شرح پیدائش کے ڈیموگرافک عوامل

شرح پیدائش کے ڈیموگرافک عواملکسی بھی معاشرے میں شرح پیدائش پر بہت سے ثقافتی معاشرتی، معاشی اور حیاتیاتی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان عوامل میں سے زیادہ تر مزید چار عوامل پر منحصر ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

  • آبادی میں شادی شدہ خواتین کی شرح
  • خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کرنے والی خواتین کی شرح
  • بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کی شرح
  •  ایبارشن کی شرح

شرح پیدائش کے ڈیموگرافک عوامل

آبادی میں شادی شدہ خواتین کی شرح

آبادی میں شادی شدہ خواتین کی شرح کسی بھی معاشرے میں بالیدگی کے رجحان کے تعین میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یعنی اگرکسی جگہ یا ملک میں شادی شدہ خواتین کی شرح جتنی زیادہ ہوگی بے شک عام طور پر بچے پیدا کرنے کارجحان کچھ کم ہی کیوں نہ ہو ایک عرصے تک آبادی میں اضافے کا رجحان بڑھتا رہتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں شادی کے رجحان میں کمی کی وجہ سے بہت سی خواتین لمبے عرصے تک غیر شادی شدہ زندگی گزارتی ہیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر وہ بچے پیدا کرنے کی عمر کے بڑے حصے میں اس عمل سے نہیں گزرتیں۔ نتیجے کے طور پر آبادی میں بالیدگی کے عمومی رجحان میں کمی سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں مذہبی رجحانات ہونے کی وجہ سے اور معاشرے میں روایتی طور پر شادی کی اہمیت کی وجہ سے تقریبا تمام خواتین ایک بھر پور شادی شدہ زندگی گزارتی ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر یہاں ہمیشہ شادی شدہ خواتین کی شرح عمومی طور پر زیادہ رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو معاشرتی و ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے جو کہ بالیدگی کے رجحان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم گزشتہ کئی برسوں کے دوران لڑکیوں میں تعلیم کے رجحانات میں اضافہ اور دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے مناسب رشتہ نہ ملنے سے اس شرح میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف پہلی شادی کی عمر اور طلاق کی شرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ اوپر بیان کی گئی وجوہات کی وجہ سے پہلی شادی کی عمر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن مذہبی اثرات اور معاشرے میں قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں طلاق کی شرح بہت سے مغربی معاشروں کی نسبت بہت کم ہے جس کے نتیجے کے طور پر اوسطا ایک عورت کا شادی شدہ زندگی کا دورانیہ بھی نسبتا زیادہ ہے اس صورتحال کی وجہ سے بالیدگی کی شرح زیادہ ہوتی ہے ۔ شادی شدہ عورتوں کی شرح بچے پیدا کرنے کی عمر میں موجود کل عورتوں کی نسبت سے نکالی جاتی ہے یعنی یہ دیکھا جاتا ہے کہ فی ہزار 15 سال سے 49 سال کی عمر کی عورتوں میں سے کتنی شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کا کلیہ کچھ یوں ہے۔

سال کی شادی شدہ خواتین کی تعداد1000 × 15-49

15-49 سال کی کل عورتوں کی تعداد

 خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کرنے والی خواتین کی شرح 

موجودہ دور میں خاندانی منصوبہ بندی کے بہت سے طریقے دستیاب ہیں ۔ کسی معاشرے میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقہ کار پر عمل کی شرح وہاں پر بالیدگی کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ یعنی جتنا خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائیگا اتناہی شرح پیدائش کم ہوگی ۔ اگر ہم دنیا میں آبادی اور بالیدگی کے رجحان کا مطالعہ کریں تو بچے پیدا کرنے کے رجحان کا خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کے ساتھ ایک گہرا تعلق نظر آتا ہے۔ مانع حمل خاندانی منصوبہ بندی کے بہت سے طریقہ کار ہیں جن میں سے چند وقتی کچھ ایک خاص عرصے تک اور کچھ ہمیشہ کے لئے حمل بچے پیدا کرنے کے عمل کو روکتے ہیں۔ مانع حمل ادویات کے استعمال کی شرح سے مراد 15 سال سے 49 سال کی عمر میں شادی شدہ عورتوں کے اندران طریقہ کار پر عمل کرنے والی عورتوں کا تناسب ہے یعنی یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی فیصد شادی شدہ خواتین مانع حمل طریقہ کار استعمال کرتی ہیں۔ اس کا کلیہ کچھ یوں ہے۔

1000× 15-49 سال کی شادی شدہ خواتین میں مانع حمل طریقہ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد

15-49 سال کی شادی شدہ خواتین کی کل تعداد

کسی بھی معاشرے میں بہت سارے عوامل ہو سکتے ہیں جو کہ مانع حمل طریقہ کار کے استعمال کرنے کے فیصلہ اور عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں جن میں سے ایک مختلف مانع حمل ادویات و طریقہ کار کی اشیاء کی سستی اور آسان دستیابی ہے۔ اگر یہ چیزیں آسانی سے ہر جگہ دستیاب ہوں تو اس شرح میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف معاشروں میں ان طریقہ کار کو استعمال کرنے کی معلومات مکمل نہیں ہوتی بلکہ بہت سی غلط باتیں مشہور ہوتی ہیں کہ مانع حمل کے استعمال سے صحت کو کسی طرح کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اگر لوگوں کو درست معلومات تک رسائی یقینی بنائی جائے تو کئی طرح کے نقطہ نظر تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہتر صلاحیتوں اور جدید علم سے آراستہ صحت کی سہولیات دینے والے افراد کی کمی بھی اس پر مکمل عمل ہوتے اور لوگوں میں خوف کی وجہ بنتے ہیں۔ مزید بر آں پدر شاہی اور عورتوں کے پاس فیصلہ کا اختیار نہ ہونا بھی خاندانی منصوبہ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

 خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کرنے والی خواتین کی شرح 

پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں درج بالا تمام عوامل کار فرما ہیں جس کی وجہ سے حکومتی کوششوں کے با وجود خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے والے افراد کی شرح کافی کم ہے۔ مزید غور کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غربت عدم دستیابی مانع حمل ادویات کے اثرات سے متعلق کئی طرح کی رائے اہم وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی رجحانات اور ان سے جڑے کئی سوالات خاندانی منصوبہ بندی کے اختیار کرنے میں حائل ہیں۔ یعنی عام طور پر ایک بڑا طبقہ آج بھی یا تو خاندانی منصوبہ بندی کو مذہبی طور پر انتہائی غلط اور نا پسندیدہ عمل گردانتا ہے یا اس سلسلے میں تذبذب کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام کو اکٹھا کر کے اس بارے میں تفصیل سے غورو غوض کے بعد کوئی متفقہ نقطہ نظر سامنے لایا جاسکے۔

بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤںکی شرح

ماؤں کا دودھ بچوں کے لئے قدرتی طور پر ایک بہترین غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا جدید دنیا میں اتنی ترقی کے باوجود کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کا یہ حق ہے کہ اسے ماں کا دودھ دستیاب ہو۔ مگر کئی وجوہات کی بناء پر ماؤں کے اس رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے جو ایک طرف تو بچے کے حق کے ساتھ زیادتی ہے جس کے اس کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں تو دوسری طرف مزید بچے پیدا کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ مائیں جو مکمل طور پر اپنے بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہوتی ہیں یعنی بچے کا مکمل انحصار یا زیادہ تر انحصار ماں کے دودھ پرہی ہو تو اس عرصے سے کے دوران مزید حمل ٹھہرنے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ اسی طرح قدرتی طور پر بچوں میں وقفہ آسکتا ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کی شرح ایسے ماپی جاتی ہے کہ ایک سال تک کی عمر کے بچوں کی ماؤں کی کل تعداد میں کتنے فیصد مائیں ایسی ہیں کہ جو بچے کو کلی طور پر اپنا دودھ پلا رہی ہیں۔ اس کا کلیہ کچھ یوں ہے۔

1000× ایک سال تک کی عمر کے بچوں کی ماؤں کی تعداد جو اپنا دودھ پلا رہی ہیں

ایک سال کی عمر کے بچوں کی ماؤں کی کل تعداد

پاکستان میں ایک طرف تو ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان ایک روایتی اور مذہبی معاشرہ ہے لیکن دوسری طرف پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں بچے ماؤں کے دودھ سے یا تو مکمل طور پر محروم رہ جاتے ہیں یا پھر بہت تھوڑے عرصے کے لئے انہیں ماؤں کا دودھ نصیب ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر مذہب کی بات کریں تو بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ اور اسلام ہر بچے کو کم از کم دو سال تک ماں کا دودھ پلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ معاشرے میں ماں کے دودھ کی اہمیت اور بچے کی صحت میں اس کے کردار پر بات کرنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔

بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤںکی شرح

ایبارشن کی شرح

عام طور پر زیادہ تر مذاہب کے نقطہ نظر کے تحت ایبارشن (اسقاط حمل کی شرح) کو ایک غلط فعل گردانا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں مرضی سے کیا گیا ایبارشن ممنوع ہے اور اس کی قانونی طور پر اجازت نہیں۔ یہ ایک طریقہ کار تو ہو سکتا ہے کہ جس سے ممکنہ پیدائش کو روکا جاسکے مگر معاشرتی طور پر ظاہرا اس کو قابل قبول نہیں سمجھا جاتا لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی نہ ہونے یا کم ہوے سے نیز غربت اور ماؤں کی کمزور صحت کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں خواتین اس عمل سے گزرتی ہیں ۔ جن حالات میں عام طور پر یہ ہو رہا ہے ، صحت کے بنیادی اصولوں سے بہت دور ہیں۔ اس کے علاوہ کم مہارت رکھنے والی خواتین جو کہ اس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتیں اس پیشہ سے وابستہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں ماؤں کی صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوشرح پیدائش کے ڈیموگرافک عوامل  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

………….شرح پیدائش کے ڈیموگرافک عوامل………….

Leave a comment