زر

زر” انسانی تاریخ سے ظاہر ہے کہ ابتدا میں انسان جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا۔ جنگلی جانوروں کے گوشت اور سبزیوں سے اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ کھال اور درختوں کے چوں سے اپنے جسم ڈھانپتا تھا ۔ تعداد میں کم ہونے کے باعث ان کی ضروریات بھی محدود نوعیت کی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ، ضروریات زندگی بڑھنے لگیں اور زندگی گزارنے کے طور طریقے مہذب ہونے لگے۔ انسان نے جنگلوں اور غاروں سے نکل کر قصبوں اور شہروں کا رخ کیا اور قبیلوں کی صورت میں زندگی بسر کرنا شروع کر دی۔

ایسے میں اسے ضروریات زندگی کے حصول میں کئی مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ اُسے رہنے کے لیے چھت، جسم ڈھانپنے کے لیے لباس بھوک مٹانے کے لیے خوراک وغیرہ کی ضرورت تھی اور ان اشیا کے حصول کیلئے اسے دوسرے لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ انسانی تمدن کے اولین دور میں نہ تو زر موجود تھا اور نہ ہی کوئی ایسی شے دستیاب تھی جو کہ اشیا کے لین دین میں سب کو قابل قبول ہو اور لوگ اپنی ضروریات زندگی کی اشیا خدمات اس شے کے بدلے حاصل کر سکیں ۔ چنانچہ مختلف وقتوں میں مختلف اشیا کو بطور زر استعمال کیا گیا۔ جس میں جانور، کھالیں ، تیر، غلہ ہیپ، پتھر، کوڑیاں اور مختلف دھاتیں قابل ذکر ہیں لیکن ان سب میں کوئی نہ کوئی نقص پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے یہ اشیا آلہ تبادلہ کی حیثیت حاصل نہ کر سکیں۔ دور حاضر کے انسان کی معاشیات کے حوالے سے سب سے بڑی ایجاد زر ہے۔ زر یا کی ایجاد سے اشیا کے بدلے اشیا کا تبادلہ کرنے میں انسان کو جن مشکلات یا پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ان پر نہ صرف قابو پالیا گیا بلکہ معاشی نظام کو نکھارنے اور ترقی دینے میں زر نے اہم کردار ادا کیا ۔ اسی لیے زر آج ہر معیشت کیلئے ناگزیر ہے اور اس کے بغیر کوئی معیشت اپنے معاشی فرائض سر انجام نہیں دے سکتی۔

زر

زر

براہ راست تبادلہ کا نظام ( Barter System)

تاریخ سے ثابت ہے کہ انسان کا ابتدائی معاشی اور سادہ مگر پسماندگی کاشکار تھا۔ لوگوں کی ضروریات محدود تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انسان مہذب اور باشعور ہوتا چلا گیا۔ اب اس نے با مقصد اور صاف ستھری زندگی گزارنے کے لیے لامحدود ضروریات کی تکمیل کے لیے مختلف شعبے بطور پیشہ اختیار کرنے شروع کر دیئے اور اپنی ضروریات کے حصول کے لیے دوسروں پر انحصار کی ضرورت کو ترویج دینا شروع کر دیا۔ یعنی اپنی ضروریات کی تسکین کے لیے دیگر کاروباری شعبوں سے اپنی اشیا کا تبادلہ شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر ایک کا شکار اپنی زرعی اجناس کے بدلے ضرورت کی اشیا مثلاً جوتے ، کپڑے، بھیڑ بکریاں، تیر کمان، کھال وغیرہ دوسرے شعبوں سے متعلق لوگوں سے کے اس حاصل کر لیتا تھا علم معاشیات میں انسانی لین دین کے اس عمل کو تبادلہ اشیا کے نظام کار (Barter System) کا نام دیا جاتا ہے۔ یادر ہے شروع میں انسان کے پاس زریا بطور زر استعمال میں آنے والی کوئی ایسی ے موجود نہ تھی جس کے بدلے اشیا حاصل کی جاسکتیں اس لیے اشیا کے بدلے اشیا کے تبادلے کے نظام کو فروغ دیا گیا۔

پروفیسری کے مطابق 

براہ راست تبادل کا نظام ایسی معیشت کو ظاہر کرتا ہے جس میں کوئی شے قبولیت عامہ کی حمیت نہ رکھتی ہو اور اشیا سے تبادلہ کیا لندا ساد و الفاظ میں برا اور است تبادل کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے: بر اور است تبادلہ کے تحت اشیا کا تبادلہ براور است اشیا کے ساتھ کیا جاتا ہے اور زرک استعمال نہیں کیا جاتا ہے؟

براہ راست تبادلہ کے تحت اشیا کے لین دین کا یہ طریقہ کار ہزاروں سال تک رائج رہا۔ آج بھی ترقی پذیر ممالک کے کئی پسماندہ یہ قصبوں اور دیہاتوں میں لوگ اس نظام کے تحت اشیا کا تبادلہ کر کے اپنی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ تبادلہ کے اس نظام میں معاشی نظام کے پھیلاؤ کی وجہ سے کئی مشکلات در پیش آئیں جن کے باعث براہ راست تبادلہ کا نظام اپنی اہمیت کھو بیٹھا اور زوال پذیر ہو کر بالآخر ختم ہو گیا۔

براہ راست تبادلہ کے نظام کی مشکلات (Difficulties of Barter System)

براہ راست تبادلہ کے نظام کی درج ذیل مشکلات ہیں 

Lack of Double Coincidence of Wants ضروریات کی دو طرفہ مطابقت کا فقدان

ضروریات کی دوطرفہ مطابقت کا فقدان براہ راست تبادلہ کے نظام کی سب سے بڑی خامی تھی۔ کیونکہ اس نظام کے تحت ہر ضرورت مند کو ایسا شخص تلاش کرنا پڑتا تھا جو اس کی شے کے عوض اپنی شے دینے پر تیار ہو۔ یعنی اگر الف شخص کے پاس گندم ہے اور وہ گندم کے عوض کپڑا حاصل کرنا چاہتا ہو تو الف شخص ایسا آدمی تلاش کرے جس کے پاس کپڑا بھی ہو اور وہ اسے گندم کے عوض دینے پر تیار بھی ہو۔ لیکن الف شخص کو ایسا آدمی تلاش کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ الف شخص کو ایسا آدمی تو مل جائے جس کے پاس کپڑا موجود ہو لیکن وہ گندم کے عوض دینے کو تیار نہ ہو یا پھر ایسا آدمی مل جائے جس کو گندم کی ضرورت ہو لیکن اس کے پاس دینے کیلئے کپڑے کی بجائے کوئی اور شے موجود ہو۔ لہذا تبادلے کی دو طرفہ مطابقت بمشکل ہی ممکن ہوتی تھی ۔ اس لیے افراد کے لیے ضروریات کی ہ تھی۔ لیے کے کی دو طرفہ مطابقت کا نہ ہونا اس نظام کی ناکامی کا باعث بنا۔

Lack of Common Measure of Value مشترک پیانہ قدر کا فقدان

انہ سے براہ راست تبادلہ کے نظام میں اشیا کی نسبی مالیت کو جانچنے کا کوئی پیانہ موجود نہ تھا جس سے یہ تعین ہو سکے کہ کسی شے کے بدلے دوسری شے کی کتنی مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہاں اگر خوش قسمتی یا اتفاقی طور پر دوایسے افراد کا ملاپ ہو بھی جاتا جن کی ضروریات میں باہم مطابقت موجود ہوتی تو ھر دقت پیش آتی تھی کہ ایک شخص کی شے کی کتنی مقدار کے عوض دوسرے شخص کی شے کی کتنی مقدار کا تبادلہ کیا جائے۔ کے عوض بدلنا چاہتا ہو۔ فرض کریں کہ گندم کے خواہشمند کو ایسا شخص مل مال کےطور پر مر کی ان کے پاس 10 کلو چال میں اور دو نیم ائے جواپنی کنم چاولوں کےعوض بدلنے پر تیار ہوا ہے میں اگر اولوں کا مالک 10 کلو چاول کے عوض 20 کلو ندم طلب کرے لیکن گندم کا مالک 10 کلو چاول کے خوش صرف 10 کلو گندم دینے کو تیار ہو تو دو طرفہ مطابقت ہونے کے باوجود سودا طے کرنا مشکل ہو گا۔ مقدار وصول کر لیتے تھے اور دونوں میں کسی ایک کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ اسطرح براہ راست تبادلہ کا نظام مشترک پیمانہ قدر کی عدم دستیابی اور ضرورت کی شرما کے باعث مشکلات کا شکار بن کر اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔

Lack of Divisibility of تیم پذیری

3 براہ راست تبادلہ کے نظام میں بہت سی اشیاء مثلاً گائے، بکری، کرسی وغیرہ کی تقسیم پذیری ناممکن تھی۔ جس کی وجہ سے ضروریات کی دوسری اشیا مختلف افراد سے حاصل نہیں کی جاسکتیں تھیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے پاس تیر کمان تھا اور وہ اس کے بدلے گندم چاول یا دو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا تو وہ ان اشیا کو حاصل کرنے کیلئے تیر کمان کو تقسیم نہیں کر سکتا تھا۔ بسا اوقات براہ راست تبادلہ میں ایک اور استہ یہ پیش آتی تھی جس میں ضرورت مند کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے زائد قدرو مالیت کی شے قربان کرنا پڑتی تھی مثلاً اگر کسی شخص کو لینے کے لیے جو تا در کار ہوتا اور اس کے پاس جوتے حاصل کرنے کیلئے ایک گائے ہوتی تو ایسے میں وہ گائے کو ٹکڑوں میں تو تقسیم کر نہیں سکتا انات کا وجوں کے ان کا دیا ہو تھی یا پر اپنی ضرور کو چھوڑنا پڑا تھا انہ ایک کی ناقابل تیمی اسی کی صورت میں  لین دین میں خاصی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنا۔

Lack of Store of Valueذخیره قدر کافقدان

برادر است تبادلہ کے زمانے میں لوگوں کے پاس دولت گائے بھینس، بکریوں اور اشیا مثلاً پھل، سبزیوں، دودھ، مچھلی وغیرہ کی صورت میں ہوتی تھی۔ ان اشیا کی قدر کو خیرہ کرنے میں بہت سی دشواریاں درپیش تھیں ۔ کیونکہ گائے ، بھینس، بکریوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت پر کیر اخراجات اور وسیع جگہ درکار ہونے کے باعث مالک کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا تھا جبکہ گل سڑ جانے والی اشیا پھل ، پچھلی ہیں وفی وہ بھی اسی مدت کےلیے ذخیرہ کرنا تمکن تھا۔ کیونکہ ایسی سہولیات ہی میسر نہ تھیں کہ انہیں بحفاظت ذخیرہ کیا جا سکے۔ اس لیے یہ یا جلد خراب ہوجاتی تھیں۔ اس طرح ان اشیا کے مالکان کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ان حالات میں براہ راست تبادلہ کا نظام اشبا کے اخیر نہ ہونے کے پیش نظر مشکات کا شکار ہوکر اپنی حیثیت کھو بیٹھا اور نا پید ہو گیا۔

Lack of Transfer of Wealth دولت کی نقل مکانی کا فقدان

بر اور است تبادلہ کے دور میں لوگوں کے پاس دولت خصوصاً زمین اور اثاثے مویشیوں اور اشیا کی شکل میں ہوتے تھے جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے پاس دولت لگائے بھینس بیکریوں ، گھوڑے، اونٹوں ، غلے ، پھل اور سبزیوں کی صورت میں ہوتی تھی تو اسے ان اشیا کو دوسری جگہ منتقل کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پھل اور سبزیاں گل سڑ جاتی تھیں اور نقل مکانی پر بے شمار اخراجات برداشت کرنا پڑتے تھے۔ اس طرح ایسے افراد جن کو گھر فروخت کرنے کے عوض متعدد اشیا ملتی تھیں ضروری نہیں انہیں کسی دوسری جگہ ان اشیا کے بدلے گھر مل سکے۔ ان حالات میں لوگوں کو اپنی دولت یا اثاثے منتقل کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

قومی آمدنی

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو زر  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment