جنوبی ایشیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال

جنوبی ایشیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال ⇐ جنوبی ایشیا کے ممالک کے دساتیر میں انسانی حقوق کی جو ضمانت دی گئی ہے اور ان ممالک میں انسانی حقوق کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال

 بھارت

بھارت دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ یہاں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکمرانی کی اور اپنی بے مثال تہذیب و ثقافت کے عظیم الشان نقوش ثبت کئے ۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت پاکستان سے سات گنا بڑ املک ہے جہاں 83 فیصد ہندو اور 11 فیصد مسلمان رہتے ہیں ۔

شہریوں کیلئے انصاف

بھارت کا آئین 26 جنوری 1950 سے رائج ہے ۔ اس کی تمہید (تمہینہ)میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بھارت کے عوام تمام شہریوں کیلئے انصاف، مساوات اور اخوت پر مبنی معاشرہ قائم کریں گے ۔

بنیادی حقوق

آئین کے تیسرے باب میں شہریوں کے حقوق کا بیان ہے جنہیں بنیادی حقوق کا نام دیا گیا ہے اور وہ قانون کے مطابق قابل نفاذ ہیں۔

ہندوؤں میں اونچ نیچ کا تصور صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

ہندوؤں کی قو میں

ہندوؤں کی اونی قو میں ( شودر بھنگی’ چمار  وغیرہ ) اچھوت خیال کی جاتی ہیں یعنی ان کے ہاتھوں کا چھوا ہوا کھانا اور پانی اونچی ذات کے ہندو استعمال نہیں کرتے  اس سلسلے میں 1955  ء سے قانونا اچھوت بن (اچھوت)  کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

طبقوں کی معاشی

ہر شہری کیلئے تحریر و تقریر اور پریس کی آزادی ہے ۔ وہ ملک کے کسی بھی علاقے کی طرف سفر کر سکتا ہے اور رہائش اختیار کر سکتا ہے اور جائز نوعیت کا کوئی بھی کاروبار کر سکتا ہے اور قانونی طور پر چودہ سال سے کم عمر کا کوئی بچہ نوکری نہیں کر سکتا۔ آئین کا مقصد تمام طبقوں کی معاشی سماجی اور تعلیمی صورتحال کو سدھارنا اور اسے فروغ دینا ہے۔

طبقوں کی معاشی

بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال

بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال آئین اور

قانون سے قطعی مختلف ہے۔

بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور

اسے اپنے سیکولر ہونے پر بہت فخر ہے

جس کے مطابق ہر شہری اپنی پسند کا مذہب اختیار کر سکتا ہے

 عملاً اس کی خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں ۔

وقتا فوقتا فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے رہتے ہیں

جن کی لپیٹ میں آکر اکثر مسلمان شہید ہو جاتے ہیں۔

بابری مسجد

 بابری مسجد کے بارے میں حکومت نے مسلمانوں سے جو سلوک روا رکھا ہے اس نے نام نہاد مذہبی آزادی کا پول کھول دیا ہے ۔ مسجد بابری پر یلغار کرنے والوں اور اسے بے دردی سے مسمار کرنے والوں کو جان بوجھ کر روکا نہیں گیا۔

لیڈر

سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ بال ٹھاکرے جیسے متعصب لیڈر آج بھی مسلمانوں کیخلاف زہرا گلنے سے باز نہیں آتے ۔

امتیازی سلوک کا شکار

اگر چہ بھارت میں اچھوت پن کو نا جائز اور قابل سزا قرار دیا گیا ہے لیکن اونچی ذات کے ہندوؤں نے آج تک قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کم تر ذات کے ہندو آج بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ سماج میں آج بھی دو اتنے ہی قابل نفرین میں جتنے صدیوں پہلے تھے۔

اقلیتی فرقوں

اس طرح اقلیتی فرقوں اور ایسے طبقوں کو جو کم تر وسائل رکھتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے چونکہ ان کی نمائندگی اعلی سطح پر نہیں ہو پاتی اس لئے یہ لوگ دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری قرار پاتے ہیں اور نہایت کسمپرسی میں زندگی میں گزارتے ہیں۔

اقلیتی فرقوں

انسانی حقوق کو تحفظ

انسانی حقوق کو تحفظ دینے والے تمام تر قوانین کے باوجود ہندومت کے رکھوالے اپنی ہٹ دھرمی اور تنگ نظری کے باعث اقلیتی فرقوں خصوصا مسلمانوں، سکھوں’ بنگالیوں اور آسام کے باشندوں کو آج تک  مطمئن نہیں کر پائے۔

 مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی یا مالی 

ہندوستانی آئین کی شق نمبر 370 میں ریاست جموں وکشمیر کو مکمل خود اختیاری کا درجہ دیا گیا ہے ۔ یوں بھارتی حکومت کشمیر کے اندرونی مسائل میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔

آئینی ضمانت

اس آئینی ضمانت کے باوجود بھارت کی طرف سے کشمیر میں نہ صرف ان شقوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ماورائے عدالت  قتل و غارت کا شرمناک سلسلہ جموں وکشمیر میں بڑے پیمانے پر سالہا سال سے جاری ہے۔

مقبوضہ وادی میں آزادی کا مطالبہ

مقبوضہ وادی میں آزادی کا مطالبہ کرنے والوں پر فائرنگ اورظلم و تشد د روز کا معمول ہے۔ نہتے اور بے بس قیدیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنا اور پھر ان کو صفائی کا موقع دیئے بغیر جان سے مار دینا ( جسے ماورائے عدالت قتل کہا جاتا ہے ) دھوکہ بازی اور بربریت کی انتہا ہے ۔

قومی کمیشن

زدوکوب کی شدت سے جو قیدی جیلوں میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے انڈیا کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (قومی انسانی حقوق) کمیشن کے مطابق اپریل 1996 ، اور مارچ 1997ء کے درمیان ان کی تعداد 700 سے زیادہ تھی ۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ

ایمنسٹی انٹرنیشنل               کی رو سے ہر سال بغیر کسی الزام کے یا عدالت سے رجوع کئے بغیر ہزاروں شہری دھر لئے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ بالا جواز تشدد اور غیر انسانی سلوک روا رکھنا بھارتی انتظامیہ کا معمول بن چکا ہے اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ بے شمار قیدی غالب کر دیئے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ

عدالت

او جھل یا غائب ہو جانے (غائب ہونا)کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ ماورائے عدالت قتل کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں یا پھر پولیس کے ساتھ جعلی مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔

مخصوص اختیارات

اس طرح کے قیدیوں کو تحفظ دینے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں۔ البتہ ایسے قوانین ضرور ہیں جو قیدیوں کے انسانی حقوق کی نگہداشت کرنے کی بجائے انہیں تہس نہس کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں جیسے فوجیوں کیلئے مخصوص اختیارات مسلح افواج خصوصی طاقت   اور دہشت گردی اور تفرقہ بازی کو روکنے کا دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ  ٹی اے ڈی اے                     جو کئی سال سے نافذ العمل ہیں۔

عسکری قوتوں کو بلا اشتعال

ان قوانین کے بغیر عدالتی سماعت (مقدمہ)یا عدالت سے فرد جرم عائد کئے بغیر عسکری قوتوں کو بلا اشتعال پکڑ دھکڑ اور تشد و آمیز قید و بند کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگست 1994 ء میں بھارت کے وزیر داخلہ نے خود اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال وسیع پیمانے پر مسلمانوں کیخلاف ہو رہا ہے ۔

 جیلوں کی صورتحال

جیلوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ جیلوں میں ضرورت سے کہیں زیادہ قیدی ٹھونس دیئے جاتے ہیں ۔

حفظان صحت کا ذرہ برابر خیال نہیں رکھا جاتا ۔ خوراک ناقص اور طبی امداد نا پید ۔ قیدیوں کی درجہ بندی ان کے جرائم کے اعتبار سے نہیں بلکہ سوسائٹی میں انکے مرتبہ اور مقام کے مطابق ہوتی ہے۔

پارلیمنٹ

عام جیلوں میں قیدیوں کے ازدحام کا یہ عالم ہے کہ نئی دہلی کی تہاڑ جیل کے بارے میں جس میں صرف 2457 قیدیوں کی گنجائش تھی خود بھارتی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ اس میں 8577 قیدی رکھے گئے ہیں ۔

مقدمات

ان میں سے 7505 قیدی عدالتی کارروائی کے منتظر تھے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ 1996ء کے دوران انتیس لاکھ مقدمات معرض التوا میں پڑے ہوئے تھے۔

مقدمات

 پولیس کا جبر و تشدد

جموں و کشمیر میں جہاں آزادی کی جنگ لڑی جارہی ہے آئے دن نہتے شہریوں کے گھروں پر دھاوا بول کر . عورتوں اور بچوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دینا بھارتی فوج کا وطیرہ بن چکا ہے ۔

وارنٹ

اب تک ہزاروں گھر جلائے جاچکے ہیں۔ قانون کے مطابق عام پولیس کو بغیر وارنٹ کے کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے یا اس کے گھر کی تلاشی لینے کا اختیار نہیں لیکن جموں کشمیر پنجاب اور آسام میں بغیر وارنٹ کے شہریوں کو گرفتار کرنے اور گھروں کی تلاشی لینے کا پولیس کو خصوصی اختیار حاصل ہے۔

بھارتی فوجوں کا ظلم و جبر 

کشمیر میں چار لاکھ کی نفری مشتمل فوج کو جولائی 1990ء سے نافذ العمل دو قوانین جموں اور مسلح افواج (جموں و کشمیر) اور کشمیر ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں۔

حکومت کیخلاف شورش

 وہ ان تمام مشتبہ افراد کو گولی سے اڑ اسکتے ہیں جو امن عامہ میں خلل ڈالنے “یا ” قانون توڑنے کے مرتکب سمجھے جائیں۔ اس کے علاوہ فوجی ان مقامات کو مسمار کر سکتے ہیں جہاں حکومت کیخلاف شورش یا بغاوت محسوس ہو۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوجنوبی ایشیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

…….جنوبی ایشیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال   …….

Leave a comment