زرعی اصلاحات

زرعی اصلاحات پاکستان کا نظام اراضی نہایت ناقص ہے اس نے ایسے مسائل کو جنم دیا ہے کہ جس کی بناء پر زرعی اصلاحات وقت کا تقاضا بن گئی تھیں۔ بہترین نظام اراضی وہ ہے جس میں نہ تو بڑی جاگیرداریاں اور نہ ہی بیڑی زمینداریاں ہوں اور ایسی صورت بھی نہ ہو جس میں کہ چھوٹے چھوٹے کا شکار ہوں لہذا اچھا نظام اراضی وہ ہے جس میں کاشتکار خود زمین کا مالک ہو اس طرح وہ پوری جانفشانی سے کام کرے گا بروی زمینداریوں کے تحت نہ تو زمیندار زمین کی اصلاح کی طرف توجہ دیتا ہے اور نہ ہی مزارع اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ زمین کی بہتری کے لئے سرمایہ کاری کر سکے اس لئے پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک زرعی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے۔

زرعی اصلاحات

زرعی اصلاحات کا مفہوم

زرعی اصلاحات سے مرادز مین جائیداد کی از سر نو تقسیم ہے تا کہ اس سے چھوٹے کسان اور زراعتی کارکن فائدہ اٹھا سکیں اس سادہ تعریف کے علاوہ ایک اور واضح تر تعریف بھی ہے جو کہ وسیع حلقوں میں قابل قبول ہے زرعی اصلاحات سے مراد زرعی اداروں کی بہتری اور اصلاح ہے اس قسم کی تعریف پیش کرنے میں امریکی پیش پیش ہیں اس وسیع تر تعریف پیش کرنے کا مقصد اصلاحات کے متعلق یا کسی کی اصطلاح کو وسیع تر کرتا ہے اس تعریف کے تحت حکومت کا صرف یہ کام نہیں کہ زمین کی از سرنو تقسیم کی جائے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ لگان کا بندو بست کریں کاشت کاروں کی شرائط درست کرے فارم پر کام کرنے والوں کی اجرت کو درست رکھے، زرعی قرضوں کے نظام کو بہتر کرے وغیرہ۔

مختلف پہلو

زرعی اصلاحات کے تین پہلو ہیں اول تاریخی پہلو ، دوم اقتصادی پہلو اور سوئم آبادی کا پہلو۔

تاریخی پہلو

اس کے تا ہم یہ کہیں ہے کہ یا تارا میں میں کئی بار مل سکی ہے جس کے ذریعے یہ ثابت کی جا کے کہ زرعی اداروں کی از سرنو اصلاح اور تشکیل ماضی میں مالی ترقی کی شرط رکھی گئی ہے اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہیں پتہ چلے گا کہ کچھ سکوں نے ماضی میں جلد ترقی کی منزلیں ملے کہیں بہ نبت ان ملکوں کے جنہوں نے اپنے نظام اراضی ہمیں پتہ چلے گا میں جدت کے ساتھ از سر و تقلیل نیں کیا مغربی یورپ کے کچھ ملکوں نے اس وجہ سے مشرقی یورپ کے مقابلہ میں ترقی کی کہ انہوں نے جلد ہی بڑی بڑی جاگیرداریوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ زرعی اصلاحات موجودہ زمانے میں ایک اہم موٹر کی جاب چلنے کی نشاندہی کرتی ہیں ہے اس لئے اہم ہے کہ جس طرح ماضی میں یورپ میں  جاگیرداروں سے چھٹکارا حاصل کیا گیا ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں جب بہت سی حکومتیں زرعی اصلاحات کے بارے میں ایسی پالیسی ملے کرتی ہیں تو وہ کبھی بھی اپنی ماضی کی تاریخ کو نہیں بھولتیں برصغیر میں زرعی اصلاحات کا سلسلہ سامراج سے آزادی کے بعد شروع ہوا تاریخ رسائی  ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے کیا تجربات ہیں یہ ذریعہ یہ نہیں بتاتا کہ ممالک کسی طرح ترقی کر سکتے ہیں۔

معاشی پہلو

اگر ہم زرعی اصلاحات کے سلسلے میں معاشی تجزیہ کے طریقے استعمال کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ زرعی اصلاحات اور معاشی ترقی میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ زراعت کے میدان میں بھی دوسرے شعبوں کی طرح اجارہ داریاں قائم ہو گئی ہیں یہ اجارہ دار نہ صرف اپنی من مانی سے کسان سے لگان وصول کرتے ہیں بلکہ ان مزدوروں کی اجرت پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں جو کہ ان کے فارم پر کام کرتے ہیں لہذا سب سے بڑی معاشی دلیل جو کہ زرعی اصلاحات کے سلسلے میں پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی آمدنی مساوی طور پر لوگوں میں تقسیم کی جائے اور یہ آمدنی مساوی طور پر اس وقت تقسیم ہو سکتی ہے جبکہ بڑی بڑی جاگیریں اور زمینداریاں ختم کی جائیں براعظم ایشیاء میں نظام اراضی کے تحت بڑی بڑی اسٹیٹ بڑے بڑے پیداواری یونٹ نہیں ہوئے ان ممالک میں زرعی اصلاحات کے ذریعہ حقوق ملکیت زمین دار سے اس فرد کو دے دیئے جاتے ہیں جو نہ اس زمین پر کاشت کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ معاشی دلیل جوکہ زرعی اصلاحات کے حق میں دی جاتی ہے وہ یہ کہ بڑے بڑے زمیندار زیادہ آمدنی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو دوبارہ پیدائش کے عمل کے لئے سرمایہ کاری کی صورت میں استعمال نہیں ہوتی یہ بھاری بھاری آمدنیاں زمینداروں میں ایسے سماجی اور معاشرتی اطوار پیدا کر دیتی ہے جو کہ سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ کم ترقی یافتہ ملکوں میں زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں۔

آبادی کا پہلو

کم ترقی یافتہ ملکوں میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زمینداروں اور جاگیرداروں کی قوت سودا بازی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے یہ لوگ زمین کے کا شتکار سے زیادہ رقم بٹور کر لے جاتے ہیں۔ لہذا کم ترقی یافتہ ملکوں جیسے پاکستان اور ہندوستان میں آبادی کی افزائش زرعی بے چینی کو جنم دے رہی ہے جس کی وجہ سے ہر طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پچھلے 60 یا 70 سال سے زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں مختلف ممالک میں یہ مختلف طریقوں سے اپنائی گئی ہیں ہر ملک نے زرعی اصلاحات کے نفاذ اور عمل درآمد کے سلسلے میں اپنے مخصوص سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کو مد نظر رکھا ہے۔

اصلاحات نافذ کرنے کے اسباب

زمین کا بڑا رقبہ ایک چھوٹے سے مالکان کے گروپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ غیر حاضر زمینداری نظام ایک بہت بڑا مالکان کا گروپ جس کے تحت تھوڑ ا ساز مین کا رقبہ ہو جس کے نتیجہ میں غیر معاشی قطعات وجود دے میں آتے ہیں۔ کا شتکاروں کی ایک بڑی تعداد کاشت کے مشغلے میں مصروف لیکن ملکیت کے حقوق نہ رکھتی ہو۔ زمین سے حاصل ہونے والی کل پیداوار اس تناسب سے نہ بڑھ رہی ہو جس تناسب سے پیداوار بڑھانے کے لئے سے والی سے نہ بڑھا ہے اکائیاں لگائی جارہی ہوں نتیجتا ملک کو خوراک کی کمی کا مسئلہ در پیش ہو۔ ملک کا سیاسی اور سماجی ڈھانچہ ملک کی اقتصادی ترقی میں ایک رکاوٹ ہو۔ یہ تمام رکاوٹیں دور کی جاتی ہیں اگر ملک کی زراعت نے معیشت کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنا ہے یہ مقصد صرف زرعی اصلاحات کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے پاکستان کی معیشت اور نظام اراضی کے نقائص کو مد نظر رکھتے ہوئے زرعی اصلاحات سے مراد وہ تمام اقدامات لئے جائیں گے جن کا مقصد زمین کی ملکیت اور استعمال کے سلسلے میں مختلف حقوق اور ذمہ داریوں کو از سر نو ٹھیک کرتا ہے تا کہ زمین کا چند ہاتھوں میں ارتکاز نہ ہو سکے کاشتکاروں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے معاشی قطعات پیدا کئے جاسکیں اور دوسرے اقدامات کئے جاسکیں جن کے ذریعہ زرعی پیداواری قوت میں اضافہ کیا جا سکے اس کے علاوہ ان اقدامات کا مقصد کا شتکاروں کی حالت کو اداروں میں تبدیلیاں لا کر سدھارتا ہے ۔ زرعی اصلاحات کے مقاصد محض معاشی نہیں بلکہ یہ سیاسی اور سماجی مقاصد بھی رکھتی ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ لوگوں کی سماجی زندگی کو بھی بدلا جا سکتا ہے اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔

زرعی اصلاحات کے اثرات

سب سے زیادہ اچھا اثرنجی شعبہ میں سرمایہ کاری کی تشکیل پر پڑتا ہے بڑے سائز کے قطعات کسان کو فالتو پیداوار پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں وہ ا دوبارہ سرمایہ کاری کے کام پر لگا دیتا ہے اس کے علاوہ اب کا شتکار اپنے فالتو وقت کو پیداواری کاموں میں لگاتا ہے اسکے علاوہ زمین پر کم کرنے والا زیادہ تحفظ حاصل کر لیتا اور اب بڑی خوشی اور بلاخوف و خطر سرمایہ کاری کرتا ہے اس کے علاوہ اب جو محنت زیر استعمال رہتی ہے اس کا پورا استعمال ہوتا ہے اور اس طرح سے یہ سرمایہ کاری میں مدد لیتی ہے۔ نہ صرف نجی شعبہ میں سرمایہ کاری کی تشکیل میں مد دیتی ہے بلکہ ان اصلاحات کی بناء پر سرمایہ میں تشکیل سرمایہ کاعمل چل پڑتا ہے لوکل لیڈر شپ بھی نئے سرے سے پیدا ہو جاتی ہے۔ زرعی اصلاحات سے پیداوار پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے اس کی بناء پر ہر وہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جو پیداوار میں اضافہ کا باعث ہوں مثلاً کھاد کا استعمال اچھے بیج کا استعمال وغیرہ۔

دوسرے ممالک میں زرعی اصلاحات

پچھلے چالیس سالوں میں مختلف ممالک میں زرعی اصلاحات نافذ کی گئی ہیں ان اصلاحات نے مجموعی طور پر دو صورتیں اختیار کی ہیں۔

قدامت پسندا نہ زرعی اصلاحات کا طریقہ

اس طریقہ کے تحت زمینوں پر استعمال کا کام ہوا ہے زیادہ قرضوں کی مراعات اور کاشتکار اور مالکان کے درمیان تعلقات کو ٹھیک رکھنا شامل ہے۔

انقلابی طرز پر زرعی اصلاحات

اس طریقے کی اصلاحات میں زمینداروں سے فالتو فالتو ز مین ضبط کر لی گئی ہے اور اس فالتو فالتوز زمین کے عوض بعض اوقات مالکان کو معاوضہ دیا گیا ہے اور بعض اوقات بالکل نہیں فالتو زمین اس طرح سے سرکار کی طرف سے ضبط کئے جانے کے بعد کا شتکاروں میں تقسیم کر دی گئی ہے بعض ممالک میں ان دونوں طریقوں کو ملا کر اصلاحات نافذ کی گئی ہیں برما مختلف علاقوں یا ملکوں میں زرعی اصلاحات کے سلسلے میں مختلف پالیسیاں اپنائی گئی تھیں برما اور جاپان میں فالتو زمین زمینداروں سے لے کر کاشتکاروں کے حوالے کر دی گئی۔ مشرقی یورپ اور کمیونسٹ بلاک کے ملکوں میں زمینداروں کی زمین پر بلا معاوضہ قبضہ کر لیا گیا اور وہ زمین ایسے کاشتکاروں میں بانٹ دی گئی جو کہ زمین پر کاشت کرتے تھے اور ان کے پاس پہلے کوئی زمین نہ تھی۔ اس کے برعکس مغربی یورپ کے ممالک میں ذرا میانہ روی اختیار کی گئی اور قدامت پسند طریقہ استعمال کیا گیا۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "زرعی اصلاحات"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment