عمل تحول سے مراد ⇐ ایسا کیمیاوی عمل ہے جو خون میں موجود تمام غذائی اجزاء کو انسانی جسم کا حصہ جسم کی لحمیات چربی ہڈیاں وغیرہ بنے میں مدد دیتا ہے اور پھر سادہ کیمیاوی مرکبات میں تبدیل کر کے جسم کو توانائی بہم پہنچاتا ہے۔ تمام غذا میں ہضم ہونے کے دوران سادہ مرکبات میں تبدیل ہوتی ہیں اور پھر یہ سادہ مرکبات آنت کے ذریعے خون میں جذب ہو جاتے ہیں ۔ یہ سادہ مرکبات مختلف کیمیاوی اعمال کے ذریعے کچھ تو توانائی فراہم کرنے کے کام آتے ہیں اور کچھ جو بچ جاتے ہیں وہ جسم کے مختلف حصوں میں سٹور ہو جاتے ہیں ۔ اگر یہ حصے جسم میں سٹور نہ ہوسکیں تو خون ہی میں تیرتے رہتے ہیں اور بعد میں پیشاب کے ذریعے یا رفع حاجت کے ذریعے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔
جسم میں پانی کی کمی کے اثرات
جسم میں مختلف کاموں میں استعمال ہونے والے پانی میں توازن برقرار رہا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ جب تک یہ توازن برقرار ہتا ہے۔ جسم تمام کام خوش اسلوبی سے انجام دیتا رہتا ہے۔ جو نہی اس میں کمی واقع ہوتی ہے تو پیاس محسوس ہونے لگتی ہے۔ عام حالات میں پانی کی اس کمی کو فورا پورا کیا جاسکتا ہے اور جسم تازہ دم ہو کر دوبارہ اپنا کام شروع کر دیتا ہے لیکن بعض حالات م میں کسی جسمانی خرابی یا گرمی کی شدت سے پسینہ کے اخراج میں زیادتی یا نظام انہضام میں وقتی خرابی کے باعث جسم میں پانی کے ساتھ معدنی نمکیات کی کمی بھی ہو جاتی ہے صرف پانی کی کمی صورت میں پیشاب بہت کم آنے کی شکایت ہوتی ہے جو کہ تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ لہذا جو نہی اس قسم کی شکایت ہو تو مریض کو زیادہ سے زیادہ پانی پلوانا مقصود ہوتا ہے تا کہ گردوں میں موجود تمام انفیکشن پانی میں حل ہو کر جسم سے خارج ہو جائے ۔ پانی کے جسم میں نمکیات کی کمی صورت عموماً اسہال جیسی بیماریوں سے عمل میں آتی ہیں۔ اسہال کا مرض زیادہ تر برسات کے موسم میں لاحق ہوتا ہے جبکہ پانی کی گرمیوں اور برسات دونوں ہی موسموں میں ہو سکتی ہے۔ لہذا ایسے موسموں میں جہاں تک ممکن ہو شکنجبین کا استعمال سود مند ہوتا ہے۔
جسم میں پانی کی اضافی مقدار
جسم میں کچھ فنی خرابیوں کے باعث پانی مناسب مقدار میں استعمال نہیں ہو پاتا اور جسم کے کچھ خاص حصوں میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انسان کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے اس مرض کو استفادہ بھی کہتے ہیں۔
دل کے امراض
قوت بخش اجزاء یعنی حرارے مہیا کرنے والے غذائی اجزاء میں چکنائی بھی مختلف امراض کا موجب بن سکتی ہے جس کی کمی سے ناکافی غذائیت کی شکایت ہو سکتی ہے اسی طرح اس کی غذا میں زیادتی دل کے امراض کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ جیسے اور نری ہارٹ ڈریز اور آرتھر سکولوسینز وغیرہ۔ ایسے افراد جو بچپن ہی سے افراد ایسی چکنائی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جن میں کولیسٹرول کی بھاری مقدار ہو۔ ان کو یہ بیماری ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کچھ سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ غذا میں موجود کولیسٹرول کی بھاری مقدار ہضم ہونے کے بعد خون میں شامل ہو جاتی ہے جہاں سے خون کی شریانوں کے ذریعے مختلف حصوں اور دل تک پہنچتی ہے۔ اگر یہ کولیسٹرول آہستہ آہستہ شریانوں کے اندر کی سطح پر جمع ہونا شروع ہو جائے تو باقی ماندہ خون کو اپنی شریانوں سے گزرنے میں مشکل پیش آتی ہے جس کے نتیجے میں دل کے یہ امراض پیدا ہوتے ہیں اور شریانوں پر خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ دل کے امراض کی کچھ اور بھی وجوہات ہوتی ہیں۔
دل کے امراض کے اسباب
1- غذا میں حراروں کی زیادہ مقدار کی وجہ سے خون میں موجود چکنائی کی مقدار معمول سے زیادہ تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کو دل کے امراض لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ہو جاتی کیونکہ ان کے خون میں چکنائی کی مقدار عام آدمی کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اور موٹاپے کی بیماری کی وجہ غذاؤں میں حراروں کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ دل کے امراض کے ماہرین کے خیال کے مطابق کاربوہائیڈریٹس سے بھر پور غذا استعمال کرنے والے افراد کو بھی دل کے امراض زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ انسانی جسم خود ان کار بو ہائیڈ رئیس سے ٹرائی گلیسرائیڈ اور کولیسٹرول خود بنا سکتا ہے دل کے مریضوں کو جب ایسی غذا کھانے کو دی جائے جس میں 35 سے 40 فیصد حرارے غذا میں موجود کار بوہائیڈریٹس سے حاصل کئے جائیں تو 90 فیصد دل کے مریضوں کے خون میں چکنائی کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔ جو کہ مرض کو تقویت بخشتی ہے۔ ایسے افراد کے کھانوں میں اگر چینی گلو کوز فرکٹوز اور لیکٹوز کو چھوڑ کر 125 سے 150 گرام کے قریب کاربو ہائیڈریٹس کیلئے اگر نشاستہ والی غذاؤں کو شامل کر لیا جائے تو خون میں چکنائی کی بڑھنے والی مقدار کو کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔
دل کے امراض کا سد باب
دل کے امراض پر قابو پانے اور خون میں چکنائی کی مقدار کو معمول پر لانے کیلئے ضروری ہے کہ مریض کی غذا کو مناسب طریقے سے کنٹرول کیا جائے اور اگر مریض کو غذا کی مناسب ترتیب بھی خون میں چکنائی کی مقدار کو کم کرنے میں مدد نہ دے تو پھر کسی ڈاکٹر کے مشورے سے دوالینی ضروری ہوتی ہے۔ انسان اگر اپنی روزانہ ضرورت کیلئے 28 فیصد حرارے غذا میں موجود چکنائی ( حیوانی اور نباتاتی ) سے حاصل کرلے تو خون میں موجود چکنائی کی مقدار میں فوراً کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد جو متوازن غذا استعمال کرتے ہیں ان کے کھانوں میں موجود حراروں میں سے 25 فیصد ہی چکنائی سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ لہذا دل کے مریض کیلئے غذا ترتیب دیتے وقت اس مقدار کو اور کم کر دینا ہوتا ہے ۔ (15 سے 20 فیصد تک ) اس کے علاوہ وزن کو کم کرنا اور کار بو ہائیڈریٹس کا کم استعمال مرض پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔
استقاہ لحمی
صحت مند انسان دن میں کافی مقدار میں پانی پی کر جذب کر لیتا ہے اور غیر ضروری مقدار جلد ہی جسم سے خارج بھی کر لیتا ہے لیکن نمکیات سے پاک پانی جسم میں جذب کرنے اور خارج کرنے کی رفتار اور مقدار گردوں کے ذریعے فلٹر ہونے کا عمل اور پیشاب کو پتلا کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔ یہ حالت زیادہ تر ایسے افراد کو درپیش ہوتی ہے جو مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جسم کے کسی خاص حصے میں موجود عضلات میں پانی کا جمع ہو جانا ہی استقاہ لحمی کہلاتا ہے۔ ایسا حصہ جس کے عضلات میں پانی کی زیادتی ہو جائے اور وہ سوجن کا شکار ہو جائے تو اسے والا حصہ کہا جاتا ہے۔ کی حالت میں اگر اثر شدہ حصہ کو اگر انگلی سے ہلکا دبایا جائے تو جلد ہی وہاں ایک گڑھا نمودار ہو جاتا ہے ۔ استقاہ لحمی (ایڈ یما ) ایک ایسی علامت ہے جو جسم میں صرف پانی کی زیادتی کی وجہ سے عمل میں نہیں آتی ۔ بلکہ پانی کے ساتھ ساتھ سوڈیم بھی جمع رہتا ہے۔ جسم میں جب بھی کسی خاص غذائی جزو کی کمی کے باعث پیدا کردہ نقائص کے دوران ایڈیا ایک علامت کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ان نقائص میں میری بیری ( تھایا مین کی کمی ) اس بیماری کی پہلی علامت ٹانگوں میں پانی کی زیادہ مقدار کا جمع ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ عام حالات میں حاملہ خواتین کو بھی ایڈیما کی شکایت ہو جاتا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "عمل تحول سے مراد" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ