ترقی پذیر معیشت کے مسائل ⇐ پروفیسرز کے کے مطابق غیر ترقی یافتہ ممالک سے مراد وہ ممالک ہیں جن کی آبادی اور قدرتی وسائل کے مقابلہ میں سرمایہ کی کمی ہو ۔ بعض دوسر ماہرین معیشت کے مطابق اگر کسی ملک میں کام کرنے والے لوگوں کا پچاس فی صد حصہ زراعت، ماہی گیری اور جنگلات انحصار کرے تو ایسی معیشت غیر ترقی یافتہ معیشت ہوتی ہے۔ غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر معیشتوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سے چند ایک اہم مسائل حسب ذیل ہیں۔
پست فی کس آمدنی
ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کو غربت کا سامنا ہوتا ہے۔ فی کس آمدنی کا پست معیار ان کی غربت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تعل وصحت کی سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے۔ بچتوں کی شرح کم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے تشکیل سرمایہ بھی نہیں ہو پاتی ۔ یوں ہے کا ہوتا ہے غربت و افلاس کا چکر ایسی معیشت کا مقدر بنا رہتا ہے اور یہ معیشتیں افلاس کے اس منحوس چکر سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتی رہتی ہیں۔
بیرونی قرضوں کا بوجھ
غیر ترقی یافتہ معیشت میں بچتوں اور سرمایہ کی کمی ہوتی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لئے ان ممالک کو بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان ممالک جوں جوں بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ اسی طرح بیرونی قرضوں پر ادا کیا جانے والا سود بھی بڑھتا جاتا ہے اور مصارف قرضہ بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس خسارہ کو پورا کرنے کے لیے یہ ممالک مزید قرضہ لیتے ہیں اور یوں ایک ایسے منحوس چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں سے نکلنا وقت گزرنے کے ساتھ دشوار ہوتا جاتا ہے اور یوں معیشت مزید تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔
آبادی میں تیزاضافہ
ترقی پذیر ممالک میں آبادی میں اضافہ کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان ممالک کو بے روزگاری ، بھوک غربت وافلاس، فی کس قوم آمدنی میں کی اور صحت و تعلیم کی سہولتوں کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وسائل کا غیر پیداواری استعمال
ترقی پذیر معیشتیں زیادہ تر اشیائے صرف پیدا کرتی ہیں اور ان کی درآمدات بھی زیادہ تر ایسی ہی اشیا پر مشتمل ہوتی ہیں جن کے توی آمدنی میں خاط خواہ اضافہ نہیں ہو پاتا اور وسائل کا رخ صنعتی اشیا کی طرف نہیں مڑتا ۔ جس کی وجہ سے معیشت ترقی نہیں کر پاتی۔
سرمایہ کی قلت
فی کس آمدنی کم ہونے کی وجہ سے ترقی پذیر معیشت میں بچتوں کی شرح کم ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ سرمایہ کی قلت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس لئے قرضوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔
زراعت پر دار و مدار
بیشتر ترقی پذیر ممالک کی معیشت کا دارو مدار زراعت پر ہوتا ہے ۔ جبکہ زرعی مشینری کا کم استعمال کیڑے مارادہ یات کا فقدان اور دیگر معیاری زر مداخل کی عدم دستیابی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پاتا۔
قدرتی وسائل سے کم استفادہ
بہت سے ترقی پذیر ممالک میں قدرتی وسائل کی بہتات ہونے کے باوجود اُن سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جاتا۔ اول تو بے شمار قدرتی وسائل تک رسائی ہی نہیں کی جاتی اور اگر رسائی کر لی جائے تو ان سے صنعتی اشیا پیدا کرنے کی بجائے خام صورت میں بر آمد کردیا جاتا ہے۔ جس سے زرمبادلہ کی صورت میں ملنے والی رقم بہت کم ہوتی ہے اور معیشت کی ترقی میں کوئی مرد نہیں ملتی ۔
انسانی وسائل کی کم استعداد
ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کے افراد کے بارے میں ایک عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ یہ لوگ ست د کابل اور ذہنی و جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بہتر تعلیم و تربیت اور فنی صلاحیتوں ، بہتر سہولتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے علم کی وجہ سے زیادہ مستعد اور اہل ہوتے ہیں۔
محدود کی منڈی
بهتر ذرائع آمدورفت، سل ورسائل کی کمی اور عوام کی پست قوت خرید کی وجہ سے اشیا و خدمات کی طلب کم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ رسد میں خاطر خواہ اضافہ کرنا بھی بعض اوقات فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔
توازن تجارت میں خسارہ
ترقی پذیر معیشتوں میں زیادہ تر خام مال اور بنیادی زرعی اشیا پیدا کی جاتی ہیں اور دوسرے ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں جن سے بہت ہی کم زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بہت کی ضروریات زندگی اور دیگر اشیا کی درآمد کی وجہ سےان ممالک کا توازن تجارت نا موافق رہتا ہے۔
ناموافق توازن ادائیگی
ہیں۔ پسماندہ ممالک کا توازن ادائیگی عموما نا موافق رہتا ہے۔ اس کی وجوہات میں توازن تجارت کا ناموافق ہونا ، خام مال کا مناسب قیوں پر نہ مانا، درآمدی اشیا خدمات کا مہنگا ہوتا اور ان کی قیتوں میں مسلسل اضافہ ہوتے چلے جاتا ہے۔ اس طرح معارف قرضہ میں اور مسلسل اضافہ ان ممالک کے توازن ادائیگی میں خسارہ کا باعث بنتا ہے اور یہ معیشتیں اس منحوس چکر کا شکار بنی رہتی ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ذرائع نقل وصل ترقی پذیر ممالک میں سڑکوں ، ریل اور دیگر ذرائع نقل و حمل کے پسماندہ اور ست رفتار ہونے کی وجہ سے اشیا کی منڈیوں تک رسله بر وقت نہیں ہو پاتی اور اچھی قیمت نہیں ملتی جس کی وجہ سے منڈی وسعت پذیر نہیں ہوتی ۔ اس وجہ سے پیداوار میں بھی مناسب حد تک اضافہ نہیں ہو پاتا۔
ہنر مند افراد کی بیرون ملک منتقلی
ترقی پذیر معیشتوں سے ماہرین کی دوسرے ممالک منتقلی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اول تو ان ممالک میں ماہرین ملتے نہیں اور اگر ہوں تو سہولتوں کی عدم دستیابی یا کمی کی وجہ سے بہتر سے بہتر ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اس طرح قابل ترین طلبہ جو کہ دوسرے ممالک میں تعلیم و ہنر سکھنے جاتے ہیں اور اکثر اوقات اپنے ممالک میں واپس نہیں آتے اور اگر مجبورا آنا پڑے تو دوسرے ممالک میں منتقل ہونے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔ اس وجہ سے پسماندہ ممالک میں ہنر مند افراد کی کمی رہتی ہے۔
ٹیکنالوجی کی کمی اور پسماندگی
تمام پسماندہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اشیا کے پیداواری مصارف کا زیادہ ہوتا ، اجرتوں کا کم ہوتا ۔ سرمایہ کی کمی، غیر ہنر مند افرادی قوت اور وسائل کا غیر معیاری استعمال ہے۔
جذبہ حب الوطنی کا فقدان
پسماندہ ممالک میں حکومتی باگ ڈور زیادہ تر جاگیرداروں اور مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ ان کی طرف سے کی گئی منصوبہ بندی اور معاشی پالیسیوں کے پس پردہ بھی ذاتی اور گروہی مفادات ہوتے ہیں۔ اس لئے معیشت تو مجموعی طور پر ترقی نہیں کر پاتی البتہ یہ لوگ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور وسائل کا مجموعی رخ ان چند افراد کی طرف رہتا ہے۔