رشتہ داروں کے حقوق ⇐ ہمارا مذ ہب میں رشتہ داروں سے حسن سلوک کا درس دیتا ہے یعنی بھلائی اور نرمی کا رویہ رشتہ داروں کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (البقرہ : 83)
شریعت
مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے قرابت داروں سے نیکی اور بھلائی سے پیش آئے خواہ اس کا رشتہ دار اس سے بےرخی بر تے ۔ شریعت نے میت کے مال متروکہ میں اس کے رشتہ داروں کو وراثت کا حق دیا ہے۔
قطع تعلق
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضورﷺ ان کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں تو وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں۔
حسن سلوک
میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں تو وہ مجھ بد سلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہوں تو وہ مجھ سے جہالت سے پیش آتے ہیں ۔ اس پر آپ کا کلام نے فرمایا اگر تم ایسا ہی کرتے ہو جیسا تم نے کہا تو انہیں گرم ریت پر پھینکا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہمیشہ اللہ کی جانب سے ایک مدد گار ہے۔ جب تک کہ تم اس سعادت پر قائم رہو گے ۔
ہمسائے کے حقوق
انسان جس جگہ زندگی گزارتا ہے وہاں ساتھ رہنے والے پڑوسی یا ہمسائے کہلاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ” جو اچھی چیز پکاؤ وہ ہمسائے کے گھر ضرور بھیجا کرو۔“
پڑوسی سے اچھے برتاؤ
ہمسایوں کو رشتہ داروں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں کیونکہ خوشی اور غمی کے مواقع پر جب عزیزوں رشتہ داروں کو دیر سے خبر ملتی ہے پڑوسی ساتھ ہونے کے سبب پہلے شامل ہوتے ہیں اسی لئے اسلام نے پڑوسی سے اچھے برتاؤ کی بڑی تاکید کی ہے۔
آنحضورﷺ کا فرمان ہے
” مجھے جبرائیل نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کی اتنی تاکید کی کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں ہمسائے کو وراثت کا حق نہیں دیا جار ہا ۔ ( بخاری )۔
مومن
ہمارا مذہب پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ آنحضور کی عالم کا قول ہے خدا کی قسم وہ مومن نہیں ۔ آپ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔ صحابہ کے پوچھنے پر فرمایا وہ شخص مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں ۔ ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فر مایا وہ شخص مومن نہیں جس کا پڑوسی بھوکا سوئے اور وہ پیٹ بھر کر سوئے۔
ہمسائیوں کے حقوق کے بارے میں ایک نہایت جامع حدیث ہے۔
اگر پڑوسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرو قرض مانگے یا محتاج ہو جائے تو مالی مدد کرو بیمار ہو تو علاج کراؤ اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ قبرستان جاؤ اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو اور مصیبت میں مبتلا ہو تو اس سے ہمدردی کرو۔ بلا اجازت اتنی اونچی دیوار نہ کرو کہ اس کی روشنی اور ہوا رک جائے ۔ کوئی میوہ لاؤ تواس کو بھی بھیجو۔
ضرورت مندوں اور غریبوں کے حقوق
ضرورت مند اور غریب بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ۔ اسلام ان کی مدد کرنے پر زور دیتا ہے ہم اپنے صدقہ وخیرات کے علاوہ زکوۃ کے ذریعہ ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔ کسی محتاج یا ضرورت مند کو جھڑ کنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے اوراس کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
خدا کی راہ میں خرچ
جو لوگ دوسروں کی مدد نہیں کرتے اور اپنے مال کو ذخیرہ کرتے ہیں ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔ اور جو لوگ ؟ اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دوں (التوبہ 34-35)
جنگی قیدیوں کے حقوق
اسلامی قانون کے تحت مسلمان جنگی قیدیوں کو رہائی دلانے کیلئے سرکاری خزانے سے رقم ادا کی جانی چاہیے۔ حضور ﷺ کے دور میں دشمن کے جنگی قیدیوں کے سلسلے میں یہ اصول کیا گیا کہ جنگی قیدیوں کو قتل کرنے کی بجائے ان سے فدیہ لے کر یا پھر مسلمان قیدیوں کے بدلے ان کو رہا کیا جائے گا۔
تعلیم سے آراستہ
اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں جنگی قیدیوں کے ساتھ برا سلوک کیا گیا ہو ۔ جنگ بدر میں گرفتار ہونے والوں سے حضور ﷺ نے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت فرمائی۔ عورتوں اور بچوں کی گرفتاری کی صورت میں بچے کو ماں کے ساتھ رکھ جاتا تھا حضور ﷺ نے بدر کے جنگی قیدیوں کیلے یہ فدیہ تجویز کیا کہ وہ ایک ایک مسلمان بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کردیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
بیماروں اور معذوروں کے حقوق
اسلام ایک جامع مذہب ہے اور معاشرتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے متعلق احکامات ہمیں دین نے نہ سکھائے ہوں ۔ اسی لئے ہمارا مذہب ہمیں بیماروں کی مزاج پرسی سکھاتا ہے۔ ایک حدیث پاک میں کہا گیا ہے۔
معذوری کے سبب
تم بیمار کی مزاج پرسی کرنے کیلئے جتنے قدم چل کر جاؤ گے تمہیں اتنے قدموں کا ثواب ملے گا۔ معذور افراد بھی ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ اپنی معذوری کے سبب بعض اوقات وہ خود کو دوسروں کے مقابلے میں کمتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔
معاشرے میں افراد کا رویہ
معاشرے میں افراد کا رویہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ان کو یہ احساس نہ ہو کہ ان پر رحم یا ترس کھایا جا رہا ہے بلکہ ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کو ایسے کام سونپے جاسکتے ہیں جن کی انجام دہی کے سلسلہ میں ان کی معذوری رکاوٹ نہ بنے۔
مزدوروں کے حقوق
معاشرے میں طبقاتی تقسیم اس طرح سے ہے کہ چند لوگ بے حد امیر ہیں جبکہ دوسرے بہت غریب ہیں جو محنت مشقت کر کے گزر اوقات کرتے ہیں۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے محنتی اور جفاکش لوگوں کو حقارت سے دیکھنا خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔
معاوضہ
ہمارا مذہب ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ ایسے افراد کو ان کی محنت کا جائز معاوضہ ادا کیا جانا چاہیے اور ان کے ساتھ سختی کا سلوک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو ۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم محنت کش کو اس کا معاوضہ وقت پر ادا کریں تا کہ اسے معاشی تنگدستی کے سبب پریشانی نہ اٹھانا پڑے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “رشتہ داروں کے حقوق“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻 مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
…….رشتہ داروں کے حقوق …….