سوڈیم کی جسم میں کمی

سوڈیم کی جسم میں کمی جسم میں سوڈیم کی کمی اس وقت رونما ہوتی ہے جب جسم سے خارج ہونے والے سوڈیم کی مقدار میں کھانے کے ذریعے شامل ہونے والے سوڈیم سے کم ہو جاتی ہے۔ گرم موسم کے باعث یا بخار کی شدت میں جسم سے بہت سا پسینہ خارج ہوتا رہتا ہے جس میں کافی مقدار میں سوڈیم کلورائیڈ شامل ہوتا ہے جس کو ہم کھانے کا نمک بھی کہتے ہیں۔ اگر یہ کمی فورا پینے کے پانی کے ذریعے یا کھانے کے ذریعے دور نہ کی جائے تو جسم میں سوڈیم کی کمی کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں ان کے جسم سے سوڈیم پسینے کی صورت میں خارج ہوتا رہتا ہے اور وہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ نمک یا پانی یا کھانے میں استعمال کرتے ہیں یا پھر ایسی غذا کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جس میں کافی مقدار میں سوڈیم کھانے کے نمک کی صورت میں شامل ہو۔ اس کے علاوہ سوڈیم کی کی جسم کی نا مناسب نمک کے استعمال سے بھی ہو جاتی ہے یہ کی عموما فاقہ کشی غیر متوازن غذا استعمال کرنے والے مریضوں میں خاص طور پر دل کے مریض اور ایڈیا والے مریضوں کو جب کم نمک والی خوراک پر زیادہ عرصہ رکھا جائے تو یہ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جسم میں سوڈیم کی کمی خاص حالت میں ہوتی ہے مثلا اس وقت جب جسم سے زیادہ مقدار میں پانی خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پانی جسم میں سے مختلف وجوہات کی بناء پر زیادہ خارج ہوتا ہے۔ ایک مثال تو اسبال یا ڈائریا کی بیماری ہے جس کے دوران جسم سے زیادہ مقدار میں پانی خارج ہوتا ہے اور اس پانی کے ساتھ ساتھ جسم میں سے باقی نمکیات جس میں سوڈیم سر فہرست ہے خارج ہو کر مریض کو لاغر کر دیتے ہیں۔ یہ ان صورتوں میں ممکن ہوتا ہے کہ جب مریض کافی مدت تک اسہال کا شکار رہے جس دوران اس کے جسم کے نمکیات ضائع ہو جاتے ہیں اس طرح نا کافی غذائیت کے شکار مریضوں میں بھی اسہال کی تکلیف ہو جاتی ہے جس سے نا کافی غذائیت والے مریض میں سوڈیم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں زیادہ محنت کرنے والے افراد کے جسم سے پانی پینے کی شکل میں ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اس پانی میں تقریباً 20.2 سے 0.4 فیصد کے قریب نمک یا سوڈیم کلورائیڈ موجود ہوتا ہے۔ جب پسینہ زیادہ بہتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ سوڈیم ضائع ہو جاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق سخت محنت کرنے والے ایسے افراد جو دھات کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں کے جسم سے ایک دن میں چار لیٹر کے قریب پینے کی صورت میں خارج ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے افراد کے جسم سے ایک دن میں 8 سے 16 گرام تک نمک خارج ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں انسانی عضلات میں کریمز جن کی دعام زبان میں بل کہتے ہیں پڑنا شروع ہو جاتے ہیں جو بہت تکلیف دے ہوتے ہیں ایسے حالات میں ضروری ہے کہ مریض کو زیادہ سے زیادہ نمک ملا پانی شکنجبین یا کسی اور صورت میں پینے کو دیا جائے۔ سوڈیم کا جسم میں معمول سے زیادہ اضافہ:  سوڈیم کی جسم میں زیادتی اس وقت عمل میں آتی ہے جب جسم خوراک سے حاصل کردہ ضروریات سے زیادہ سوڈیم جسم سے پیشاب یا پینے کے ذریعے خارج نہ کر سکے اور یہ سوڈیم جسم کے اندر ہی رہے۔ ایسے حالات عموما اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان کے گردے صیح طور پر کام نہیں کر رہے ہوتے یا پھر کچھ ایسی ادویات کا استعمال ہو رہا ہوتا جو سوڈیم کو جسم میں رہنے میں مدد دیتی ہے۔

سوڈیم کی جسم میں کمی

استقاء لحمی ایڈیما

سوڈیم کلورائیڈ کے زیادہ استعمال سے پانی جسم میں جمع ہونے لگتا ہے جو جسم کی بافتوں میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کے وہ حصے پھول جاتے ہیں جن میں پانی جمع ہو جاتا ہے جسم کی اس حالت کو ہم ایڈیا کہتے ہیں۔ لہذا ایسے افراد جن کو ایڈیما کی شکایت ہوتی ہے ان کو سوڈیم کے نمک کا کم سے کم استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہاں ہم ایک اہم مرض کا ذکر بھی کرتے ہیں جس کا تعلق عام طور پر سوڈیم کے زیادہ استعمال سے بتایا جاتا ہے اور ڈاکٹر اس قسم کے مریضوں کیلئے ایسی غذا تجویز کرتے ہیں جس میں کم کھانے کا نمک شامل ہوتا ہے۔

اسباب

ہائی بلڈ پریشر ایک انتہائی موذی مرض ہے۔ علی اصطلاح میں اسے بیش طغابی کہتے ہیں ۔ دور جدید میں یہ مرض زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دراصل اس کا سبب غیر متوازن غذا نا مناسب ماحول اور بے سکون زندگی ہے۔ نمکیات میں سے کھانے کے نمک ( سوڈیم کلورائیڈ ) کی جسم میں زیادتی سے بھی اس مرض کو منسوب کیا جاتا ہے۔ نارمل بلڈ پریشر اس دباؤ کو کہتے ہیں جو خون شریانوں اور دل کی دیواروں پر پڑتا ہے اور یہ دباؤ خون میں دل کے دھڑکنے کے عمل سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا دل ایک پمپ کی مانند کام کرتا ہے۔ جو صاف شدہ خون کو دباؤ ڈال کر شریانوں کے ذریعے انسانی جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچاتا ہے۔ یہ خون شریانوں اور دل کی دیواروں پر جو دباؤ ڈالتا ہے اسے اس وقت تک نارمل بلڈ پریشر کہا جاتا ہے جب تک شریانیں اور دل کی دیواریں اپنی قدرتی حالت میں برقرار رہتی ہیں۔ اگر یہ دباؤ موجود نہ ہو تو خون بار یک بار یک تالیوں میں سے گزرنے پر بھی آمادہ نہ ہو۔ جب خون کا یہ دباؤ معمول سے زیادہ ہو جائے تو اس کو ہائی بلڈ پر یشر کہتے ہیں۔ اگر یہ پریشر بڑھتا چلا جائے تو کبھی حملہ اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے کہیں سے بھی کوئی خون کی نالی پھٹ سکتی ہے۔ پھلنے والی نالی دل یا دماغ کے جتنی نزدیک ہوگی مریض کی حالت اتنی ہی زیادہ خطرناک ہوگی۔ شریانوں پر خون کا دباؤ مختلف وجوہات کی بناء پر بڑھ جاتا ہے۔ خوراک میں ضرورت سے زیادہ لحمیات کا استعمال جس کے نتیجے میں خون گاڑھا ہو جاتا ہے اور اسے رگوں میں گردش کرنے کے دوران وقت ہوتی ہے۔ چکنائی یا چربی کا ضرورت سے زیادہ استعمال جو شریانوں میں کولیسٹرول جمع ہونے کا سبب بنتی ہے۔  غذا میں موجود سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار ہضم ہونے کے دوران زیادہ پانی جذب کرتی اور خون میں شامل ہو جاتی ہے جس سے خون کا حجم زیادہ ہو جاتا ہے۔ خون کا یہ حجم شریانوں پر دباؤ بڑھانے کا موجب بنتا ہے۔ کسی بھی بیماری سے اگر گردے متاثر ہوں اور خون کے فاسد مادوں کا مناسب انعکاس بند ہو جائے تو بھی فاسد مادے شریانوں میں جمع ہونے لگتے ہیں جیسے سوڈیم کلورائیڈ اور بورک ایسڈ وغیرہ جو شریانوں میں خون کا دباؤ بڑھانے کا موجب بنتے ہیں۔ انسانی جسم میں حیا تین اور عیاشیم کی کمی سے اعصابی کمزوری ہو جاتی ہے جس سے بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خون کا دباؤ دو طرح کا ہوتا ہے بلڈ پریشر ناپنے کے ذریعے ایک آلہ استعمال ہوتا ہے جسے دباؤ پیما کہتے ہیں۔

خون کا انقباضی شریانی دباؤ

یہ اس وقت کا دباؤ ہے جب دل شریانوں میں خون دھکیل رہا ہوتا ہے۔

خون کا انسباطی دباؤ

یہ اس وقت کا دباؤ ہے جب دل شریانوں میں خون دھکیلنے کے بعد ایک لمحے کو آرام کرتا ہے۔ اس طرح سیٹا لک بلڈ پریشر ڈایا سٹالک بلڈ پریشر سے زیادہ ہوتا ہے اور ان دو پیمائشوں کو یوں لکھا جاتا ہے: عام طور پر اوپر کا دباؤ 100-145 تک اور بیچے کا دباؤ 70-90 کے درمیان ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر کا تعلق عمر کے ساتھ بھی ہے جوں جوں عمر بڑھتی ہے توں توں بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بلڈ پریشر غصے خوف، گھبراہٹ پریشانی اور اعصابی تناؤ کے عالم میں بھی تھوڑا بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ جو تھوری دیر کے بعد خود بخود نارمل ہو جاتا ہے۔

علامات

ہائی بلڈ پریشر کے مریض اکثر سر ورڈ چکر متلی اور تھے یا الٹی کی شکایت کرتے ہیں ۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کے دورے شدید ہوں تو بہت خطرناک ہوتے ہیں جس سے مریض مکمل اور دویل ہے ہوشی کے عالم میں رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ آنکھ منہ یا سرا ایک جانب کو کھنچ جائے اور ر یہ دورہ کبھی کبھی جسم کے ایک حصے کے فالج کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

حفاظتی اقدامات و علاج

ہائی بلڈ پریشر پر قابو پانے کے چند ایک اصول ہیں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو چاہیے کہ اپنے بلڈ پریشر کو چیک کرواتے رہیں اور ڈاکٹر جو بھی ادویات تجویز کرے اس کا باقاعدگی سے استعمال کریں ۔ دوا سے زیادہ غذا سے علاج کرنا چاہیے۔ روز مرہ کی خوراک میں گوشت اور انڈاد غیرہ بالکل کم استعمال کریں اگر ممکن ہو تو کچھ عرصے کیلئے جب تک صحت یابی نہ ہو ان سے مکمل پرہیز کریں۔ غذا کی مقدار بھی کم کر دیں اور غذا ہلکی پھلکی کھائیں جو زود ہضم ہو بھاری غذا نہ کھائیں۔ اس مرض کے مریضوں کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو پانی کا استعمال کریں تا کہ گردوں میں موجودہ نمکیات پانی میں حل ہو کر پیشاب کی صورت میں خارج ہوتے رہیں۔ مریض کو نشہ آور چیزوں سے پر تیز کرنا چاہیے۔ اس مرض میں نمک سے پر ہیز لازمی ہے کیونکہ نمک رطوبت کو جمع کرتا ہے اور اس کے زیادہ استعمال سے جسم میں رطوبتیں بڑھتی ہیں اور دل کو زیادہ دباؤ کے تحت کام کرنا پڑتا ہے اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے صحت مندی تک نمک بالکل استعمال نہ کریں اور اگر نمک کے بغیر گزارہ نہ ہو سکے تو پھر خالص نمک کا استعمال کریں جو بازار میں نیبل سالٹ کے نام ہے تا ہے۔ ایسے مریض کو اپنے اعصاب اور جذبات قابو میں رکھنے چاہئیں جذبات کی شدت نقصان دہ ہوتی ہے۔ مثلاً زیادہ نقصہ ناراضنگی غم اور پریشانی وغیرہ۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "سوڈیم کی جسم میں کمی"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment