بنیادی حقوق کے تحفظات

بنیادی حقوق کے تحفظات ⇐ دور حاضر کے بیشتر تحریری دساتیر میں بنیادی حقوق کی ایک فہرست شامل کر دی جاتی ہے اور حقوق کو اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے۔

بنیادی حقوق کے تحفظات

بنیادی حقوق کی اہمیت

دستوری قانون چونکہ ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے اس لئے آئین کا  حصہ بن جانے  کے باعث بنیادی حقوق کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

مختلف ممالک

ایسا قانون یا حکم یا اقدام جو  آئین میں دیئے گئے حقوق سے متصادم ہو غیر آئین کہلا تا ہے لہذا یہ کہاجائے گا کہ بنیادی حق کا سب سے بڑا محافظ آئین ہے لیکن مختلف ممالک میں پیش آنے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جس آئین کو بنیادی حقوق کا سب سے بڑا محافظ خیال کیا جاتا ہے وہ خود حکومت کے دستبرد سے محفوظ نہیں ۔ دنیا کا شاید ہی کوئی دستور ہو جو دستوری ترمیمات سے بچا ہوا ہو ۔

مقررہ طریق کار

بنیادی حقوق کو پس پشت ڈال کر مطلوبہ اکثریت اور مقررہ طریق کار کے ذریعہ اپنی مرضی کے مطابق آئین میں ترامیم کرنا حکومتوں کا ایک عام  وطیرہ ہے۔

عدلیہ کے ذریعے

آئین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ارکان حکومت کے اختیارات کا دائرہ متعین کیا جائے اور عدلیہ کے ذریعے انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں لیکن عمومی صورتحال یہ ہے کہ وہ عدلیہ جسے حکمرانوں کو قابور رکھنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ خود انہی حکمرانوں کے اختیارات کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔

آئینی دفعات

بعض اوقات آئینی دفعات میں ترمیم و تنسیخ اور بعض نئی دفعات کی شمولیت ہنگامی حالت کے اعلان اور اس کے تحت حاصل شدہ اختیارات کے استعمال سے بنیادی حقوق معطل ہو کر رہ جاتے ہیں

دستور میں ترمیم

دستور میں ترمیم کر کے حکمران قانونی جواز پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی ہر کارروائی عین دستور کے مطابق قرار پاتی ہے۔ ایک اقدام جو کل تک نا جائز اور غیر قانونی تھا آج محض دستوری ترمیم کی بدولت جائز اور قانونی بن جاتا ہے۔

دستوری دفعات

انیس سو پچہتر ء میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں بنیادی حقوق سے متعلق دستوری دفعات کا جو حشر ہوا ہے وہ عدلیہ کی بے بسی و مجبوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مختلف جماعتوں پر پابندی

حکمرانوں کی من مانی قانون سازی کی مثالیں اکثر ملکوں میں عام ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن نے مختلف جماعتوں پر پابندی لگائی ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا پریس کی آزادی سلب کی اسمبلیوں کو عضو معطل بنایا

عین دستور کے مطابق

عدلیہ کو متعلقہ اختیارات سے محروم کر کے بنیادی حقوق کے نفاذ کو غیر موثر بنا دیا تو یہ سب کچھ عین دستور کے مطابق قرار پایا۔

مخالف پارٹیوں پر پابندی

بھارت میں اندرا گاندھی نے انتخابات میں دھاندلی کی تو اس نے دستور میں ترمیم کے ذریعہ خود کو سزا سے بچالیا۔ مخالف پارٹیوں پر پابندی لگائی ۔

اخبارات

انتخابی حریف اور ہائیکورٹ میں مقدمہ جینے والے فریق راج نرائن اور ان کے ساتھیوں کو جیلوں میں بند کر دیا۔ ہنگامی حالات کا اعلان کر کے تمام بنیادی حقوق کو معطل کردیا۔ اس ظلم پر اخبارات نے واویلا مچایا تو ان کا گلا گھونٹ ڈالا ۔

منصفانہ انتخابات کا تصور

جب یہ سب کچھ ہو چکا تو اندرا کے وکیل نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل کہا کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کا تصور خیالی آزادانہ ہے اور اسے آئین کا جز وقرار نہیں دیا جا سکتا۔

منصفانہ انتخابات کا تصور

ترمیم شدہ دستور کے تحت فیصلہ

عدالتیں یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہیں کہ انتخابات کرائے گئے ہیں یا نہیں ۔ یہ سارا کھیل دستور کے سائے میں کھیلا گیا اور سپریم کورٹ نے جو ترمیم شدہ دستور کے تحت فیصلہ کرنے پر پابند تھی اندرا کو ان تمام جرائم سے بری کر دیا جن کی سزا غیر ترمیم شدہ دستور کے تحت ہائیکورٹ نے دی تھی۔

معطل

ہمارے اپنے ملک میں جہاں اب چوتھا دستور نافذ ہے نفاذ دستور کے ساتھ ہی ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا اور بنیادی حقوق معطل کر دیئے گئے ۔

ہنگامی حالت کا اعلان

اپنی صوابدید پر حکمران جس وقت چاہیں ہنگامی حالت کا اعلان کر سکتے ہیں اور یہ اعلان ہوتے ہی وہ آئین کی پابندی سے یکسر آزاد ہو جاتے ہیں ۔ وہ چاہیں تو دستور کی موجودگی میں مارشل لاء نافذ کر دیں ۔

عوام کو بنیادی حقوق

عدلیہ کو تمام اختیارات سے اور عوام کو بنیادی حقوق سے بالکل محروم کر دیں۔ کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ نہ عدلیہ نہ عوام نے قانون اور نہ ملک کا دستور۔

کالعدم دساتیر

دستور کی ان خامیوں سے بڑھ کر خود آئین کے وجود و بقا کا مسئلہ ہے۔ دستور اپنی تمام تر بلند و بالا حیثیت کے باوجود کسی قدر غیر یقینی اور نا پائیدار ہے۔ اسکا اندازہ پاکستان میں 1956ء اور 1962 ء کے کالعدم دساتیر سے لگایا جاسکتا ہے۔

اعتماد

جب اسکے اپنے وجود کی کوئی گارنٹی نہیں تو ہم ان بنیادی حقوق ( جو خود آئین کا ایک حصہ ہیں ) کے تحفظ کیلئے اس پر کس حد تک اعتماد کر سکتے ہیں؟

اعتماد

بنیادی حقوق کا تحفظ

لہذا شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ محض آئین پر موقوف نہیں بلکہ حقیقی آزادیاں اسی صورت محفوظ ہوسکتی ہیں جب ایک مستعد اور مؤثر رائے عامہ موجود ہو جو آزادی کی قدر و قیمت سے پوری طرح آشنا ہو اور اس کے تحفظ کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔

جمہوری اقدام کی پاسبان

اس کے ساتھ ساتھ ملک کا سیاسی ماحول پختہ شعور کا حامل ہو تمام سیاسی جماعتیں جمہوری اقدام کی پاسبان ہوں اور پریس اپنے تنقیدی شعور کا بھر پور مظاہرہ کرے۔

آئینی ضمانت

خود عام شہری قومی امور میں دلچسپی لینا ترک کر دیں تو لا محالہ حکمرانوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور آئینی ضمانت بھی بے کار ثابت ہوتی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوبنیادی حقوق کے تحفظات  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

…….بنیادی حقوق کے تحفظات  …….

Leave a comment