سکیورٹی کونسل

سکیورٹی کونسل ⇐ سکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بنیادی طور پر بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ کونسل پندرہ ارکان پرمشتمل ہے جس میں پانچ مستقل اراکین یعنی چین روس برطانیہ، فرانس اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ شامل ہیں۔

سکیورٹی کونسل

جنرل اسمبلی

باقی دس کا چناؤ جنرل اسمبلی دو سال کیلئے کرتی ہے۔ ہر ممبر کا ایک ووٹ ہوتا ہے ہے اور کسی فیصلہ کیلئے 15 میں سے 9 ارکان کا ووٹ حق میں ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اہم امور پر فیصلہ کیلئے 9 ووٹوں میں پانچ مستقل ممبران کے ووٹ ضروری ہیں ۔

طاقتوں کی ہم آہنگی

یہ بڑی طاقتوں کی ہم آہنگی کا قانون ہے جسے اکثر ویٹو پاور کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مستقل رکن کسی فیصلہ پر راضی نہیں ہوتا اور اس فیصلے کو ویٹو کے ذریعے روکنا بھی نہیں چاہتا تو یہ غیر حاضر ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام ممبران اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے فیصلوں کو ماننے کے پابند ہیں۔ سکیورٹی کونسل کو فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔

معاشی و معاشرتی کونسل

یہ کونسل اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کیلئے معاشی و معاشرتی کام کرتی ہے۔ کونسل 54 اراکین پر مشتمل ہے جو تین سال تک کام کرتے ہیں ۔ 18 مبران ہر سال منتخب کئے جاتے ہیں جو ان اراکین کی جگہ لیتے ہیں جنہوں نے تین سال مکمل کر لئے ہوتے ہیں۔ اس کونسل میں فیصلے سادہ اکثریت سے کئے جاتے ہیں۔

ٹرسٹی شپ کونسل

یہ کونسل اقوام متحدہ کا ایک بڑا ادارہ ہے جس کے ذمہ ٹرسٹ علاقہ جات جو ٹرسٹی شپ سسٹم کے تحت آتے ہیں کی نگرانی ہے۔ اس سسٹم کا بنیادی کام ٹرسٹ علاقہ جات (ٹرسٹ کے علاقے) کے رہنے والوں کی ترقی و خوشحالی اور ان کی آزادی کی حفاظت ہے۔

اختیارات

یہ کونسل جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کے فیصلے سادہ اکثریت سے ہوتے ہیں۔ کونسل ان سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی ترقی کے معاملات پر بحث کرتی ہے جو محکوم علاقوں کے لوگوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔

 بین الاقوامی عدالت انصاف

یہ اقوام متحدہ کا انصاف کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ یہ عدالت ان تمام پارٹیوں کیلئے ہے جو اقوام متحدہ کی ممبر ہیں۔ تمام ممالک اس میں اپنے معاملات ان شرائط کے مطابق بھیج سکتے ہیں جو سکیورٹی کونسل نے طے کی ہیں۔ جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل اس عدالت سے کس  ی بھی معاملہ پر مشورہ طلب کر سکتی ہیں۔

 بین الاقوامی عدالت انصاف

نمائندگی

یہ عدالت انصاف ان تمام سوالات کو زیر غور لا سکتی ہے جو ممالک اسے بھیجیں۔ یہ عدالت 15 ججوں پر مشتمل ہے جو جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل منتخب کرتی ہیں ۔ ان کا انتخاب قابلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ احتیاط برتی جاتی ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے قانونی دستوروں کی اس میں نمائندگی ہو ۔

فرائض

دو جج ایک ہی قومیت یعنی ایک ہی ملک کے نہیں ہو سکتے ۔ یہ جج 9سال کیلئے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور دوسری بار بھی منتخب ہو سکتے ہیں۔ اس کا صدر مقام ہیگ نیدر لینڈ میں ہے۔

سیکرٹریٹ

سیکرٹریٹ اقوام متحدہ کا انتظامی ادار ہے جو دوسرے ذیلی اداروں کی رہنمائی اور پالیسیوں و پروگراموں کے انتظامی امور چلاتا ہے۔ اس کا بڑا افسر سیکرٹری جنرل ہوتا ہے جس کا تقرر جنرل اسمبلی سکیورٹی کونسل کی سفارش پر کرتی ہے۔

عالمی امن کیلئے خطرے کا باعث

سیکرٹری جنرل دوسرے معاملات کے علاوہ سکیورٹی کونسل کی توجہ کسی ایسے معاملے کی طرف مبذول کرا سکتا ہے جو اس کے خیال میں عالمی امن کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہو۔ اس طرح یہ عالمی جھگڑوں کو حل کرانے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس سیکر ٹریٹ میں 150 ممالک سے کام کرنے والے 25000 سے زائد افراد ہیں جو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ دنیا میں اس کے دفاتر اور مراکز میں کام کرتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کا بجٹ

کوئی بھی ممبر ملک سیکرٹری جنرل اور اس کے سٹاف کے کام میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ کا بجٹ جنرل اسمبلی ہر چھ ماہ بعد منظور کرتی ہے۔ یہ سیکرٹری جنرل کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جو ایک ماہرین کی 16 رکنی کمیٹی جانچ پڑتال کرنے کے بعد 21 رکنی کمیٹی کے پاس بھیجتی ہے اس کے بعد جنرل اسمبلی منظوری دیتی ہے۔

اقوام متحدہ کا بجٹ

اقوام متحدہ کے اہم ذیلی ادارے

 جنرل اسمبلی کی عبوری کمیٹی ۔

 تخفیف اسلحہ کا کمیشن۔

 ایٹمی طاقت کے پر امن استعمال سے متعلق مشاورتی کمیٹی ۔

مشاہدہ امن کمیشن۔

بلقان سب کمیشن

اجتماعی اقدامات کی کمیٹی۔

فوجی ماہرین کی کمیٹی ۔

نئے ممبروں کے داخلے سے متعلق رابطہ کمیٹی ۔

فلسطین کیلئے مصالحتی کمیشن۔

 مشرقی وسطی میں رہنے والے مہاجرین فلسطین سے متعلق ادارہ۔

 جنوبی افریقہ میں نسلی اختیارات سے متعلق کمیشن۔

اقوام متحدہ کیلئے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کا محکمہ۔

 اسیران جنگ سے متعلق کمیشن۔

 قانون کا بین الاقوامی کمیشن وغیرہ۔

اقوام متحدہ سے الحاق شدہ مخصوص ادارے

آئی۔ ایل او ( بین الاقوامی ادارہ مزدوراں)

ایف اے او (ادارہ خوراک و زراعت )

یونیسکو ( اقوام متحدہ کا تعلیمی سائنسی و ثقافتی ادارہ )

عالمی بنک

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ

عالمی ادارہ صحت

ڈاک کی عالمگیر انجمن (یو۔ پی۔او )

بین الاقوامی انجمن مواصلات برقی ( آئی۔ ٹی۔ یو )

عالمی ادارہ موسمیات ( ڈبلیو ایم او)

 یونیسیف (بچوں کا فنڈ )

انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کاوشیں

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور دوسرے ذیلی اداروں نے امن وسلامتی اور بین الاقوامی تنازعات کو حل کرانے کیلئے جہاں بے مثال کوششیں کی ہیں وہاں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بھی حتی المقدور اقدامات کئے ہیں ۔

عہد ناموں کی صورت

انسانی حقوق کے چارٹر میں جن حقوق کا ذکر کیا گیا جنرل اسمبلی نے ان کو دو عہد ناموں کی صورت میں 1966ء میں منظور کیا اور ممبر ممالک کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ اگر کوئی ملک اس کو تسلیم کرتا ہے تو ان عہد ناموں پر دستخط کر دیئے ۔

بچوں کے حقوق

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس سلسلے میں کچھ کام کیا یعنی 1959ء میں بچوں کے حقوق کے بارے میں منظوری لی۔

بچوں کے حقوق

نسل کشی کی روک تھام

اس سے پہلے جنرل اسمبلی میں 1948 ء میں نسل کشی کی روک تھام کیلئے اور 1951 ء میں مہاجرین کے تحفظ کیلئے مختلف قرار دادیں پیش کیں جنہیں بحث و تمحیص کے بعد منظور کر لیا گیا ۔ 1952ء میں خواتین کے سیاسی حقوق کیلئے 1951 ء میں شادی شدہ عورتوں کی قومیت کے تعین کیلئے 1951 ء میں غلامی کے انسداد کیلئے قرار دادیں جنرل اسمبلی میں پیش کی گئیں۔

بین الاقوامی اداره

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں مثلاً بین الاقوامی اداره محنت (آئی ایل او) بین الاقوامی اداره برائے تعلیم و ثقافت (یونیسکو)’ بین الاقوامی اداره مهاجرین (یو این ایچ سی آر) نے بھی اپنے اپنے دائرہ عمل میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔

مختلف تنظیمیں

جدید دور میں بھی لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں مکمل شعور و آگاہی کے نتیجے کے طور پر دنیا میں ہر طرف انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے نہ صرف مختلف تنظیمیں بن رہی ہیں بلکہ بحث ومباحث کے ذریعے لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جارہی ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا جو چارٹر ترتیب دیا ہے اس پر اکثر عمل درآمد ہوا ہے تاہم کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ان میں سے چند ایک اہم معاملات کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 مسئلہ فلسطین

سب سے اہم کا یہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کا رویہ ہے جس کا مشاہدہ مختلف موقعوں پر کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک انتہائی اہم مسئلہ جو در پیش آیا دہ مسئلہ فلسطین” ہے۔ دنیا بھر کے یہودیوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قبلہ اول اور انبیاء کی سرزمین پر قبضہ کر لیا۔

مستحکم

ان پر ناجائز قبضہ نہ صرف آج تک قائم ہے بلکہ اسے مزید مستحکم اور مضبوط بنایا جاتا رہا ہے۔ فلسطینی عورتوں اور بچوں کوزد و کوب اور بے گھر کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ اور برطانیہ نے ہمیشہ سے اسرائیل کیخلاف کسی بھی سنجیدہ کوشش کو ناکام بنانے کیلئے انسانی حقوق کی سرعام دھجیاں بکھیری ہیں۔

مستحکم

مسئلہ کشمیر

دوسرا جنوب مشرقی ایشیاء کا اہم مسئلہ مسئلہ کشمیر ہے جو کہ اتفاق سے 1948 ء ہی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں موجود ہے۔

حقوق کے مسائل

یہ مسئلہ بھی مسئلہ فلسطین کی طرح ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیں پچھلے چونسٹھ سالوں سے غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہیں اور تقریبا ایک لاکھ کشمیری شہید کئے جاچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ اس مسئلہ کو انسانی حقوق کے حوالے سے بھی حل کرانے کی پابند ہے۔ اس مسئلہ میں روس نے نہایت مذموم کردار ادا کیا ہے یعنی ہر سنجیدہ کوشش کو ویٹو کیا ہے جس سے انسانی حقوق کے مسائل بدستور موجود ہیں ۔

عراق کویت تنازعہ

عراق کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اقوام متحدہ نے جس طرح کھلی چھٹی دی اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی ۔ یعنی عراق جو کہ مسلمان ملک ہے اس پر پچاس ممالک کی افواج اور مدد سے حملہ کیا گیا اور تقریبا ایک لاکھ مرد عورتیں اور بچے بے دردی سے ہلاک کر دیئے گئے اور اب تک عراق پر غاصبانہ قبضہ برقرار ہے۔ اس آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم میں حقیقتا امریکہ اور یورپی افواج مستقلا خلیج فارس میں آباد اور قابض ہو چکی ہیں۔

 عراق ایران تنازعہ

عراق ایران تنازعہ میں اقوام متحدہ عراق کو جنگ سے روکنے میں ناکام رہی اور عراق نے نہ صرف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے بلکہ ہزاروں ایرانی مردوں کو ہلاک کیا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کا چارٹر اور باقی عالمی ادارے خصوصاً سلامتی کونسل نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔

 بوسنیا کا مسئلہ

بوسنیا کے مسئلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے اداروں نے جو جانب داری اورسستی دکھائی اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی نسل کشی کیلئے سر بیانے وحشیانہ طریقے اختیار کئے۔ اس کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ نے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا۔ ڈیٹن امن سمجھوتہ میں جس طرح مسلمانوں پر ظلم و ستم روا رکھا گیا۔

 لیبیا پر اقتصادی پابندیاں 

لیبیا پر پچھلے کئی سالوں سے صرف دو افراد کے جرم میں سارے ملک پر انتہائی شدید اقتصادی اور سیاسی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ نے مل کر ایک فضائی حملے میں کئی شہریوں اور کرنل قذافی کی بیٹی کو بھی مار ڈالا۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوسکیورٹی کونسل  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

…….سکیورٹی کونسل  …….

Leave a comment