بین الاقوامی تجارت کا کلاسیکی نظریہ

پس منظر

بین الاقوامی تجارت کا کلاسیکی نظریہ بین الاقوامی تجارت کے کلاسیکی نظریے کی بنیاد آدم سمتھ =اور ڈیوڈ ریکارڈ و نے کبھی اس سلسلے میں آدم سمتھ نے کلی برتری  کا نظریہ پیش کیا جبکہ ڈیوڈ ریکارڈو نے اپنے خیالات کا اظہار تقابلی مصارف  کے اصول پر کیا۔ دونوں نظریات کی بنیاد اشیا کی پیداوار میں تخصیص کار  حاصل کرتا ہے تا کہ کم قومی وسائل اور افراد کی مہارت استعمال کر کے کم لاگت پر کثیر مقدار میں اشیا تیار کی جاسکیں، اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ فاضل پیداوار کو برآمد کر کے منافع کمایا جاسکے۔ ایسی اشیا جن میں وسائل کی قلت کے باعث تخصیص کار ممکن نہ ہوا نہیں ایسے ممالک سے درآمد کر لیا جائے جہاں یہ اشیا تخصیص کار کے تحت پیدا کی جاتی ہوں۔ اس طرح تخصیص کار کے اصول پر کی جانے والی درآمدات اور برآمدات کا انتخاب نہ صرف تجارت میں شریک ممالک کی قومی پیداوار میں تنوع کا باعث بنتا ہے بلکہ ان ممالک کو خاطر خواہ منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔ ڈیوڈریکارڈو نے تخصیص کار کے اصول کی ضرورت اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک کے تخصیص کار کا عمل بین الاقوامی سطح پر محنت کی عدم نقل پذیری اور محنت کی قدر میں فرق کی وجہ سے عمل میں لایا جاتا ہے کیونکہ ایک ملک کے اندر تو مزدوروں کی نقل پذیری پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی اس لیے ان کی محنت کی قدر اور شرح اجرت میں یکسانیت پائی جاتی ہے لیکن مختلف ممالک میں نقل و حرکت پر پابندیوں کی صورت میں شرح اُجرت اور محنت کی قدر مختلف ہوتی ہے جس کی وجہ سے تخصیص کار پیداواری مراحل میں عمل میں لایا جاتا ہے تا کہ اشیاستی پیدا کر کے تجارت کے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ آدم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو نے اپنے نظریات کی وضاحت کے لیے درج ذیل مفروضات قائم کیے۔ تجارت میں شریک ممالک کے درمیان مکمل مقابلہ کی فضا پائی جاتی ہے۔ i محنت اور سرمایہ ایک ملک کی حدود کے اندر تو حرکت پذیر ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر عدم نقل پذیری ہے۔ تمام مزدوروں کی پیداواری صلاحیتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ تجارت میں شریک ممالک میں مکمل روزگار پایا جاتا ہے۔ تجارتی ممالک کے درمیان تجارت آزادانہ ہوتی ہے۔ تجارت اور تخصیص کار کے لیے دو ممالک اور دوا شیا زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ تجارتی اشیا کی نقل حمل کے اخراجات تجارت کو متاثر نہیں کرتے اور نہ ہی بین الاقوامی تجارت پر کوئی پابندی عائد ہوتی ہے۔  اشیا کی پیداوار قانون یکسانی حاصل کے تابع ہوتی ہے۔ ہر ملک کی اپنی اپنی کرنسی ہے لیکن شرح تبادلہ میں فرق پایا جاتا ہے۔ _ix

مصارف پیدائش کے لحاظ سے کلاسیکی نظریہ

بین الاقوامی تجارت کے کلاسیکی نظریہ کو مصارف پیدائش کے لحاظ سے دو صورتوں میں پر کھا جاتا ہے۔

گلی برتری 

تقابلی برتری یا تقابلی مصارف

گلی برتری

کلاسیکی مکتب فکر کے بانی آدم سمتھ نے اپنے تجارتی نظریہ کی بنیاد کلی برتری پر رکھی ۔ جس کے تحت دو ممالک کے درمیان تجارت اس لیے فائدہ مند ہوتی ہے کہ تجارت میں شریک دونوں ممالک کو اپنی شے کی پیداوار میں کلی برتری حاصل ہوتی ہے مثال کے طور پر اگر پاکستان ستا چاول پیدا کرے اور بھارت چینی ارزاں قیمتوں پر تیار کرلے تو دونوں ملکوں کو اپنی اشیا کی پیدائش میں گلی برتری حاصل ہوگی۔ اس لیے پاکستان چینی بھارت سے درآمد کر لے گا اور بھارت چاول پاکستان سے منگوا لے گا جیسا کہ درج ذیل گوشوارہ سے ظاہر ہے۔ گوشوارے سے واضح ہے کہ پاکستان کو چاول کی پیداوار میں بھارت پر کلی برتری حاصل ہے اور بھارت کو چینی کی پیداوار میں پاکستان پر کلی برتری حاصل ہے۔ تخصیص کار کے تحت اشیا پیدا کرنے اور تجارت کرنے سے دونوں ملکوں کی پیداواری صلاحیت درج ذیل ہوگی

گلی برتری

نظریہ تقابلی برتری یا تقابلی مصارف

تقابلی برتری یا تقابلی مصارف کا نظریہ ڈیوڈ ریکارڈو نے پیش کیا۔ اس نظریہ کے مطابق تجارت میں شریک دونوں ممالک میں سے اگر ایک ملک دوسرے ملک کے مقابلے میں دونوں اشیاستی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر بھی اُسے دونوں تیار نہیں کرنی چاہیں بلکہ اسے دونوں اشیا میں سے اس شے کو پیدا کرنا چاہیے جس سے اُسے نسبتا زیادہ فائدہ ہو۔ یعنی تقابل برتری زیادہ حاصل ہو چونکہ دوسرا ملک پہلے ملک کی نسبت دونوں اشیا مہنگی تیار کرتا ہے اس لیے اُسے کم مصارف پیدائش اُٹھنے والی شے پیدا کرنی چاہیے یعنی جس پر تقابلی کمتری کم ہو۔ اس طرح دونوں ممالک آپس میں تجارت کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ریکارڈو نے نظر یہ تقابلی مصارف کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں کی ہے۔ اگر کسی ملک میں دو اشیا پیدا کرنے کے مصارف کم ہوں اور دوسرے ملک میں ان دونوں اشیا کو پیدا کرنے کے مصارف زیادہ ہوں تو پہلا ملک وہ شے پیدا کرے جس میں اُسے تقابلی برتری زیادہ حاصل ہو اور دوسرا ملک کم کمتری والی شے پیدا کرے ۔“ تقابلی نظریہ کو معاشی اصطلاح میں بیان کرنے سے پہلے ہم ایک عام فہم مثال سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ تقابلی نظریہ کوسمجھنے کے لیے ایک مصروف ماہر ڈاکٹر کی مثال لے لیجئے جو مریضوں کی تشخیص تو خود کرتا ہے لیکن مریضوں کو تشخیص شدہ ادویات دینے کے لیے ملازم رکھ لیتا ہے حالانکہ ڈاکٹر یہ دونوں کام ملازم کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خود صرف مریضوں کی تشخیص کرتا ہے اور ادویات دینے کے لیے ملازم رکھ لیتا ہے کیونکہ ڈاکٹر جانتا ہے کہ جو وقت وہ مریضوں کی تشخیص پر صرف کرتا ہے وہ زیادہ آمدن کا ذریعہ ہے اگر وہ اپنے وقت میں سے آدھا وقت کم آمدن والے کام یعنی ادویات تیار کرنے میں صرف کر دیگا تو نقصان ہوگا۔ لہذا ڈاکٹرکو مریضوں کی تشخیص میں تقابلی برتری زیادہ حاصل ہے اس لیے ملازم کو خواہ دینے کے باوجود ڈاکٹر کو مال فائدہ رہتا ہے۔ اس نظریہ کی وضاحت ایک فرضی مثال سے کی جاسکتی ہے ۔ فرض کریں پاکستان محنت کی ایک اکائی سے 8 کو عمل چینی یا 12 کو نقل چاول پیدا کر سکتا ہے اور بھارت اتنی ہی محنت سے 10 کو نقل چینی یا 20 کو نقل چاول پیدا کر سکتا ہے۔ گو یا بھارت دونوں اشیا پاکستان کے مقابلہ میں زیادہ سستی پیدا کر سکتا ہے۔ اس گوشوارہ کے مطابق پاکستان میں چینی اور چاول کے درمیان لاگت کی نسبت 1:1.5 ہے۔ یعنی جتنی لاگت سے ایک کو معل چینی پیدا ہوتی ہے اتنی ہی لاگت سے 1.5 کو پنل چاول پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ بھارت میں چینی اور چاول کے درمیان لاگت کی نسبت 2:1 ہے یعنی جتنی لاگت سے ایک کو مشتمل چینی پیدا ہوتی ہے اتنی ہی لاگت سے 2 کو مکمل چاول پیدا ہوتے ہیں۔ جب کہ پاکستان ایک کو محل چین چھوڑ کر اس کے بدلے میں 1.5 کو شٹل چاول پیدا کر سکتا ہے۔ درج بالا بحث کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کو مشکل چینی چھوڑ کر بدلے میں 1.5 کو نقل چاول پیدا کیے جا سکتے ہیں جبکہ بھارت میں ایک کو مشتمل چینی کے بدلے میں 2 کو منتقل چاول پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے مقابلے میں بھارت چاول ستے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے بھارت نظر یہ تقابلی کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے چاول کی پیداوار میں خصیص کار حاصل کرے گا۔ اس طرح پاکستان ایک کو نقل چینی کے بدلے میں 1.5 کو شٹل چاول پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ بھارت 2 کو مکمل چاول کے بدلے میں ایک کو عمل چینی پیدا کر سکتا ہے لہذا پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں چینی کی پیداوار میں کم تقابلی کمتری حاصل ہے۔ درج بالا مثال سے ثابت ہے کہ اگر چہ بھارت چاول اور چینی دونوں پاکستان کے مقابلے میں سستی پیدا کرتا ہے۔ لیکن بھارت میں چاول پاکستان کے مقابلے میں ستے پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان چاول اور چینی دونوں بھارت کے مقابلے میں مہنگی پیدا کرتا ہے۔ یعنی پاکستان کو دونوں اشیا کی پیدائش میں کمتری حاصل ہے۔ لیکن پاکستان کو چاول کے مقابلے میں چینی کی پیداوار میں کم نقصان ہے اس لیے پاکستان اس نظریہ کی رو سے چینی کی پیداوار میں تخصیص کار حاصل کرے گا۔ اس طرح دونوں ممالک نظریہ تقابلی مصارف یا لاگت کی رو سے تجارت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

نظریہ تقابلی برتری یا تقابلی مصارف

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو بین الاقوامی تجارت کا کلاسیکی نظریہ  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

رسد

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment