں اور اگر ریفریجریٹر نہ ہو تو کسی بڑے برتن میں رکھ دیں۔ اس طرح دہی کو ایک دن کیلئے رکھا جا سکتا ہے۔ اس بات کا خیال رہنا چاہیے کہ دھوپ اور گرمی سے دور رکھیں اور کسی کیڑے وغیرہ کے پڑنے کا امکان نہ ہونے دیں۔ مکھن میں کچھ ایسے اجزاء یا خامرے موجود ہوتے ہیں جو زیادہ درجہ حرارت میں مکھن کے چکنائی کے ترشوں پر عمل تیز کر دیتے ہیں جس سے مکھن میں ایک خاص قسم کی خوشبو آنے لگتی ہے ایسے مکھن کو لوگ خرید نا پسند نہیں کرتے ۔ شہروں میں تو مکھن کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے فریج میں رکھ دیا جاتا ہے لیکن اگر فریج نہ ہو خاص طور پر دیہاتوں میں جہاں برف بھی وافر مقدار میں نہیں ملتی وہاں مکھن کو خراب ہونے اور کھلنے سے بچانے کیلئے کسی کٹورے میں رکھ دیا جاتا ہے اور اسے کسی گیلے کپڑے سے ڈھانک کر کٹوری کو پانی سے بھرے ہوئے برتن میں اس طرح رکھا جاتا ہے کہ کپڑے کے ہر سرے پانی میں ڈوبے رہیں اس طرح کپڑا ہر وقت گیلا رہتا ہے اور مکھن محفوظ رہتا ہے۔
گوشت کو سٹور کرنا
گوشت کو کچھ وقت سٹور کرنے سے اس کی غذائیت میں زیادہ کی نہیں ہوتی لیکن زیادہ سٹور کرنے سے اس میں خرابی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کم درجہ حرارت یعنی 10 سے 1.5 درجہ سینٹی گریڈ پر کچھ دنوں کیلئے سٹور کیا جا سکتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اس درجہ حرارت پر گوشت میں موجود غذائی اجزاء کم سے کم عمل کرتے ہیں۔ گائے اور بکرے کے گوشت کے برعکس مچھلی کیلئے ضروری ہے کہ تازہ ہوا سے ملتی رہے۔ اس طرح غذائیت کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہے جن گھروں میں فریج نہ ہو اور برف کا بھی انتظام نہ ہو سکے تو وہاں گوشت سٹور کرنا مشکل امر ہوتا ہے۔ اس لئے گرمیوں میں تو ضرورت کے مطابق تازہ گوشت خریدنا چاہیے لیکن بعض اوقات گوشت بچ جاتا ہے تو ایسی صورت میں گوشت کو ململ کے کپڑے سے ڈھانک کر نعمت خانے میں رکھنا چاہیے ۔ اس کا خیال رہے کہ نعمت خانہ دھوپ اور حرارت سے دور ہو اور اس کی جالی کہیں سے ٹوٹی نہ ہو۔ اگر کپڑے کو سرکہ سے تر کر کے ڈھانک دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ گوشت کا ٹکڑا بڑا ہو یا بکرے کی ران ہو تو اس کو باورچی خانے یا نعمت خانے کی چھت سے لٹکا دیا جائے تا کہ اسے چاروں طرف سے ہوا ملے اور اس طرح گوشت جلد خراب نہیں ہوتا۔ گوشت میں نمک، گھی اور مصالحے ڈال کر بھون لیا جائے تو اس طریقے سے بھی گوشت کو 12 سے 24 گھنٹے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کو سٹور کرنا
گھروں میں بیچ جانے والے پھل اور سبزیوں کی غذائیت برقرار رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کو اس طرح رکھا جائے کہ اس میں جراثیم داخل نہ ہونے پائیں تو کچھ دنوں کیلئے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ جہاں تک ممکن ہو سکے تو صفائی کا خیال رکھا جائے اور انہیں جراثیم سے بچایا جائے ۔ پھل اور سبزیوں کو پودوں سے توڑے ٹرکوں میں بھرنے اور ان کو منڈی تک لے جاتے ہوئے اگر صفائی کے اصولوں کو مد نظر رکھا جائے تو ایسے پھل اور سبزیاں کافی دن تازہ حالت میں رو سکتے ہیں۔ بچی ہوئی سبزیاں اور پھل پانی سے دو تین بار ا چھی طرح صاف کر لینے چاہئیں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو پانی میں تھوڑا سا پوٹاشیم پر میکنیٹ ( لال دوائی ) ڈال کر جراثیم سے پاک کر لیں ۔ اس کے علاوہ پھل اور سبزیاں دھونے کیلئے پانی صاف ہو۔ اگر ایک آدھ پھل اور سبزی گلی سڑی ہو تو اس کو ضائع کر دیں کیونکہ اس کی وجہ سے تمام سبزیاں اور پھل خراب ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ زیر زمین اگلنے والی سبزیاں ( مثلاً اردی، آلو شکر قندی کا جز مولی وغیرہ ) کوٹھنڈی جگہ فریج برف وغیرہ میں رکھ کر کافی دنوں تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے بعض اوقات سبزیاں ضرورت سے زیادہ خرید لی جاتی ہیں اور اگر گھر میں فریج اور برف کی سہولت نہ ہوتو زمین میں گڑھا کھول کر اس میں صاف ریت ڈال کر مندرجہ بالا سبزیاں تہہ بہ تہ رکھ دی جاتی ہیں۔ اس سے دو تین ہفتے تک سبزیاں محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ پتے دار سبزیوں ( مثلا پالک، میتھی ساگ وغیرہ) کو ابلتے ہوئے پانی میں جوش دیا جائے اور برتن سے فورا نکال لیا جائے اور دھوپ میں پھیلا کر رکھ لیا جائے تو ایسی سبزیاں بعد میں عام طریقے سے پکائی جاسکتی ہیں اور یہ دنوں بلکہ ہفتوں تک محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ گھر میں پھلوں کو ان کی اصلی حالت میں زیادہ عرصے تک محفوظ کرنے کیلئے ٹھنڈے کمروں ریفریجریٹروں اور برف کے بکسوں میں رکھا جائے۔ زمین دوز کمرے بھی درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے اس کام کیلئے استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔ بہت سے ایسے پھل ایسے ہیں ( مثلا مالا آم فالسہ انار جامن ) جس کے رس اور سکوائش تیار کر کے انہیں مدت تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ پھلوں (مثلاً ناشپاتی ، آڑو انجیر انگور ) کو گندھک کا دھواں دینے کے بعد دھوپ میں رکھ کر خشک کر کے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے خشک پھل کئی ہفتوں یا مہینوں تک رکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں مختلف پھلوں سے اچار چٹنی اور جیلی بنا کر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "باورچی خانے کی صفائی" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ