تجارت کی ارتقائی منازل ⇐ چونکہ انسان قدرت کی تخلیق کا شاہکار اور مظہر فطرت ہے لہذا خدائے ذوالجلال نے اس کے لئے و حیوانی زندگی سے باہر قدم رکھنے کے اسباب پیدا فرمادیئے وہ انسان جو اصولوں کی قید و بند کا عادی نہ تھا۔ حیوانی قوتوں کے تابع تھا۔ نفسانی خواہشات کا پتلا بن کر حیوانوں سے بھی بدتر طریق پر زندگی بسر کر رہا تھا۔ وہ طرز معاشرت کے اصولوں پر کار بند ہونے لگا۔ رشتہ ازدواج کے قوانین و ضوابط اپنائیے اور نیک و بد عناصر کو سمجنے لگا۔ اس کے ماحول کی یہ خوشگوار تبدیلی کسی بہت بڑے انقلاب کا پیشہ خیمہ تھی۔ خرقہ شرافت پہن کر کرہ ارض پر اشرف المخلوقات کے خطاب سے متعارف ہونے والا تھا۔ ابھی اس کی ضروریات محدود تھیں جیسا کہ کہا جاتا ہے ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اس لئے اس کے مشاغل بھی محدود تھے زیادہ سے زیادہ گھر میں ماں بچوں کی دیکھ بھال کرتی جبکہ باپ جوان لڑکوں کی مدد سے جانوروں کے شکار کرنے کے ہتھیار بناتے اور شکار کرتے ۔ تجارت کے ارتقاء کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس دور کو خود کفالتی دور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ تمدنی ارتقاء کی پہلی منزل تھی۔ کیونکہ تمدن و تجارت کا آپس میں بہت پرانا تعلق ہے۔ اس دور میں انسانی ضروریات محدود ہی نہیں تھیں بلکہ
دور اول خود کفالتی کا دور
ان کی تسکین حد درجہ آسان تھی۔ درختوں کے پھل ، شکار کئے ہوئے جانوروں کا گوشت اور آرام و سکون کے لئے غار میں زندگی گزارنے کو ایک اعلی معیار سمجھ جاتا تھا۔ رائج الوقت ضروریات پیدا کرنے میں ایک انسان دوسرے انسان کا دست نگر نہ تھا اور نہ ہی اشیاء کے تبادلہ کی ضرورت پیش آتی۔
دور دوم مویشیوں کی افزائش اور غذائی اشیاء کی فراہمی
انسان میں زندگی گزارنے کا شعور پیدا ہو چکا تھا۔ آبادی بھی بڑھ رہی تھی۔ قبیلوں کا قیام بھی وجود میں آچکا تھا اور انسان کی واقفیت کا دائرہ بھی وسیع ہورہا تھا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ ایسے وسائل کا سراغ لگایا جائے جو زندگی کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔ اس وقت سطح زمین ہی ایک ایسا وسیلہ تھا جو انسان کی احتیاج کی تسکین کی ذمہ داری اٹھا سکتا تھا۔ محدود پیمانے پر انسان نے کا شتکاری کی طرف توجہ دی لیکن اس دور میں انسان کی زیادہ توجہ مویشی پالنے پر مرکوز تھی۔ چونکہ انسان کی طبیعت پہلے ہی جنگلوں میں بے مقصد چلنے پھرنے کی طرف لگی ہوئی تھی لہذا مویشی پالنا چرا گا ہیں معلوم گا ہیں کرنا اس کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ جنگلی جانوروں کے شکار کے علاوہ گھریلو جانوروں کا گوشت اور ان کا دودھ خوراک کی کمی کو پورا کرنے لگا۔ والدین کو بچوں کے ساتھ محبت وانس کی نشو و نما ہونے لگی لہذا وہ اپنی اولاد کے لئے اپنی موت کے بعد کچھ ذخیرہ چھوڑنے کے اصول اپنانے لگے۔ اس دور میں مویشی بھی انسان کا اثاثہ اور دولت سمجھے جانے لگے۔ ورثہ کے طور پر یہی مویشی اولاد کو منتقل ہو جاتے تھے۔ چونکہ انسان نے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو مجھ لیا تھا۔ لہذا نجی جائیداد اور وراثت کا سلسلہ قائم ہو گیا۔ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے صرف دو لوازمات مویشی اور اشیائے خوردنی قرار پائے ۔ لیکن ضرورت کے لحاظ سے ان میں کمی بیشی ہوتی رہی اور مویشی کے بدلے اشیائے خوردنی یا اشیائے خوردنی کے بدلے مویشی دینے اور لینے کا سلسلہ جاری ہوا اس سلسلے کا رواج لا محدود وقت تک رہا اگرچہ اشیاء کا یہ تبادلہ بہت ہی محدود تھا۔
دور سوم کھیتی باڑی اور دفاعی سرگرمیاں
آہستہ آہستہ خاندان قبیلوں میں بدلے اور پھر قبیلوں کے روابط بڑھے ان کی واقفیت کا دائرہ وسیع ہوا تو انہوں نے پیدائش دولت کے طریقوں کی طرف مزید توجہ دی۔ مویشی پالنے اور غلہ اگانے میں بھی پیش قدمی کی کئی مختلف قسم کے مویشی اور مختلف قسم کے غلہ کی کاشت ہونے لگی۔ عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا۔ کھیتی باڑی کے لئے آلات پر توجہ دی گئی ۔ بیداری شعور اور پیدائش دولت کے ساتھ ساتھ انسان اپنی طاقت اور حرص کا بھی مظاہرہ کرنے لگا۔ قوت حیوانیہ غالب آگئی اور ہر طاقتور انسان نے کمزور انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانا اور اس کی جائیداد اور بیوی بچوں کو چھینا اپنا شعار بنالیا۔ اس دور میں ہمیں دفاع کا ایک نیا باب نظر آتا ہے۔ عورتوں نے کھیتی باڑی کے کام کی طرف توجہ دی اور مردوں نے بال بچوں اور جائیداد کے تحفظ کے لئے دفاعی سرگرمیوں کی طرف توجہ دینا شروع کی ۔ اس کش مکش کی وجہ سے ترقی کی رفتار رک گئی۔ اشیاء کے باقاعدہ تبادلہ کا تو رواج نہ تھا لہذا اگر کوئی شخص کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتا تو دوسرے سے زبردستی چھین لیتا۔ طاقتور آدمی کو کمزور آدمی پر ہاتھ اٹھانے کا موقع ملتا تو وہ اس سے گریز نہ کرتا آج کل کے متمدن انسان کو دیکھا جائے تو حرص اس کو چین نہیں لینے دیتی۔ اپنے سے کمزور کو نیچا دکھانے کے لئے تلا ہوا ہے بلکہ بسا اوقات وہ بین الاقوامی پابندیوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔
دور چہارم مختلف پیشوں کا ظہور
تیسرے دور تک انسان قبیلوں تک اپنے آپ کو منظم کر چکا تھا۔ قبیلے بڑھتے بڑھتے چھوٹی چھوٹی بستیوں کی شکل اختیار کر گئے بستی میں کچھ کچھ اتحاد کی فضا پیدا ہوئی اب حملہ آور کے لئے ممکن نہیں تھا کہ پہلے کی طرح حملہ کرنے کی دیدہ دلیری سے کام لے۔ بستیوں کی زیر کاشت زمین میں بھی اضافہ ہونے لگا زندگی میں چہل پہل نظر آنے لگی۔ قبیلوں کی بجائے اب بستیاں ایک دوسرے سے خائف تھیں دفاعی انتظامات بھی مضبوط تر ہوتے گئے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہر شخص حملہ کرنے کی بجائے سوچ سمجھ سے کام لینے لگا۔ جب بستیوں کے درمیان صلح و آشتی کی فضا سازگار نظر آنے لگی تو الگ تھلگ رہنے والے انسانوں نے ایک دوسر ب آنا شروع کیا۔ اشیاء کے تبادلہ کے لئے افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوئی ۔ چھوٹی چھوٹی منڈیاں وجود میں آئیں۔ مویشی پالنے اور غلہ اگانے میں زیادہ ترقی ہوتی گئی۔ قسم قسم کے جانور پالے جانے لگے۔ بڑے بڑے رقبوں پر کاشتکاری شروع ہوگئی ۔ وہی چھوٹی چھوٹی بستیاں گاؤں کی شکل اختیار کر گئیں ۔ اس باہمی میل ملاپ سے انسان خدا وند تعالیٰ کی طرف سے ودیعت شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے لگا۔ اپنے مخصوص رجحان کے پیش نظر مختلف پیشے اختیار کرنے لگا۔ بڑھتی، لوہار، کے نظر بیٹے اختیار معمار، اور سنار وغیرہ کے پیشے معرض وجود میں آئے۔ چمکیلی دھاتوں اور چمکیلے پتھروں کی خوشنمائی عورتوں کی جاذب نظر بنی انہوں نے زیورات کی شکل میں ان کو استعمال کرنا شروع کیا۔ چونکہ ہر شخص ہر کام میں ماہر نہیں نے میں ان کیا۔ ہر ماہر تھا لہذا اپنے اپنے پسندیدہ پیشے میں مہارت حاصل کی ۔ کہیں کا شہکار نظر آتے تھے، کہیں صنعت کار اور کہیں دستکار، دستکار اپنی خود ساختہ اشیاء سے اور کاشتکار اپنی اشیاء سے تبادلہ کرنے لگے۔
براہ راست تبادلے کا دور
یہاں سے انسان کے ذہن میں ذاتی جائیداد کا تصور پیدا ہوا جس جگہ وہ مسلسل قیام کر رہا تھا اس کو اپنی مستقل جگہ مجھنے لگا۔ ملکیت کا یہ جذ بہ زیادہ پیدائش دولت کی طرف رہنمائی کرتا رہا۔ اشیاء کے مبادلہ کا یہ سلسلہ کسی مشترک قدر کے ذریعے نہیں ہوتا تھا بلکہ کپڑے کے بدلے زیور اور زیور کے بدلے جنس ۔ اس طرح تبادلے کا طریقہ رائج ہوا۔ ایک بھو کا انسان اس بات پر مجبور تھا کہ وہ بہت بڑی قدر کا کپڑا دے کر غذا کے چند تھے حاصل کرے۔ اشیاء کے اس طرح کے جادے کو براہ راست تبادلہ کہتے ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “تجارت کی ارتقائی منازل“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ