بین الاقوامی تجارت کا بیرونی اشیاء پر انحصار
بین الاقوامی تجارت کا بیرونی اشیاء پر انحصار⇐ بین الاقوامی تجارت کی بدولت تخصیص کار کے اصول کے تحت مخصوص اشیا کی پیدائش پر قومی وسائل بے دریغ خرچ کر دیے جاتے ہیں اور ضرورت کی باقی اشیا کے لیے دوسرے ممالک کا محتاج بننا پڑتا ہے اور اگر کسی وجہ سے بروقت اشیا درآمد نہ کی جاسکیں تو ملک کا پورا نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ماسوائے چند مخصوص اشیا کے دیگر اشیا کی پیدائش کے لیے مشینری اور خام مال غیر ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں خام مال اور مشینری نہ ملنے کی صورت میں تمام پیداواری شعبے بند کرنا پڑتے ہیں۔ بے روزگاری پھیل جاتی ہے اور قومی پیداوار خطرناک حد تک کمی کا شکار ہو جاتی ہے اور ملکی حالات ناسازگار ہو جاتے ہیں۔
محدود اشیا کی پیدائش میں تخصیص کار
چونکہ بین الاقوامی تجارت کی بنیاد تخصیص کار کے اصول پر قائم ہے۔ اس لیے ہر ملک اپنے قومی وسائل کو صرف ان اشیا کی تیاری میں استعمال کرتا ہے۔ جن کی پیدائش پر فی اکائی مصارف پیدائش کم برداشت کرنا پڑتے ہوں اور دیگر ضروری اشیا کی پیدائش کو اس لیے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ انہیں ایسے ممالک سے درآمد کر لیا جائے جہاں یہ بہت سستی دستیاب ہوں لیکن ایسی پالیسی معاشرتی ترقی اور ملکی حالات پر برے اثرات مرتب کرتی ہے مثلاً اگر کسی وجہ سے تخصیصی شعبوں میں مزدوروں کی ہڑتالوں ، خام مال اور مشینری کی عدم دستیابی یا پیداواری یونٹوں میں خرابی پیدا ہو جائے تو پیداواری شعبوں میں پیداوار بند ہو جائے گی۔ بے روزگاری پھیل جائے گی اور ملکی حالات بدامنی اور قلت کا شکار ہو جائیں گے۔ ان حالات میں فوری طور پر غیر ممالک سے امداد بھی ممکن نہیں ہوتی اور ملکی سالمیت مخطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ناموافق نسبت در آمد و برآمد
ترقی پذیر ممالک کی زیادہ تر برآمدات زرعی اجناس مثلاً کپاس، چاول، پٹ سن، چائے، گندم، چینی وغیرہ پر مشتمل ہیں جبکہ اس قسم کی اشیا پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں ان ممالک کے درمیان سخت مقابلہ پایا جاتا ہے۔ چونکہ زرعی اجناس کی قیمتوں کے مقابلے میں صنعتی اشیا کی قیمتیں انتہائی بلند ہوتی ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو زیادہ قیمت پر اشیا خریدنی پڑتی ہیں۔ اس طرح عالمی منڈی میں نسبت درآمد بر آمد میں فرق کے باعث ترقی پذیر ممالک کے منافع جات گھٹ جاتے ہیں۔
خام مال کی منڈیاں
ملکی بین الاقوامی تجارت کے فوائد کی بدولت ترقی پذیر ممالک کی صنعتیں پسماندگی کا شکار بنتی رہتی ہیں کیونکہ یہ ممالک زر مبادلہ کے حصول کے لیے خام مال دوسرے ممالک کو برآمد کردیتے ہیں اور ملکی صنعتوں کو چلانے کے لیے خام مال کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ ملکی صنعتیں اپنی ضرورت کی مصنوعات بھی پیدا کرنے سے محروم ہو جاتی ہیں لیکن اس کے برعکس غیر ملکی صنعتیں خوب پھلتی پھولتی ہیں اورترقی پذیر ملک صنعتی ممالک کے لیے خام مال کی منڈی بنے رہتے ہیں۔ مزید برآں صنعتی ممالک اشیا مہنگے داموں ترقی پذیر ممالک میں فروخت کر کے زر مبادلہ کے ذخائر جم کر جاتے ہیں۔
اسلحہ اور مضر صحت اشیا کی دستیابی
بین الاقوامی تجارت کی وجہ سے اکثر ممالک میں خطر ناک اسلحہ اور صحت کو نقصان پہنچانے والی اشیا کی دستیابی ہو جاتی ہے جس سے نہ صرف معاشرتی برائیاں بلکہ انسانی صحت بھی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں ڈر اور خوف کی فضا پروان چڑھتی ہے ۔ شراب، افیون، چرس، ہیروئین جیسی معفر اشیا صحت کو تباہ و برباد کرتی ہے اور معاشرے سے اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اخلاقی طور پر ملک بے شمار برائیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور ملک خطر ناک برائیوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔
بین الاقوامی معاشی حالات میں اُتار چڑھاؤ
بین الاقوامی تجارت کے باعث تمام ممالک تجارتی و اقتصادی لحاظ سے ایک اکائی کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اس لیے جب بھی تجارتی چکر ( Trade Cycle) سرد بازاری کی لپیٹ میں آتے ہیں تو پوری دنیا کے ممالک اس سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ عالمی بحران ساری معیشتوں کو پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ایک محطے کے معاشی حالات متاثر ہوتے ہیں تو دوسرے خطوں کی معیشتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ یعنی جب تیل پیدا کرنے والے ممالک میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو تمام ممالک میں تیل کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیںاور افراط زر معیشتوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ قیمتیں بڑھ جانے سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور معیار زندگی پست ہو جاتا ہے۔
سیاسی طلبہ
بعض اوقات چھوٹی معیشتیں بین الاقوامی تجارت کے باعث اپنی سیاسی آزادی بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ کیونکہ تجارت کرنے والے ں اور بڑے ممالک چھوٹے ممالک کی سیاسی صورت حال سے فائدہ اُٹھا کر ان پر قابض ہو جاتے ہیں اور ان ممالک کے قیمتی وسائل اپنے ملک میں منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے خطرناک ارادوں کی تکمیل کے لیے سیاسی طور پر من مانی کرتے ہیں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ لوگوں سے جینے کان چھین لیے ہیں جیساکہ برصغیر میں اگر یہ تجارت کے بہانے داخل ہوا اور پھر 9 سال کے لیے برصغیر کے عوام کو اپنا قوم بنائے رکھا۔ اسی طرح آجکل عراق، افغانستان اور کشمیرمیں بسنے والے باشندوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ سیاسی غلبہ کی زندہ مثال ہے۔ ہیں تاکہ غریب اقوام ان کے اشاروں پر چلیں، اس لیے دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں ان مندیوں پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں دور حاضر میں ترقی یافتہ ممالک دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کو اپنی اشیا اور تجارتی مال فروخت کرنے کی منڈیاں بنانا چاہتے ابت اور خود مختاری کی جنگ شروع ہو جاتی ہے اور پھر کی سالوں تک ان مالک کوجنگی میدانوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے جس سے غریب ممالک کے پیداواری و مسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔ بھوک اور افلاس ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بین الاقوامی تجارت فائدہ پہنچانے کی بجائے وبال جان بن جاتی ہے۔
بین الاقوامی تجارت کا کلاسیکی نظریہ
پی منظر
بین الاقوامی تجارت کے کلاسیکی نظریے کی بنیاد آدم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو نے بھی اس سلسے میں آدم سمتھ نے کلی برتری کا نظریہ پیش کیاجبکہ ڈیوڈ ریکارڈو نے اپنے خیالات کا اظہار قابل مصارف کے اصول پر کیا۔ دونوں نظریات کی بنیاد اشیا کی پیداوار میں تخصیص کار حاصل کرتا ہے تا کہ کم قومی وسائل اور افراد کی مہارت استعمال کر کے کم لاگت پر کثیر مقدار میں اشیا تیارکی اکیں،اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ فاضل پیداوار کو برآمد کر کے منافع کمایا جا سکے۔ ایسی اشیا جن میں وسائل کی قلت کے بافت تخصیص کا ممکن نہ ہوانہیں ایسے ممالک سے درآمد کر لیا جائے جہاں یہ اشیا تخصیص کار کے تحت پیدا کی جاتی ہوں ۔ اس طرح تخصیص کار کے اصول پر کی جانے والی درآمدات اور برآمدات کا انتخاب نہ صرف تجارت میں شریک ممالک کی قومی پیداوار میں تنوع کا باعث بنتا ہے بیک ان ممالک کو خاطر خواہ منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔ ڈیوڈ ریکارڈو نے تخصیص کار کے اصول کی ضرورت اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مختف مالک کے تخصیص کار کا عمل بین الاقوامی سطح پر محنت کی عدم نقل پذیری اور محنت کی قدر میں فرق کی وجہ سے عمل میں لایا جاتا ہے کیونکہ ایک ملک کے اندر تو مزدوروں کی نقل پذیری پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی اس لیے ان کی محنت کی قدر اور شرح اجرت میں یکسانیت پائی جاتی ے لیکن مختلف ممالک میں نقل و حرکت پر پابندیوں کی صورت میں شرح اجرت اور محن کی قدر مختلف ہوتی ہے جس کی وجہ سے تخصیص کار یداواری مراحل میں عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ اشیاستی پیدا کر کے تجارت کے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ آدم سمتھ اور ڈیوڈریکارڈو نے اپنے نظریات کی وضاحت کے لیے درج ذیل مفروضات قائم کیے۔ تجارت میں شریک ممالک کے درمیان مکمل مقابلہ کی فضا پائی جاتی ہے۔ صحت اور سرمایہ ایک ملک کی حدود کے اندر تو حرکت پذیر ہیں لیکن بین الاقومی سطح پرعدم نقل پذیری ہے۔ تمام مزدوروں کی پیداواری صلاحیتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ تجارت میں شریک ممالک میں کمل روز گار پایا جاتا ہے۔ تجارتی ممالک کے درمیان تجارت آزادانہ ہوتی ہے۔ تجارت اور تخصیص کار کے لیے دو ممالک اور دوائیا زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ تجارتی اشیا کی نقل حمل کے اخراجات تجارت کو تاثر نہیں کرتے اورنہ ہی بین الاقوامی تجارت پر کوئی پابندی عائد ہوتی ہے۔ اشیا کی پیداوار قانون یکسانی حاصل کے تابع ہوتی ہے۔ ہر ملک کی اپنی اپنی کرنسی ہے لیکن شرح تبادلہ میں فرق پایا جاتا ہے۔ مصارف پیدائش کے لحاظ سے کلاسیکی نظریہ بین الاقوامی تجارت کے کلاسیکی نظریہ کو مصارف پیدائش کے لحاظ سے دو صورتوں میں پر کھا جاتا ہے۔
گلی برتری
کلاسیکی مکتب فکر کے بانی آدم سمتھ نے اپنے تجارتی نظریہ کی بنیاد کلی برتری پر رکھی۔ جس کے تحت دو ممالک کے درمیان تجارت اس لیے فائدہ مند ہوتی ہے کہ تجارت میں شریک دونوں ممالک کو اپنی شے کی پیداوار میں کلی برتری حاصل ہوتی ہے مثال کے طور پر اگر پاکستان ستا چاول پیدا کرے اور بھارت چینی ارزاں قیمتوں پر تیار کرلے تو دونوں ملکوں کو اپنی اشیا کی پیدائش میں گلی برتری حاصل ہو گی۔ نو اس لیے پاکستان چینی بھارت سے درآمد کرلے گا اور بھارت چاول پاکستان سے منگوا لے گا جیسا کہ درج ذیل گوشوارہ سے ظاہر ہے۔
نظریہ تقابلی برتری یا تقابلی مصارف
تقابلی برتری یا تقابلی مصارف کا نظریہ ڈیوڈ ریکارڈو نے پیش کیا۔ اس نظریہ کے مطابق تجارت میں شریک دونوں ممالک میں سے اگر ایک ملک دوسرے ملک کے مقابلے میں دونوں اشیاستی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر بھی اُسے دونوں تیار نہیں کرنی چاہیں بلکہ اسے دونوں اشیا میں سے اس لئے کو پیدا کرنا چاہیے جس سے اُسے نسبتا زیادہ فائدہ ہو۔ یعنی تقابلی برتری زیادہ حاصل ہو چونکہ دوسر ا ملک پہلے ملک کی نسبت دونوں اشیا جنگی تیار کرتا ہے اس لیے اسے کم مصارف پیدائش اٹھنے والی شے پیدا کرنی چاہیے یعنی جس پر تقابلی کمتری کم ہو۔ اس طرح دونوں ممالک آپس میں تجارت کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ریکارڈو نے نظر یہ تقابلی مصارف کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں کی ہے۔ اگر کسی ملک میں دو اشیا پیدا کرنے کے مصارف کم ہوں اور دوسرے ملک میں ان دونوں اشیا کو پیدا کرنے کے مصارف زیادہ ہوں تو پہلا ملک دوشے پیدا کرے جس میں اُسے تقابلی برتری زیادہ حاصل ہو اور دوسرا ملک کم کمتری والی شے پیدا کرے۔ تقابلی نظریہ کو معاشی اصطلاح میں بیان کرنے سے پہلے ہم ایک عام فہم مثال سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ تقابلی نظریہ کو مجھنے کے لیے ایک مصروف ماہر ڈاکٹر کی مثال لے لیجئے جو مریضوں کی تشخیص تو خود کرتا ہے لیکن مریضوں کو تشخیص شدہ ت زیادہ بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔ لیکن اس کے اوریات دینے کے لیے ملازم رکھ لیتا ہے حالانکہ ڈاکٹر یہ دونوں کا با وجود خود صرف مریضوں کی تشخیص کرتا ہے اور ادویات دینے کے لیے ملازم رکھ لیتا ہے کیونکہ ڈاکٹر جانتا ہے کہ جو وقت وہ مریضوں کی تشخیص پر صرف کرتا ہے وہ زیادہ آمدن کا ذریعہ ہے اگر وہ اپنے وقت میں سے آدھا وقت کم آمدن والے کام یعنی ادویات تیار کرنے میں صرف کر دیگا تو نقصان ہوگا۔ لہذا ڈاکٹر کو مریضوں کی تشخیص میں تقابلی برتری زیاد ہ حاصل ہے اس لیے ملازم کو تنخو ا دینے کے باوجود ڈاکٹر کو مالی فائدہ رہتا ہے۔ اس نظریہ کی وضاحت ایک فرضی مثال سے کی جاسکتی ہے
۔ فرض کریں پاکستان محنت کی ایک اکائی سے 8 کو پھل چینی یا 12 کو مکمل چاول پیدا کر سکتا ہے اور بھارت اتنی ہی محنت سے 10 کو عمل چینی یا20 کو مشکل چاول پیدا کر سکتا ہے۔ گویا بھارت دونوں اشیا پاکستان کے مقابلہ میں زیادہ ستی پیدا کر سکتا ہے۔ اس گوشوارہ کے مطابق پاکستان میں چینی اور چاول کے درمیان لاگت کی نسبت 1:1.5 ہے۔ یعنی جتنی لاگت سے ایک کو عمل چینی پیدا ہوتی ہے اتنی ہی لاگت سے 1.5 کو مکمل چاول پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ بھارت میں چینی اور چاول کے درمیان لاگت کی نسبت 2:1 ہے یعنی جتنی لاگت سے ایک کو تعمل چینی پیدا ہوتی ہے اتنی ہی لاگت سے 2 کو مکمل چاول پیدا ہوتے ہیں۔ جب کہ پاکستان ایک کو شامل چینی چھوڑ کر اس کے بدلے میں 1.5 کو مکمل چاول پیدا کر سکتا ہے۔ درج بالا بحث کو ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کو حمل چینی چھوڑ کر بدلے میں 1.5 کو پھل چاول پیدا کیے جا سکتے ہیں جبکہ بھارت میں ایک کو پنل چینی کے بدلے میں 2 کو نکل چاول پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔ اس طرح پاکستان کے مقابلے میں بھارت چاول سنتے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے بھارت نظر یہ تقابلی کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے چاول کی پیداوار میں خصیص کار حاصل کرے گا۔ اس طرح پاکستان یک کو سال چینی کے بدلے میں 1.5 کو پھل چاول پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ بھارت 2 کو عمل چاول کے بلے میں ایک کو ل میں پیدا کرسکتا ہے لہذا پاکستان و بھارت کےمقابلے میں چینی کی پیداوار میںکم تقابلی متری حاصل ہے۔ یں پا رہا ہے لیکن بارات میں چاول پاکستان کے مقابلے میں سنتے پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان چاول اور چینی دونوں بھارت کے مقابلے میں مہنگی پیدا کرتا ہے۔ یعنی پاکستان کو دونوں اشیا کی پیدائش میں کمتری حاصل ہے۔ لیکن پاکستان کو چاول کے مقابلے میں چینی کی پیداوار میں کم نقصان اس اور کی گا۔اس دونوں ہے اس لیے پاکستان اس نظریہ کی روس چینی کی پیداوار میں تخصیص کار حاصل کرے گا۔ اس طرح دونوں ممالک نظر یہ تقابلی مصارف یا لاگت کی رو سے تجارت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
بین الاقوامی تجارت سے فائدہ
اب دیکھنا یہ ہے کہ تقابلی مصارف کے نظریہ کے تحت تجارت سے کیا فائدہ ہوگا ۔ اس مقصد کے لیے ہم ذیل میں دو گوشوارے بناتے ہیں۔ ایک گوشوارہ میں بین الاقوامی تجارت نہ ہونے کی صورت میں دونوں ممالک میں ہونے والی کل پیداوار بیان کی جائیگی اور دوسرے میں تجارت ہونے کی صورت میں دونوں ممالک میں ہونے والی کل پیداوار کا اندازہ لگایا جائے گا۔ پاکستان محنت کی دوا کائیاں لگا کر حاصل کرتا ہے: کو نقل بھارت محنت کی دوا کائیاں لگا کر حاصل کرتا ہے
قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔