ذاتی صفائی اور غذائیت

ذاتی صفائی اور غذائیت صحت کا تعلق اچھی اور صاف ستھری غذا کے علاوہ ذاتی صفائی سے بھی ہے۔ صاف ماحول سے نہ صرف جسمانی بلکہ چینی اور روحانی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے صفائی کی بہت اہمیت ہے۔ صفائی کی اہمیت کو اسلامی نقطہ نظر سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم نے کا ارشاد ہے کہ طہارت اور پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ یعنی نصف ایمان تو یہ ہے کہ آدمی روح کو پاک وصاف رکھے اور باقی ایمان یہ ہے کہ آدمی جسم اور پاکی کا خیال رکھے۔ طہارت جسمانی اور روحانی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن پاک میں آیا ہے۔ ترجمہ ” بیشک اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا اس سے ہمیں صفائی کی اہمیت افادیت کا انداز ہ ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں خلوص نیست پابندی وقت اور ادائے حقوق کی تعلیم دی وہاں وضو اور نسل کے مسائل، ناخن تراشنے بال کتروانے کے احکام لباس اور مکان کی صفائی مسواک کرنے کے فوائد بھی ذہن نشین کروائے ہیں۔ خصوصا مسواک کی اس قدر نا کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ” جو نماز مسواک کر کے پڑھی جانے دو ان ستر نمازوں سے بہتر ہے جو مسواک کے بغیر پڑھی جائیں ۔ ذاتی صفائی سے مراد و تمام احتیاطی تدابیر ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان تندرست رہ سکتا ہے۔ صاف ستھرے کپڑے پہن لینے سے صفائی کا مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ اس میں غذائیت کے ساتھ تعلق رکھنے والے جسمانی اعضاء ہاتھوں کی صفائی اور دانتوں کی صفائی شامل ہے۔ مثال کے طور پر گندے ہاتھوں سے کھانا کھایا جائے تو خوراک کی صفائی بے معنی ہو جاتی ہے۔

ذاتی صفائی اور غذائیت

دانتوں کی صفائی

دانتوں کی صفائی کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ بہت سی بیماریاں دانتوں کی گندگی سے پھیلتی ہیں جن میں معدے اور ہاضمے کی بیماریاں شامل ہیں ۔ گندے دانت خوراک کی تمام غذائیت کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اس لئے دانتوں کی صفائی کی طرف دھیان دینا چاہیے اور کھانے کے بعد دانتوں کو صاف کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ان کی درزوں میں غذا کے ذرا باقی رہ جاتے ہیں جو کہ خاص تیزابیت نیکٹیک ایسڈ (Lactic Acid) پیدا کرتے ہیں۔ یہ تیزاب دانتوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے خاص کر جب میٹھی اور نشاستہ دار (Starchy) اشیاء کھائی جائیں تو یہ تیزابیت پیدا کرتی ہیں۔ دانتوں پر اگر میں جمع رہے تو اس سے دانتوں کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں اور منہ سے ناگوار بو آنے لگتی ہے۔ اس گندگی کی وجہ سے دانتوں کی بیماریاں مثلاً کیڑا لگنا اور پائیر یا جسے مرض لاحق ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح دانتوں کے مستقل گندا رہنے سے کچھ جراثیم مستقل طور پر دانتوں کی درزوں میں رہنے لگے ہیں اور جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو یہ جراثیم خوراک میں شامل ہو کر معدے گلے کی غدودوں اور پھیپھڑوں میں جا کر شدید بیماری کا باعث بنتے ہیں ۔ دانتوں کی صفائی کیلئے لوگ مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً برش کا استعمال مسواک منجن اور ٹوتھ پاؤڈر وغیرہ۔ ہمارے دیہاتوں میں دانت صاف کرنے کیلئے مسواک اور منجن استعمال کیا جاتا ہے جبکہ شہروں میں لوگ زیادہ برش استعمال کرتے ہیں۔ برش مناسب ہونا چاہیے یعنی کہ نہ زیادہ نرم اور نہ زیادہ سخت که دو مسوڑوں کو نقصان پہنچا سکے۔ بچوں کے دانتوں کی صفائی کا خیال رکھنا ماؤں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہیں شروع ہی سے دانت صاف کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے کہ کھانے کے بعد وہ اچھی طرح کلی کریں تاکہ کھانے کے ذرات جو دانتوں میں رہ گئے ہیں نکل جائیں ۔ بچوں کے دانتوں کی اچھی حالت ان کی صحیح قسم کی خوراک پر منحصر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خوراک میں اس قسم کی چیزیں ہوں جن میں حیاتین کی حیا تین ڈین اور چونے کا نمک شامل ہوں۔ چونے کا نمک زیادہ تر انڈوں، مکھن دودھ پنیر اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے کبھی کبھی کوئی سخت چیزیں بھی کھا ئیں جیسے سیب کھانا گنا چوسنا اور بھنے ہوئے چنے کھانا وغیرہ۔ اس سے دانت مضبوط ہوتے میں اور دانتوں کی ایک طرح سے ورزش بھی ہوتی ہے۔ بچوں کو ٹافیاں اور دوسری میٹھی اشیاء مثلاً مختلف قسم کی مٹھائیاں کھانے سے روکنا چاہیے۔ ایک دانت کو کیڑا لگنے سے اس دانت میں  یعنی خلا سا بن جاتا ہے جس میں کھانے کے ذرات وغیرہ پھنس جاتے ہیں جو صاف کرنے کے باوجود اچھی طرح نہیں نکل پاتے ۔ جب کیڑا اچھی طرح سرگرم عمل  ہوتا ہے تو بہت زیادہ درد ہوتا ہے جس کو دور کرنے کیلئے گھر بیل طور پر لونگ وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔ حالانکہ اس سے وقتی طور پر آرام تو آجاتا ہے لیکن اس دانت کو بھروانے اور نکلوانے کی نوبت آتی ہے اور اس طرح سے ایک دانت سے دوسرے دانت کو کیر الگنا شروع ہو جاتا ہے۔

ہاتھ اور ناخن کی صفائی

تقریبا ہر کام ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں یہی ہاتھ کھانا کھاتے وقت ہمارے منہ میں جاتے ہیں۔ اگر ہاتھ اور ناخن گندے ہوں گے تو ان کی تمام گندگی ہمارے کھانے میں شامل ہو جائے گی جو کہ مضر صحت ہے کیونکہ اس کی گندگی میں بہت سی بیماریوں کے جراثیم چھے بیٹھے ہوتے ہیں جو معدے میں جا کر بیماریوں کا موجب بنتے ہیں اس لئے ان کی صفائی کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے اور کھانے سے پہلے ہاتھوں کو اچھی طرح سے صابن سے دھوئیں اور ناخنوں از اتے رہیں تا کہ وہ بڑھنے نہ پا ہیں۔ آج کل اکثر خواتین فیشن کے طور پر نائن بڑھالیتی ہیں اور دلائل یہ دیتی رہتی ہیں کہ وہ اپنے ناخن صاف ستھرے رکھتی ہیں۔ اگر چہ ظاہری طور پر ان کے امن صاف ہوتے ہیں لیکن مختلف قسم کے جراثیم ان کے ناخنوں میں جمع رہتے ہیں اور گھریلو کام میں بھی آنا گوندھنے اور کھانا پکانے اور سبزی وغیرہ بناتے وقت وہ جراثیم آئے اور سبزی میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے نہ صرف وہ خود پیار ہوتی ہیں بلکہ دوسروں یعنی گھر والوں کوبھی پیار کرتی ہیں۔ بعض بچوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ منہ سے ناخن کترتے رہتے ہیں جو کہ ایک بری عادت ہے۔

ذائی اشیاء کی صفائی اور اس کی اہمیت

خوراک کی صفائی سے مراد سے اس طرح صاف رکھنا کہ جس سے انسان خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔ صاف ستھری اور غذائیت سے بھر پور غذا نہ صرف جسم کی نشو نما اور حفاظت کرتی ہے بلکہ انسان کی دماغی اور روحانی پرورش کیلئے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ست مند لوگ نہ صرف وبائی بیماریوں کا زیادہ اچھی طرح مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ مر بھی نہیں پاتے ہیں ۔ ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے کام کرنے کی قوت کا انحصار بھی ہماری غذا پر ہے۔ اگر خوراک صاف نہ ہو تو اس میں ہاتھو جنگ بیکٹیر یا پیدا ہوتے ہیں جس سے کھانے میں خاص قسم کا زہر ( جے ٹوکسن کہتے ہیں ) شامل ہو جاتے ہیں جس سے معدے اور بعض اوقات دماغی امراض پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسی گندگی آلو دہ غذا میں بیکٹیر یا تیزی سے بڑھتے ہیں ۔

درجہ حرارت کا اثر

اگر کھانے کا درجہ حرارت کمرے کے درجہ حرارت کے مطابق ہو تو بیکٹیریا میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اگر خوراک کو ٹھنڈی جگہ یا فریج میں رکھا جائے تو کھانے کا درمیانی حصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے جو کہ بیکٹیریا میںاضافہ خوراک کے درمیانی حصہ سے ہوتا ہے اس لئے کم درجہ حرارت سحر محبت اور فلایت برائے ایک اے پر کھانے کا درمیانی حصہ بیکٹیریا کی زیادتی کو روکتا ہے۔

بغیر ڈھکی اشیاء

ہمارے ملک میں اکثر کھانے پینے کی چیزیں ریڑھیوں پر مل جاتی ہیں ۔ مثلا فروٹ میزی چاٹ جوس وغیرہ۔ ریزی فروش اس کا بالکل خیال نہیں رکھتے ۔ ان اشیاء کو سی کپڑے یا جائی سے نہیں ڈھانچتے جن کی وجہ سے ان پہ بے تحاشا کھیاں جنمنارہی ہوتی ہیں اور سڑک کی تمام گردان پر پڑ رہی ہوتی ہے۔ ایسی اشیاء میں جراثیم شامل ہو جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے انہیں کھانے کی بجائے الٹا نقصان اور پیار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چاٹ اور مختلف پھلوں کے جوس مثال گئے مالئے پٹھے، غیر کی ریڑھی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان پھلوں پر بہت سی کھیاں ہوتی ہیں اور برتن بھی صاف نہیں ہوتے ۔ اگر چہ جوس صحت کیلئے بہت مفید ہے لیکن صفائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ مطر صحت ثابت ہوتا ہے۔ خریداروں کو چاہیے کہ ایسے جوس کے خریدنے سے پر ہیز کریں۔ بالا سے پھل خرید کر انہیں اچھی طرح سے دھونے کے بعد انہیں اپنے کھانے میں استعمال کریں۔ ہمارے دیہاتوں میں فصل کٹنے کے بعد سال بھر کا راشن اکٹھا کر لیا جاتا ہے جیسے گندم چاول ڈالیں وغیرہ۔ ان اشیاء کو بوریوں میں رکھنے کی بجائے کسی برتن ( جیسے کہ دیہات میں مٹی کے ملکے سے بنے ہوتے ہیں ) میں رکھیں۔ بوریوں کو چوہے کتر لیتے ہیں جن سے بیماری پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ چوہوں سے پھیلنے والی بیماریوں میں تپ عرقہ کی ایک قسم کا سخت نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ بہت سے ایسے امراض جو جراثیم کے ذریعے سے پھیلتے ہیں ) جراثیم پانی ہی کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچ جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ امراض جراثیم سے آلودہ پانی پینے اور بعض اوقات صرف اس قسم کے پانی کے استعمال سے دوسرے استعمال ذاتی صفائی وغیرہ  کی وجہ سے پھیل جاتے ہیں۔ پانی کے مند اور جرایم سے آلود ہونے کی مختلف وجوہات ہیں : تالاب میں پاخانہ یا پیشاب کر دینے سے جراثیم پانی میں داخل ہو جاتے ہیں. اگر پیٹنے کے کنویں کے نزدیک سے کوئی کر بیت الخلاء واقع ہو۔ ایسے تالاب جہاں مویشی نہاتے پانی پیتے اور انسان کپڑے وغیرہ دھوتے ہیں۔ بغیر صاف کئے کنویں کا پانی پینے کے استعمال میں لانے سے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "ذاتی صفائی اور غذائیت"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment