زر نقد کی ترجیح کا نظریہ

زر نقد کی ترجیح کا نظریہ 

زر نقد کی ترجیح کا نظریہ ⇐یہ نظریہ سہے۔ ایم ۔ کمار نے 1996 میں اپنی شرہ آفاق کتاب  میں پیش کیا۔ اس کے مطابق سود اس  معاوضہ ہے کہ قرض دینے والا پنی رقم کو قدر کی صورت میں رکھنے سے شیر دار ہو جاتا ہے۔ نقدی کی صورت میں رو پید اپنے پاس رکھنے سے لوگ اپنے مختلف مقاصد پورے کرتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن قرض دینے کی صورت میں وہ اپنی رقم کی سیال پذیری افق بہت سے دستبردار ہوتے ہیں اور اسےاپنی مرضی سے فرق نہیں کر سکتے۔ اس دستبرداری یا محرومی کے صلہ میں اور تم اصل رقم سے زائد لیتے ہیں وہ سود کہلاتا ہے ۔

زر نقد کی ترجیح کا نظریہ

شرح سود کے تعین کے لئے پہلے زر کی طلب در سد کی وضاحت درج ذیل ہے۔

زر کی طالب

زر کی دو مقدار جو لوگ اپنے پاس نقد شکل میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں زر کی طلب کہلاتی ہے۔ کمار کے مطابق زر کو فقہ رکھنے کی اری ایل وجوہات ہیں۔

روز مرہ ضروریات کی طلب

روز مر و معاملات کو طے کرنے کے لئے ہمیں صبح و شام نقد پیسے کی ضرورت رہتی ہے۔ افراد ، گھرانے اپنی روز مرہ ضروریات کے لئے بھی رقم اپنے پاس رکھتے ہیں اسے طلب در برائے لین دین بھی کہتے ہیں مثلا تھی ، گوشت بیزی ، کپڑا پھیل ، مکان کا کرایہ، بچے کی سکول میں نہیں وغیرہ ایک ملک میں محرک لین دین کے لئے مطلوبہ زر فقہ کی مقدار کا اصار وی آمدنی پر ہوتا ہے۔ اگر ملک میں سرمایہ کاری بڑھ جائے تو لوگوں کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے گھر یلو اور لین دین کے لئے زیادہ نقد رقم کی ضرورت ہوتی ہے یعنی نقد بت کی ترجیح زیادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مک میں سرمایہ کاری کی سح پست ہوتو لوگوں کی مجموع آمدنی کم ہوتی ہے جس سے تری زرند براے ضروریات بھی کم ہو جاتی ہے۔ کمار کے مطابق روز مرہ لین دین کے لئے نقد رقم کا آمدنی سے مثبت رشتہ ہے مساوات کی شکل میں ہم ہوں لکھ سکتے ہیں۔

کاروباری مراک

کاروباری مراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی آجرین اور دیگر کاروباری ادارے ملکہ رقم اپنے پاس رکھنے کو رائی دیتے ہیں خلا نام مال کی لیست جدا کرنے کے لیے، جو دوروں کو آجر نہیں اپنے کے لیے اور مشینوں کی مرمت وغیرہ کے لیے اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ کاروباری لوگ کس قدر رفتہ راقم اپنے پاس رکھیں گے اس کا اردہ اقرم کی مجموعی کاری واردات کی مقدار ہی ہوتا ہے۔

ناگہانی ضروریات کے لیے زار کی طلب 

بعض لوگ اس لئے اپنے پاس اقت رکھتے ہیں کہنا کہانی ضروریات یا غیر مواقع الفراجات کو پورا کیا جائے۔ اس قسم کے بالاجات کا تعلق پاری مادی اور بے روزگاری وغیرہ سے ہوتا ہے۔ اس لئے لوگ ان اپنا یک فرانیات کو پورا کرنے کے لئے تقر ر راپنے پاس رکھنے کو تا گیانی ضروریات کے لئے اس کی طلب بھی آمدنی کی بنیاد پر لئے ہوتی ہے اور شرح سود میں تبدیلی اس پر کوئی اثرنہیں لاتی۔

تخمینی ضروریات کی زر کی طلب

تحلیلی ضروریات کی زر کی طلب کا الحدار شرح سود پر ہوتا ہے۔ اس لیے کلی معاشیات میں ایک اہم حصار کے تجھ پکا ہے۔ لوگوں کے ہاں دولت یا لائے کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے دو اہم یا تمیں غور طلب ہوتی ہیں اخطر ہ اور زیادہ اسے وہ اہم باتیں میں اور سے زیادہ منافع کا حصول ۔ ہم سب کم سے کم خطرہ (Risk) اور زیادہ سے زیادہ منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا کیونکہ کاره بادی جهت از باده نفره بود گاری زیادہ منافع ہوتا ہے۔ کمار کے مطابق لوگ نقد زر رکھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ محفوظ ہوتا ہے۔ اگر چہ اس سے منافع حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح کم شرح سود پر چونکہ لوگوں کو خاطر خواہ منافع کی توقع نہیں ہوتی اس لئے تحمیلی زرکی طلب زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر شرح ہوں یا وہ جاے تو زرنقہ محفوظ رکھے پر ان کو اس منافع سے دستبردار ہوا پڑے گا جو دوقر ملے پر دے کر کھا سکتے ہیں۔ اس لیے زیادہ شرح سود پر زرکی خیلی طلب گر جاتی ہے۔ اسے مساوات کی صورت میں اس طرح لکھ سکتے ہیں۔

زر کی رسد

کی رسد کا تعلق درج زیل باتوں ہی ہوتا ہے۔

  • دھاتوں کی فراہی
  • زر کی رفتار گوش
  • زر کے اجر کے سلسلے میں مرکزی بینک کی پالیسی

اللہ ان کے اجرا کے سلسلے میں مرکزی تک کی پالیسی دھاتوں کی فراہمی الله در کی رفتار گردانی وہ قبل میں  وزر کے اجراء کے بارے میں مرکزی بیک کی ایسی اور میں کوئی تبدیلی نہیں انی اس لیے زر کی رسد میں رہتی ہے اور انل رسم پر خوری ہوتا ہے۔

شرح سود کا تائین

ارای توان مقام ہوا ہے ہاں شرح سود کا ہی ہو کہ کیا اب اور سہ ماہی میں ار ہو جائیں۔ قدرت کی ترویج کا نظریہ سود درج ذیل ڈائیگرام کی مدد سے واضح کیا گیا ہے۔ بھی کہتے ہیں۔  کیٹ کے اس نظریہک شرح زر کی طلب اور رسد انیگرام میں OX محور پر زر کی طلب درسید اور ور پر شرح سود لی گئی ہے۔ یہاں زر کی رسد معین ارش کی گئی ہے اس لئے زر کی رسد کا مMah مکمل طور پر اور عمودی ہے۔ فیزیکدار کی طلب M کا عاشقی ڈھلان رکھتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ شرح سود کے گرنے سے زر کی مقدار طلب ار کی رسد در طلب دونوں نقطہ 10 پر برابر ہیں۔ اسی طرح 10 کے متوازی OR شرح سود متعین ہوتی ہے۔ لیکن اگر زر کی رسد معین رتے ہوئے ان کی طلب میں اضافہ ہو جائے تو شرح سود بڑھ جاتی ہے اور زر کی طلب میں کمی سے شرح سود کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح زر کی طلب میں اگر کوئی تبدیلی نہ آئے اور زر کی رسد میں اضافہ ہو تو شرح سود گر جاتی ہے اور زر کی رسد میں کمی سے شرح سود بڑھ جاتی ہے۔

شرح سود کا تائین

کنیز کے نظریہ سود پر تنقید

بچتوں اور سرمایہ کی مقدار کے اسرکو نظر انداز کرتا

کنیز کے مطابق شرح سود کا تعین صرف زر کی رسہ اور طلب کے توازن سے ہوتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ شرح سود کھتوں اور باپ کی مقدار میں تبدیلی سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ سرمانے کی مختتم استعداد اور شرح سودبچتوںسرمایہ جاتی ہے۔

شرح سود کے تعین میں دیگر عوامل کا کردار

کمار کے خیال میں شرح سود کا تعین صرف از نظر کی تربیع سے ہوتا ہے لیکن کی دوسرے عوامل بر اور است یا بالواسط طور پر اثر انداز ہوکر شرح سود کو تبدیل کر دیتے ہیں۔

عرصہ قبل کا نظریہ

زر کی رسم کو معین رکھتے ہوئے یہ نظر یہ عرصہ قبل میں شرح سود کا تعین فایل کرتا ہے اب کہ عرصہ طویل میں شرح سود کے بارے میں کوئی واضح بیان نہیں ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو زر نقد کی ترجیح کا نظریہکے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment