ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان معاشی

ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان معاشیترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان معاشی تفاوت بڑھتا جا رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی فرق کو ہر جگہ ہر کوئی محسوس کر رہا ہے۔ اس حقیقت کی تائید کے لئے اعداد وشمار کا سہارا لیا جانا چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہر طرح کے ملکوں کے بارے میں ماضی بعید کی معاشی حالت کی نشائد ہی کرنے والے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں ۔ اعداد وشمار کی مد سے مسائل پر غور و خوض کرتے اور حقائق کا اعتبار کرنے کا طریقہ 1930ء کے لگ بھگ شروع ہوا۔ جب تک سو یا دو سو سال کے اعداد و شمار حاصل نہ ہوں ، یہ کہنا شکل معلوم ہوتا ہے کہ آپ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ مکوں کے درمیان معاشی تفاوت بڑھ رہا ہے یا نہیں؟ البتہ کہیں کہیں ایسی بھر پور کوشش کی گئی ہے کہ جس کے ذریعے سابقہ 100 یا 110 سال کے اعدادو شمار بڑی جد و جہد سے حاصل کئے گئے ہیں اور ان کی روشنی میں کسی ملک کی سالانہ شرح ترقی کا اندازہ لگایا گیا۔ ان چند مخصوص کوششوں میں ایک کوشش محترمہ ایریز  نے جمائیکا نامی ملک کے بارے میں انجام دی ۔ انہوں نے 1870 ء سے 1890ء پھر 1890ء ے 1910ء پر 1910 ء سے 1930ء کے ہیں میں سالہ عرصے کے اعداد و شمار بذریعہ سروے اکٹھے کئے اور مطالعہ کے بعد اس امر کا اعتبار کیا کہ جمائیکا میں 1870 ء سے اب تک سالانہ شرح ترقی صرف 0.2 رہی ۔ ایک اور ماہر معاشیات جناب ایسادی نے مصر کے بارے میں 1880ء سے 1930ء کے عرصے کے اعداد و شمار اکٹھے کئے اور تجزیہ کرنے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان پایا جانے والا معاشی بعد پھیل رہا ہے بحث کیجئے۔ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مصر میں ترقی کی شرح %0.5 سالا نہ رہی۔

ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان معاشی

مشاہدات

ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں معاشی رخت کا اندازہ مندرجہ ذیل حقائق سے لگایا جاسکتا ہے۔

دنیا کی آبادی

دنیا کی ساڑھے پانچ ارب آبادی میں سے تقریبا ایک چوتھائی لوگ ایسے ممالک میں آباد ہیں جو گھر، آسائشیں، کھانے پینے کی وافر مقدار اور محنت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس کے برعکس تقریبا تین چوتھائی سے زائد آبادی ایسے ممالک میں آباد ہے جہاں بیشتر لوگوں کو رہائش اور خوراک میسر نہیں ان کی صحت بھی اچھی نہیں اور نا خواندہ ہیں۔

آمدنی کا معیار

ایسے ممالک جن میں فی کس حقیقی آمدنی امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور مغربی یورپ کے دیگر ممالک اور مغربی کے مقابلے میں بہت پست ہو ان ممالک کو کم ترقی پذیر ممالک کہتے ہیں۔ ان ممالک کی فی کس آمدنی ترقی یافتہ ممالک کی فی کس آمدنی کے ایک چوتھائی سے بھی پست ہے۔

معاشی تفاوت

جہاں تک معاشی رخنہ کا تعلق ہے تو یہ بات ایک سروے کے مطابق اور حقیقی مطالعے سے ظاہر ہوتی ہے کہ صنعتی اور غیر صنعتی ملکوں کے درمیان اقتصادی بعد پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی پیداوار

ترقی یافتہ دی تقریبا ڈھائی گنا بڑھی مگر یہ آبادی بوجھ بنے کی بجائے فائدہ مند ثابت ہوئی۔ چونکہ ان ممالکہ دار میں اس مدت کے دوران 20 گنا اضافہ ہوا، اس لئے ان ممالک میں فی کس آمدنی گھٹنے کی بجائے بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس ترقی پذیر ممالک کی آبادی تو ڈھائی گنا ضرور ہوئی مگر آمدنی یا پیداوار میں بہت کم اضافہ ہو گا۔ جس کے سب فی کس آمدنی کے عیار میں اس قدر معمولی اضافہ اور کس سے نظر انداز ہی کیا جاسکتا ہے۔

صنعتی ترقی کی وجہ

ایک سروے کے مطابق یہ بات بھی مشہد میں آئ ہے کہ سنتی ملک کی ترقی کی اصل وجہ ان کا سرمایہ آہستہ رفتار سے گردش کر رہاتھا اور مشینوں کا استعمال ممکن نہیں ہو سکا تھا۔

مستقبل میں امکانات

صنعتوں اور مشینوں پر انحصار کرتا ہے۔ مگر غیر صنعتی دنیا تھی اس لئے ترقی کی نعتوں سے ہمکنار نہ ہوسکی کہ یہاں وقت بہت مستقل میں امکان ہے ایک سروے کے تخیلی خالو کے ذریعے یہ ان کی روشنی ہے کہ مرد صورت حال کی موجودی میں مالی بالی نظام تحت اور الیہ شرح تری کے ساتھ ستی اور فہرست ممالک کے درمیان پہلے ہوے کالوں کام کرنا انتالی شکل یک امن ہے ۔

اقتصادی حربہ

 سروے کے مد جب الاتفاق کے ہی نظر میں پہنچا دیا ہے کہ یا کم عمل کے ذریعے اور اس مال کا پر امتی کے ار غیرمستی ھوں میں پاے جانے والا فرق ہوتا جاتا ہے کہ عام حالات اور وقت اس خلا کو پانے میں مر دین سے ملیں گے۔

تفاوت کا حجم

دونوں طرح کے ملکوں کے درمیان موجود اقتصادی رخنہ کو بھرنے کیلئے اقتصادی اقدامات اس لئے ناکام ثابت ہونے کا خدشہ ہے کہ موجودہ دور میں دونوں طرح کے ملکوں کے درمیان کل آمدنی او فی کس آمدنی کا فرق بہت زیادہ ہے۔ اگر ایسے حالات میں ایک بند شرح ترقی کا ہدف بھی مر کر لیا جاے تو بھی اقصادی فاصلے کم ہونے کا امکان مسدود ہے ۔

 وضاحت بذریعہ مثال

فرض کریں الف اور اب دو ملک ہیں ۔ الف کمک صنعتی طورپر ترقی یافتہ ہے اور اب ملک صنعتی میدان میں پسماندہ ہے۔ الف لک کی موجو دل کی آمدنی 10 ار ہے اور ملک کی فی کس آمدنی 120 ار ہے اگر ہم یا ایک خلاف حقیقت سالانه را ترقی کا مرض بھی قائم کرلیں بنی ال جیسا ترقی یافتہ مک 24 کی شرح سے اور “آب” جیسا پسماندہ ملک 106 کی شرح سے ترقی کرے تو بھی مستقبل میں دونوں کا اقتصادی رفتہ بڑھتا چلا جائے گا۔ ایک سال بعد صورت حال یہ ہوگی ۔ “الف ” ملک 26 کی شرح کے ساتھ اپنی فی کس آمدنی میں 180 ال کا اضافہ کرلے گا اور اب ملک 10 سالانہ شرح ترقی کے باوجود اپی فی کس آمدنی میں صرف 20 ارکا اضافہ کرنے کےقائل ہوگا۔ اس طرح موجود ہر تحریر کیا جائے گا۔ اگلے سال اللہ ملک کی فی کس آمدنی 4080 الر اور سب ملک کی فی کس آمدنی 220 الر ہوگی۔ سابقہ سال دونوں ملکوں میں اقتصادی رخہ کی جسامت (4000-200)-3800 الرتھی جو اس سال جھ کر (4080-220) 13860 ائر ہوگئی۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان معاشی"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment