بین الاقوامی تجارت ⇐ دور حاضر میں دنیا کا کوئی بھی ملک اپنی ضروریات کی تمام اشیا میں خود کفالت حاصل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قدرت نے ہر ملک کو مختلف نوعیت کے ذرائع اور مخصوص آب و ہوا سے نوازا ہے جن کی بنا پر ہر ملک کے افراد اپنی ذہنی، جسمانی، موروثی اور خدا داد صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر مخلف بیٹے اختیار کر کے ان سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔ وسائل کے اعتبار سےکئی ممالک عاملین پیدائش کی دستیابی، مہارت اور تخصیص کار کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ کچھ ممالک میں زرخیز زمین کے وسیع و عریض رہتے ہیں تو کچھ جدید ٹیکنالوجی اور جدت سازی میں بے پناہ ترقی کی بدولت مشینیں، آلات ، کمپیوٹر ، جہاز، جنگی ساز و سامان اور انسانی بقا کے لیے ضروری آسائشی حاجات مثلاً خوراک ، لباس ، رہائش ، سامان، سائیکل ، پنکھے وغیرہ) تعیشاتی حاجات ( مثلاً کاریں، ائیر کنڈیشنر وغیرہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اس طرح کئی ممالک قدرتی گیس معدنیات اور تیل کی دولت سے مالا مال ہیں پیداواری وسائل کی یہی تقسیم تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تجارتی مراسم استوار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک ملک کے افراد دوسرے ممالک کے افراد کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کر کے تخصیص کار کے اصولوں کے تحت پیداواری وسائل کا بھر پور استعمال کرتے ہیں جو شے وہ اپنے ملک میں وسائل یا جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث پیدا نہیں کر سکتے انہیں دستیاب ممالک سے منگوا لیتے ہیں جہاں یہ اشیاستی پیدا ہو رہی ہوں۔ اس طرح تخصیص کار کے اصول سے فائدہ اُٹھا کر ہر ملک نہ صرف اپنے باشندوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ فاضل اشیا کو برآمد کر کے دوسرے ممالک سے تخصیصی اشیا حاصل کر کے بہت کی اشیا کے استعمال سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان اشیا و خدمات کا یہی لین دین معاشی اصطلاح میں بین الاقوامی تجارت کہلاتا ہے جس کی بنیاد وسائل کی قدرتی و جغرافیائی تقسیم پر ہے۔ موجودہ باب میں ہم بین الاقوامی تجارت کے موضوعات پر بحث کریں گے۔ 5.1 ملکی اور بین الاقوامی تجارت کسی ملک کی جغرافیائی حدود کے اندر افراد، اداروں، شہروں ، قصبوں اور ملک کے درمیان اشیا و خدمات کا لین دین ملکی تجارت کہلاتا ہے۔ ملکی تجارت میں اشیاء خدمات کے خریدنے اور فروخت کرنے والے ایک ہی ملک کے باشندے ہوتے ہیں جو ضروریات زندگی کے تمام لوازمات کا آپس میں لین دین کرتے ہیں جبکہ ملکی حدود کے اندر اشیا و خدمات کا لین دین بدستور ملکی اثاثوں کا حصہ ہی رہتا ہے۔
ملکی تجارت
ملکی اور بین الاقوامی تجارت
کسی ایک ملک کا دیگر ممالک سے اشیا و خدمات کا لین دین بین الاقوامی تجارت کہلاتا ہے۔ ہر ملک وہ اشیا و خدمات دوسرے ممالک سے منگواتا ہے جو خود پیدا کرنے سے قاصر ہو یا جن کو پیدا کرنے میں نسبتا زیادہ مصارف پیدائش اُٹھتے ہوں ۔ بین الاقوامی تجارت کو بیرونی تجارت یا تجارت خارجہ بھی کہتے ہیں۔ اس تجارت میں اشیا و خدمات کے تبادلے میں خریدار اور فروخت کار مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں فرق ملکی و بین الاقوامی تجارت کی بنیادی وجہ تخصیص کار اور مصارف پیدائش میں فرق ہے تا ہم دونوں میں منافع کا ترک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن وسائل کی امتیاز تقسیم دونوں قسم کی تجارت کو ایک دوسرے سے درج ذیل نکات پر مختلف کر دیتی ہے۔
محنت اور سرمایہ کی نقل پذیری
1 ایک ہی ملک کی جغرافیائی حدود کے اندر محنت اور سرمایہ کی نقل پذیری آسان اور لچکدار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے محنت اور سرمائے کو ان کی استعداد کار کے مطابق حصہ مل جاتا ہے اور وہ کم معاوضے والے علاقوں سے نکل کر ایسے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں شرح اجرت اور شرح سود زیادہ ملتی ہے۔ اس سے نہ صرف مزدوروں اور سرمائے کے معاوضے یکساں ہو جاتے ہیں بلکہ اشیا پیدا کرنے کے اخراجات میں یکسانیت اور منڈی کو استحکام نصیب ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بین الاقوامی سطح پر محنت اور سرمائے کی نقل پذیری میں کئی قسم کی کاشی حائل ہوتی ہں مثلا مزدوروں کی زبان، رسم ورواج، مذہبی جذبات، پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کی کڑی شرا کا بھی بیرون مک کی نقل پذیری میں مشکلات کا سب بنتی ہیں۔ مزید برآں ملکی قوانین محنت او سرمائے کی اندرون ملک نقل پذیری پر پابندی عائد نہیں کرتے لیکن محنت اور سرمائے کی دیگر ممالک آزادانہ نقل پذیری پر پابندی عائد کرتے ہیں جس کے باعث محنت اور سرمائے کے معاوضوں کی شرح اجرت اور شرح سود میں یکسانیت نہیں پائی جاتی اور مختلف ممالک میں اشیا کی قیمتیں مختلف ہوتی ہیں جو بین الاقوامی تجارت کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہیں۔
کرنسیوں کی شرح مبادلہ
ملک کے اندر اشیا و خدمات کے لین دین ان کی ادائیگیاں اور وصولیاں ملک میں رائج ایک ہی کرنسی کی صورت میں ہوتی ہیں۔ سے نہیں ہوتا اس لیے انہیں خرید و فروخت میں ملکی کرنسی ہی کیونکہ ایک ہی ملک میں بسنے والے خریدار اور فروخت کار کا تعلق کسی دوسہ قبول کرنا پڑتی ہے۔ لیکن مختلف ممالک میں مختلف نوعیت کی کرنسیاں مثلاً ڈالر، پونڈ ، یورو، ریال، رینگٹ ، بین، دینار وغیرہ رائج ہوتی ہیں اس لیے اشیاد خدمات کے بین الاقوامی تبادلہ کی صورت میں ملکی کرنسی کو دوسرے ممالک کی کرنسیوں سے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کرنسیوں کی باہمی شرح مبادلہ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے بعض اوقات کرنسیوں کے شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ بین الاقوامی تجارت میں مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ایک ملک اپنی کرنسی کی قدر کم یا زیادہ کرے تو دوسرے ممالک کی تجارت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ملک اپنی کرنسی کی قدر برآمدات بڑھانے کے لیے کم کر دے تو مقابلے میں برآمد کرنے والے ملک کی برآمدی تجارت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسے مجبور امنڈی میں رہنے کے لیے کرنی کی قدر کم کرنا پڑتی ہے۔
تجارتی پابندیوں میں فرق
۔ کسی ایک ملک کی جغرافیائی حدود کے اندر تجارتی مال کی نقل چھل پر کوئی خاص تجارتی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں بلکہ اشیا خدمات کو کثرت والے علاقوں سے قلت والے علاقوں کی طرف منتقل کرنے کے لیے حکومت موثر انتظامات کرتی ہے تا کہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں بھی استحکام فراہم کیا جاسکے۔ اس کے برعکس بین الاقوامی تجارت کی صورت میں اشیا و خدمات کی نقل و حمل پر کل پابندیاں اور شرائط عائد ہوتی ہیں مثلاً درآمدی و برآمدی لائسنس حاصل کرنے پڑتے ہیں ، نسبت درآمد و بر آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے تجارتی محصولات ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات غیر ممالک میں اپنی اشیا کی مانگ کو موثر بنانے اور اپنی صنعتوں کو ترقی دینے کی غرض سے کے تحت کم قیمت پر بھی اشیا فروخت کی جاتی ہیں جس سے درآمد و بر آمد کرنے والے ممالک تامین کی پالیسی کے درمیان کرنسی کی قیمتوں میں عدم استحکام کے باعث توازن تجارت پیچیدگی کا شکار بن جاتا ہے مزید برآں مختلف ممالک کی بین الاقوامی تجارت کے سلسلے میں تجارتی پالیسیاں اور ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔
سرکاری سہولتوں میں فرق
اندرون ملک تجارت کے فروغ کے لیے حکومت خریدار اور فروخت کار کو مخصوص قسم کی سہولیات مثلاً ٹیکس میں رعایت درمانی انے ، اعانے مالی امداد مہیا کرتی ہے تا کہ ملکی تجارت میں اشیا آزادانہ طور پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچ سکیں اور ارزاں قیمتوں پر اشیا دستیاب ہوں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی سطح پر اشیا کی لین دین کے سلسلے میں حکومت کی ترجیحات مختلف ممالک کے لیے مختلف ہوتی ہیں جس کے تحت بعض اوقات کونہ ستم اور فری ٹریڈ جیسی پالیسیاں رواج دے کر تجارتی مراسم مستقل نوعیت پر استوار کیے جاتے ہیں ۔ لہذا خلف ممالک کو تلف مراعات اور پابندیاں عائد کر کےحکومت اشا کی پیدائش اور ان کے مصارف پیدائش کو اتمام باشن ہے۔ چونکہ ملکی تجارت میں عام طور پر اشیا کی نقل مل کے سلسلے میں کسی قسم کے معاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بین الاقوامی سطح پرمختلف مالکی کے درمیان با قاعدہ تجارتی معاہدے تحریر کیے جاتے ہیں اور تجارتی وفود کے تبادلوں کو موثر بنا کر تجارتی معاہدوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔
ذوق اور معیار میں فرق
ہر ملک میں لینے والے باشندوں کا اشیا استعمال کرنے کے سلسلے میں ذوق اور معیار وہاں کے جغرافیائی حالات ، رسم وروان مذہبی جذبات اور احساسات کا مرہون منت ہوتا ہے اس لیے ملکی سطح پر اشیا کی پیدائش اور تجارت مذکورہ بالا عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل میں لائی جاتی ہے۔ ملک کے اندر پیدا ہونے والی تمام اشیا کی تجارت آزادانہ طور پر غیر مشروط ہوتی ہے۔ لیکن مختلف ممالک سے صرف وہی اشیا درآمد کی جاتی ہیں جو لوگوں کے ذوق اور معیار پر پوری اترتی ہوں۔ اس طرح بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان کئی اشیا تجارتی پابندیوں اور شرائط کا شکار بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکوں کے لوگوں کی صلاحیتوں اور آمدنیوں میں فرق بھی معیار زندگی اور ذوق کو بدل دیتا ہے لیکن کلی سی پر عام طور پرلوگوں کی صلاحیتیں اور آمد نیاں یکسانیت کا شکار ہوتی ہیں جو معیار زندگی اور ذوق کوبھی متاثر نہیں کرتیں۔
وسائل کی دستیابی
ہر ملک کو قدرت نے مخصوص وسائل سے نوازا ہے اس لیے کسی ایک ملک کے اندر موجود قدرتی وسائل کے ذخائر ایک جیسی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مثا کے طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس لیے ملکی تجارت کا بیشتر حصہ زرعی پیداوار پرمشتمل ہے اور ملک کے اندر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں زیادہ تر زرعی پیداوار کاری لین دین کیا جاتا ہے۔ اسکے برعکس مختلف ممالک متعدد نوعیت کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اسلیے ہر ملک میںمختلف نوعیت کی اشیا پیدا کیجاتی ہیں جوملکی تجارت و بین الاقوامی تجارت سے ممتاز کرتی ہیں۔ اکثر ممالک اپنی ضروریات کی اشیاد دیگر ممالک سے منگوا کر تخصیص کار کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ ملکی تجارت کی صورت میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتا۔
قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔