سرمایه داری، اشتراکیت اور اسلامی معاشی نظام کا موازنہ
سرمایه داری، اشتراکیت اور اسلامی معاشی نظام کا موازنہ ⇐ نظام سرمایه داری اور نظام اشتراکیت اپنے بنیادی فکر و فلسفہ کے اعتبار سے مادہ پرستی کی شاخیں ہیں اور دونوں ایک ہی سکہ کے دورخ ہیں۔ اس لئے بظاہر مختلف سمتیں رکھنے اور اپنی تفصیلات میں مختلف ہونے کے باوجود ان کے ثمرات اور نتائج ایک جیسے ہیں۔ نظام سرمایہ داری نے ذاتی منافع کی ہوس کے ذریعے افراد کو اجتماعی مفاد سے دور کر دیا اور معاشی آزادی کے نام پر بڑے بڑے سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کو معاشی استحصال کی کھلی چھٹی دے دی ہے جبکہ نظام اشتراکیت نے اجتماعی ملکیت کے نام پر افراد سے ان کی جائیداد و کاروبار ہی نہیں چھینے بلکہ ان کی فکر اور ضمیر کو بھی چھین لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرتی عدل جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے نہ تو اشتراکیت سے ہی ہل پایا اور نظام سرمایہ داری میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں نظاموں کے علمبرداروں نے دنیا میں استعمار اور سامراج کا کردار ادا کیا قوموں اور عوام کی آزادی کو گروی رکھ کر ان کو دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج بنا دیا۔
اسلامی معاشی نظام اور نظام سرمایہ داری
تصور ملکیت
اسلام تمام وسائل کو خالق کا ئنات کی ملکیت قرار دیتا ہے اور انسانوں کو دیئے گئے حق ملکیت کو خدا کا عطیہ قرار دیتا ہے چونکہ زمین پر انسان کو تائب خدا بنایا گیا ہے اس لئے نائب خدا خلیفہ اللہ فی الارض ہونے کی حیثیت سے انسان بہت کی حدود کے ساتھ محدود کر دیا گیا ہے۔ اس طرح انسان اپنی ملکیتی اشیا کو استعمال کرنے میں آزاد نہیں بلکہ چند حدود کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کچھ چیزوں کو اسلام اجتماعی ملکیت قرار دیتا ہے۔ جن سے استفادہ ہر انسان کا حق ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کا حق ملکیت مطلق ہے۔ اس پر کوئی قدغن اور پابندی نہیں ۔ انسان جیسے چاہے اپنے مال کو استعمال کرے اور جیسے چاہے اس میں اضافہ اور بڑھوتری کرے۔ اسی لئے سود، دولت کا ارتکاز اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ مختلف برائیاں نظام سرمایہ داری میں کاروباری خوبیاں قرار پاتی ہیں۔
سودی نظام
نظام سرمایہ دار میں کاروبار کی بنیاد سودی نظام پر ہے جس کے نتیجے میں دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے۔ معاشی اجارہ داریاں وجود میں آتی ہیں جو بڑھتے بڑھتے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں دنیا بھر میں پھیل کر معاشی استحصال کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس پورے جال پھیلانے میں سودان کی مدد کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام سودی لین دین کی پر زور مذمت کرتا ہے اور اس کا لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول منیم کی طرف سے جنگ کا اعلان کرتا ہے۔ اسلام سود کو ظلم قرار دیتا ہے۔
دولت کی تقسیم
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا ساراز در پیدائش دولت پر ہے۔ اس نظام میں دولت کی قسم کا کوئی مربوط طریق کار میں ہے۔ جس کی وجہ سے دولت کا ارتکاز چند افراد اور چند خاندانوں تک محدود ہو جاتا ہے۔ امی طبقہ امیر اور غریب طبقہ غریب تر ہوتا جاتا ہے اور یوں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا جاتا ہے اور معاشرہ طبقہ امرا اور طبق فرا میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے تقسیم دولت کے ضمن میں ایک مربوط نظام دیا ہے جس کے تحت اول تو عاملین پیدائش کے معاوضوں کی ادائیگی میں عدل و احسان کو پیش نظر رکنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں دولت کے ارتکاز اور قسیم دولت میں خرابی کے خاتمے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر دولت جمع ہوتی ہے تو صدقہ اور خیرات کے رضا کارانہ شعبہ کا قیام اور زکوۃ کی فرضیت کے ذریعے وراثت کی تقسیم کے احکام کے ذریعے عید الفطر پر فطرانہ کی ادائیگی کے ذریعے، وقف کے اداروں کے قیام کے ذریعے دولت کی تقسیم کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور دولت کے جمع ہونے کے راستے بند کر تقہ دیئے جاتے ہیں۔
دولت کمانے کے جائز ذرائع پرزور
نظام سرمایہ داری دولت کمانے کے ہر ذریعے کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس کے لئے ہر اس اقدام کو ضروری قرار دیتا ہے جس سے منافع زیادہ سے زیادہ ہو سکے اب خواہ غلط اور گمراہ کن اشتہار بازی کے ذریعے ہو یا اشیا پر اجارہ داریوں کے ذریعے ہو۔ اس کے برعکس اسلام رزق کمانے کی جدو جہد کو حلال ذرائع کا پابند بناتا ہے اور ہر ایسے ذریعہ معاش کو ممنوع قرار دیتا ہے جو کہ معاشرے کی اخلاقی حالت کو بگاڑنے کا سبب بنے یا عوام الناس کے استحصال کا ذریعہ بنے۔
معاشی نظام کی بنیادی قدریں
اسلام کے معاشی نظام کے بنیادی اُصول تقوی و پرہیز گاری ، مساوات، عدل، احسان، اعتدال اور حلال و حرام کا جامع تصور ہیں جبکہ نظام سرمایہ داری کا ایک ہی اصول ہے کہ اپنے مال و دولت میں کیسے اضافہ ہو اور زیادہ سے زیادہ منافع کیسے کمایا جائے۔
صرف دولت
نظام سرمایہ داری میں مال کا مالک انسان بذات خود ہے۔ وہ اپنے حق پر کسی ایسی پابندی کا قائل نہیں ہے جو کہ اسے اپنے مال کے استعمال سے روک سکے۔ اس کے برعکس صرف دولت کے ضمن میں اسلام حلال و حرام کی پابندی کا حکم دیتا ہے۔ اسراف کی ممانعت اور اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح بخیلی سے بچنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اجارہ داریوں کا قیام
زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں نظام سرمایہ داری میں سرمایہ دارمل کر معاشی اجارہ داریاں قائم کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔ اسلام معاشیاور ہرقسم کی اجارہ داریوں کا مخالف ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام اور صارفین کا استحصال ہوتا
اسلام کا معاشی نظام اور نظام اشتراکیت
بنیادی فلسفہ، حیات کا فرق
اسلام اور اشتراکیت کے بنیادی فلسفہ زندگی میں فرق پایا جاتا ہے۔ اشتراکیت کی بنیاد زندگی کے مادی نظریہ پر ہے جس کے مطابق مادی ضروریات ہی انسان کی حقیقی ضروریات ہیں۔ اس لئے انسان کی مصروفیات کا محوران ضروریات کا حصول ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس اسلام انسان کو زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ تصور کرتا ہے اور انسان کو ایک ضابطہ حیات کا پابند کرتا ہے تا کہ وہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی حاصل کر سکے۔
وسائل پیدائش
نظام اشتراکیت وسائل پیداوار پر حکومت اور ریاست کے مکمل اختیار اور قبضہ کا قائل ہے اور کسی قسم کے پیداواری ذرائع کی انفرادی اور نجی ملکیت کا مختلف ہے۔ اس کے برعکس اسلام بنیادی طور پر ہر انسان کو انفرادی ملکیت کا حق دیتا ہے۔ البتہ چند چیزوں کو اجتماعی ملکیت قرار دیتا ہے۔
معاشی مساوات
اشتراکی نظام بھی ملکیت کو ختم کر کے تمام وسائل کو اجتماعی ملکیت قرار دیتا ہے اور تمام وسائل کی مساوی تقسیم کا دعویدار ہے جو کہ قانون فطرت کے خلاف ہے فطری طور پر تمام انسان یکساں صلاحیتوں کے مالک نہیں ہیں اس لئے معاشرے میں مختلف افراد میں وسائل کی تقسیم بھی برابر نہیں ہے۔ یہ طبعی اور فطری فرق و تفاوت ہی وہ وجہ ہے جس سے کائنات کا نظام چل رہا ہے اگر تمام انسان وسائل رزق میں برابر ہو جائیں تو کار خانہ حیات کا چلنا نا ممکن ہو جائیگا۔ البتہ تقسیم رزق میں بہت زیادہ فرق ہو، اسلام اس بات کو نا پسند کرتا ہے اور اس خلیج کو کم سے کم کرنے کا قائل ہے اور تمام انسانوں کو حصول رزق کے یکساں اور مساوی مواقع فراہم کرنے کا دائی ہے۔
معاشی اصول
نظام اشتراکیت کے اصول جامد اور غیر لچکدار ہیں، ان اصولوں سے انحراف کو نظام اشتراکیت سے غداری تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے اصول اللہ تعالیٰ کے عطا کر وہ ہیں۔ وقت اور زمانے کی تبدیلیوں کے لئے حالات کے مطابق قرآن وسنت کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اجتہاد کا راستہ کھلا چھوڑا گیا ہے۔
اجتماعی فلاح و بہبود
نظام اشتراکیت اجتماعی مفاد کے لئے ملکی وسائل کے خرچ کا دعویدار ہے تا کہ عام لوگوں کے حالات زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اسلام اس ضمن میں بنیادی ذمہ داری ہر فرد پر ڈالتا ہے کہ ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق ضروریات زندگی کو حاصل کرنے کی جدو جہد کرے اور ناکامی کی صورت میں معاشرہ اس ذمہ داری کو قبول کرے اور جب معاشرہ بھی اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوئی صورت نہ نکال سکے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر فرد کے لئے رزق و روزی کا بندو بست کرے اور ہر فرد کو ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
جذبہ کار کا فقدان
نظام اشتراکیت میں نجی ملکیت کے خاتمے سے افراد میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذ بہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور ہر فرد کام کرتا ہے۔ صارفین کو اپنی پسند اور ذوق کے مطابق اشیا نہیں ملتیں۔ اس کے برعکس اسلام نجی ملکیت کا قائل ہے اور انسان کو فکر وعمل اور ذریعہ معاش کی آزادی دیتا ہے تا ہم اس آزادی پر حلال وحرام کی کچھ قیود عائد کرتا ہے۔ ذاتی منافع اور اس کے اپنی ذات پر اور دوسرے افراد معاشرہ پر مال خرچ کرنے پر اللہ کی خوشنودی کا وعدہ انسان کے اندر کام کرنے کے جذبے کو فروغ دیتا ہے۔
سرمایہ داری کا خاتمہ
نظام اشتراکیت سرمایہ داری کو بزور بازو اور تصادم کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام دولت کمانے کے نا جائز ذرائع پر پابندی، زکوۃ وعشر اور تقسیم وراثت کے قانون کے نفاذ اور سود کی مذمت کے ذریعے سرمایہ داری کا قلع قمع کرتا ہے۔ اسلام اور دیگر معاشی نظاموں کے تقابل سے یہ نتیجہ لگتا ہے کہ دیگر تمام نظام انسان کے بنائے ہوئے اور خامیوں سے پر ہیں۔ جبکہ اسلام کا معاشی نظام بشری کمزوریوں سے پاک اور اللہ اور اللہ کے رسول ملی پینے کے احکامات کی روشنی میں مرتب کردہ ہے اور یہی ہمارے تمام معاشی و معاشرتی مسائل کا حل ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “سرمایه داری، اشتراکیت اور اسلامی معاشی نظام کا موازنہ“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ