غذائیت

غذائیت سے مراد

غذائیت غذائیت سانس کی وہ شاخ ہے جو غذائی اجزاء کی جسم میں ضرورت موجودگی اہمیت اور غذا میں ان کی مقدار اور کوالٹی کے بارے م معلومات فراہم کرتی ہے۔

غذائیت

وضاحت

مختلف افراد کی غذائی اجزاء کی ضروریات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ دو غذا جو ایک فرد یا گروپ کیلئے غذائیت کے لحاظ سے مکمل ہے ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے فرد یا گروپ کیلئے نا کمل ہو۔ اچھی غذائیت سے بھر پور غذائیں وہ ہیں جو مختلف لوگوں کی تغذائی اجزاء کی ضروریات کو و پورا کرتی ہوں کیونکہ ہر انسان کی کام کرنے کی نوعیت خوش و خرم رہنے کی عادت اور جسمانی سے مختلف ساخت دوسرے شخص سے مختلف ہوتی ہے۔ انسانی جسم کے تمام چھوٹے بڑے اجزاء کو اگر صیح اور مناسب میں غذائی ملتے توانسانی مناسب مقدار میں غذائی اجزاء ملتے رہیں تو انسانی صحت برقرار رہتی ہے۔

اچھی صحت

ایسی صحت جو اچھی غذائیت کے استعمال سے بنی ہو جس میں صحت مند انسانی جسم کی مکمل ظاہری دماغی اور باطنی فلاح و بہبود ہو اور کسی بیماری کی کوئی علامت موجود نہ ہو۔

نا کافی  نا مکمل غذائیت 

جسم کی غذائی ضروریات کو پورا نہ کرنے والے غذائی اجزاء کی مقدار اور نا کافی غذائی نا مکمل غذائیت یا انڈر نیوٹریشن کا باعث بنتی ہے۔ نا مکمل غذائیت کی حالت کو بعض کتابوں میں صحت غذائیت کے نام سے بھی بیان کیا جاتا ہے۔ انسانی جسم کو مہیا ہونے والی غذا مقدار میں بہت زیادہ کیسے ہم پرانی علامت ظاہر ہونے کی ہیں جو کت و چیتر فارسی کی مانت میں مودار ہو جاتی ہیں۔ اس شد در سالت میں انسانی جسم کے معیاری وزن میں 1996 کی واقع ہو جاتی ہے۔

نا کافی  نامکمل غذائیت پیدا ہونے کی وجوہات

انسان کو اپنی ضرورت سے کم مقدار میں غذا میسر آتا۔ کام انتہا کی کوئی ایسی پیاری جس میں نذائی اجزا جس میں استعمال ہونے پھر جسم سے خارج ہو جائیں ایسی صورت کو نا نظام نہ نام کی ایک آنت کے کیٹر میں پیدا ہو جاتی ہے اور نا مناسب نظام تحول (Metabolism) کے دور ان کی یہ حالت پیدا ہو جاتی ہے۔  ایسی صورتحال جس میں خلیے غذائی اجزاء کا صیح استعمال نہ کر سکیں سلام گردوں اور پیشاب کی تالیوں میں خرابی کے باعث بھی نامکمل غذائیت کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔  ان تمام حالتوں میں انسانی جسم کے عضلات میں موجود چکنائی اور لحمیات ضائع ہو جاتے ہیں اور نتیجے میں نامکمل غذائیت کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔

نا مناسب غذائیت

ایسی جسمانی حالت جو بہت لیے عرصے تک کسی خاص ضروری غذائی اجزاء کی کمی یا زیادتی سے عمل میں آئے یہ حالت جسم میں کیمیاری عمل سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس کا کھوج حیاتیات کیا کے طریقوں کھانے پینے کی عادت اور جسم کے کچھ حصوں کے تاپ سے لگایا جاتا ہے۔ نا مناسب غذائیت کی حالت میں جسم کے کچھ حصوں میں غذائی اجزاء کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس صورت میں اگر ایک غذائی جز کی زیادتی ہوتی ہے تو دوسرے کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی بہتر مثال فاسفورس اور معاشی کا تناسب اور مقدار ہے ۔ فاسفوری اور کیلشیم دونوں جسم میں ایک خاص تناسب میں موجود ہوتے ہیں ۔ اگر ان کا یہ تناسب بگڑ جائے تو کیلشیم کی کمی اور فاسفورس کی زیادتی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ صورت بہت عرصے تک برقرار رہے تو نا مناسب غذائیت کی دوسری مثال قوت اور… لمیاتی نا مناسب غذائیت ہے۔ یہ ہماری لحمیات اور توانائی والے تغذائی اجزاء کی جسم میں کمی سے رونما ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دونوں ضروری غذائی اجزاء میں خاصی اور در حقیقت نا کافی غذا کا نتیجہ ہوتی ہے۔

نشو ونما کو پرکھنے کے طریقے

بچوں کی متوازن نشو و نما اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ نیچے کو مناسب تمارا مل رہی ہے اہدا بچے کی نشو ونما کا اندازہ لگانا اور اصل بچے کی صحت اور غلا کو پر کھتا ہوتا ہے۔ بچے کی نشو و نما پر کھنے کا صحیح طریقہ پانچ چیزوں پر مصر ہے۔

  • وزن میں مناسب اضافہ اور اس کو ناپنا
  • لمبائی یا قد ناپنا
  • بازو کی لمبائی ناپنا
  • جلد کی موٹائی ناپنا 
  • سر اور چھاتی کی گولائی ناپنا

بچوں کے جسم کا وزن اور اس کو ناپنے کا طریق کار

بچوں کے وزن میں کی یا زیادتی سے ان کی صیح نشو و نما کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اگر پیدائش کے وقت ایک بچے کا وزن تین کلو گرام ہے  جو کہ عمو پاکستانی صحت مند بچوں کا ہوتا ہے اور وہ معیاری بیچے کہلاتے ہیں تو پیدائش کے بعد چھ مہینوں میں اس کا وزن تقریبا دو گنا ہو جانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ مناسب نڈا کے ملنے کی صورت میں چھ ماہ کی عمر کے نازل بچے چھ کلو گرام کے ہوتے ہیں اور ایک سال میں بچے کا وزن تقریبا 9.5 کلوگرام یا 10.5 کلو گرام ہو جاتا ہے۔ بچوں میں لڑکوں کا وزن 12 کلوگرام بھی مناسب وزن ہوتا ہے۔ بچے کے وزن میں اضافے کی رفتار رکھ اس طرح سے ہوتی ہے۔ ایک سال کے بعد وزن آہستہ آہستہ بڑھتا ہے یعنی دو کلو گرام فی سال ۔ بچے کا دوران اس وقت کیا جاتا ہے جب اس کے بدن پر کم سے کم کپڑے ہوں ۔ وزن کرنے کے بنانے کی قسم کے ہیں کر نکلنے والے سپر تک دار پیالے آج کل کافی مقبول ہیں کیونکہ اس کے استعمال کا طریق آسمان ہوتا ہے اور یہ دیا نے خاص طور پر پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا وزن کرنے کیلئے آسان اور مناسب ہوتے ہیں۔ نیا نہ ایک کھونٹی کے ذریعے پا ملک کے فیتوں سے منسلک ہوتا ہے۔ بچے کو فیتوں یا تو کرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وزن اس وقت کرنا مناسب ہوتا ہے جب بچہ اس میں لیگ رہا ہو۔ وزن کرنے سے پہلے سوئی کو ہمیشہ صفر پر رکھنا ضروری ہوتا ہے اور سکیل کو وزن کے ساتھ چیک کر لینا بھی مناسب ہوتا ہے۔ وزن کرنے کے بعد نشو ونما کے چارٹ پر معیار کے مطابق وزن کے لحاظ سے عمر کا انداز و لگایا جانا چاہیے۔

بچوں کے جسم کا وزن اور اس کو ناپنے کا طریق کار

بچوں کے جسم کا وزن اور اس کو ناپنے کا طریق کار

بچے کی عمر کا اندازہ لگانا

شہروں کے کچھ علاقوں اور دیہات کے زیادہ تر علاقوں میں ماؤں کو اپنے بچے کی تاریخ پیدائش یا نہیں ہوتی لیکن ایسی ماؤں کواپنے بچوں کی پیدائش کا سال یاد ہوتا ہے۔ ایسی جگہوں پر مقامی واقعات سے بچے کی پیدائش کے مینے اور سال کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کے ایسے واقعات کی تفصیل ایک کیلنڈر کی ہی ہوتی ہے  جو کچھ اس طرح سے ہوتی ہے۔ 

  • زرعی اہمیت
  • برسات خزاں بہار سردی گرمی
  • مقامی موسم
  • اسلامی مہینے
  • رمضان محرم شعبان ربیع الاول
  • مقامی تقریبات
  • میلہ مویشیاں عید شب برات پاکستان ڈئے شب معراج
  • خاص واقعات
  • انتخابات، سیلاب، طوفان، جنگ، زلزله و غیره

بچے کی عمر کا اندازہ لگانے کے بعد اس کا وزن کیا جاتا ہے اور پھر چارٹ کی مدد سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا بچہ عمر کے لحاظ سے صحیح نشو و نما پا رہا ہے یا نہیں ۔

بچے کا قد یا لمبائی ناپنے کا طریقہ

 ایک معیاری ہے کا وزن پیدائش کے وقت تین سے چار کلو گرام ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی تقریبا 50 سے 52 سینٹی میٹر  تقریبا ایک فٹ آٹھ انگا سے ایک ف ساڑھے آٹھ انچ ہوئی چاہیے ، جب دو ایک سال کا ہو جائے اور اس کا وزن 15 کلوگرام ہوتو اسکا قد 54 سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔ اگر 72 ملی میٹر دوت پونے پانی رئی اور 0 سینٹی میٹر تقریبا دولت پانے ہاتھی الا سے کم ہو تو پھر معلوم ہو جاتا ہے کہ بچے کی نشو نما صیح طریقے پر نہیں ہورہی اور شاید بچہ غذائیت کی کی کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس کا قد مناسب رفتار سے نہیں بڑھ رہا۔ بہت چھوٹے بچوں کا قد نانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کو سیدھا ایک لکڑی کے تختے پرلٹایا جائے ۔ پیر کی طرف محمودی لکڑی رکھ کر آگے پیچھے بلائی جاتی ہے۔ حتی کہ وہ بچے کے پیروں کو چھونے لگتی ہے ۔ پھر سر اور پیر کے درمیانی لمبائی لوٹ کر لی جاتی ہے۔ قد کے حساب سے مناسب وزن مکمل نشو و نما کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر بچہ قد کے حساب سے صحیح وزن کا ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ بچہ صحت مند ہے۔

بازو کی گولائی اور اس کو ناپنا

پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے بازو کی گولائی میں نسبتا کم فرق واضح ہوتا ہے لیکن جوں ہی بچہ بڑا ہوتا ہے یہ تبدیلی نمایاں ہونے لگتی ہے۔ مثلا اچھے بازو میں چکنائی کی جگہ لینے لگتے ہیں اور بازومونے اور مضبوط ہونے لگتے ہیں۔ بازو کی گولائی میں کمی سے فلہ ائیت کی کمی کے شکار بچوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بازو کی گولائی ناپتے وقت بچے کی جنس کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ لڑکوں کے باز ولڑکیوں کی نسبت اور زیادہ گول ہوتے ہیں حالانکہ یہ فرق بھی زیادہ نمایاں نہیں ہوتا شام ایک سال کی عمر میں لڑکے کے بازو کی گولائی اوسطا 12.8 سے 16.0 سینٹی میٹر تک ہو سکتی ہے جبکہ لڑکی 12.5 سے 15.6 تک ہوگی اس سے کم گولائی بچوں میں غذائیت کی کمی کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ بازو کی گولائی ناپنے کیلئے ضروری ہے کہ بچے کا باز وسید ھا نیچے کی طرف انکا ہوا ہو۔ ناپنے والے فیتے کو بازو کے اوپر والے حصے کے درمیان میں پایا کس کر پکڑیں اور ریڈنگ لوٹ کر لیں۔

سر اور چھاتی کی گولائی کا آپس میں تناسب

مرا در چھاتی کی گولائی میں تناسب معلوم کرنے سے غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کا کھوج جاتا۔ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ خاص طور پرنوزائیدہ بچ کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ ایک صحت مند ہے اور پیدائش سے کام کی عمر کے دوران اس کی چھاتی کے اپ سے تقریبا 2 سینٹی میٹر یا ہوتا ہے جبکہ 6 سے 9 ماہ تک یہ دونوں ٹاپ برابر ہو جاتے ہیں ۔ 9 ماہ کے بعد چھاتی کا تاپ آہستہ اہت بہو سے گاتا ہے اگر بچے کومناسب نام ہی ہو تو پھر سراور چھاتی کا تاپ لامینٹے کے بعد بھی باہر رہتا ہے۔ اسے اما یک اگر چھاتی کے باپ سے رکا نا قدرے زیادہ ہوتو اپنا مناسب غذائیت کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سوکھے کی بیماری میں نے کا سرباقی جس کی بہت زیادہ بڑا نظر آتا ہےجو کہ خطرے کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ اسکا صورت میں قریبی شفا خانے سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔

جلد کی موٹائی ناپنا

جسم میں چکنائی کی مقدار معلوم کرنے کا سادہ طریقہ جلد کی موٹائی نا پتا ہے اگر جلد ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جس میں ایسی توانائی موجود ہے جو جسم میں کام کرنے کے دوران استعمال نہیں ہوتی اور وافر مقدار میں جسم کے اندر جمع ہو چکی ہے ۔ اگر موٹائی ضرورت سے کم ہے تو اس کا مطلب ہے جسم میں چکنائی کی کمی ہے اور ضرورت کے وقت جسم سے توانائی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ جلد کی موٹائی ناپنے کیلئے ضروری ہے کہ بازو کے اوپر والے حصے کے عضلاتی پیچھے کو تر اسیب سے ناپا جائے ۔ اس کے علاوہ شانے کی بدی کے اوپر کے بچوں سے بھی جلد کی موٹائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موٹائی ناپنے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی معیاری پیمانہ استعمال کیا جائے۔ عموما یہ پیا نہ لینگ  کیلیپر استعمال کیا جائے جو بہتر نتائج بر آمد کرتا ہے۔ خیال رہے کہ لڑکیوں میں لڑکوں کی نسبت زیادہ چکنائی  موجود ہوتی ہے اگر چہ یہ فرق بہت کم ہوتا ہے جلد کی موٹائی کی ریڈنگ لینے کے بعد اس کا معیاری مقداروں سے موازنہ کر لیا جاتا ہے۔ ایسے طریقے سے بڑوں کی بھی صحت اور نشو ونما کی رفتار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "غذائیت"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment