قرآن میں اجماع کی بنیاد

قرآن میں اجماع کی بنیاد ⇐ قرآن حکیم میں اجماع کی بنیاد درج ذیل آیات کو بنایا گیا ہے ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر تریسٹھ میں ارشاد ہے اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو اولی الامر ہیں۔ (النساء  63)

قرآن میں اجماع کی بنیاد

سچائی کی شہادت

ایک اور جگہ ارشاد ہے اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط ( نہایت متعدل ) بنایا تاکہ تمام انسانوں کیلئے سچائی کی شہادت دینے والے بن جاؤ۔ ( البقر 1 237)

اجماع

اجماع کے سلسلے میں رسول اکرم سے کیا گیا۔ معاملات میں آپ ان سے مشورہ کر لیا کیجئے پھر جب مشورہ کے بعد کسی بات کا عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ (آل عمران (153)

قانونی معاملات

اس آیت کے سیاق وسباق موقع محل اور انداز بیان سے اجماع کی اصلیت پر روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم کی اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام سے قانونی معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے ۔ نیز قرآن حکیم میں صحابہ اور دیگر اہل ایمان کا طرز عمل یہ بیان کیا گیا ہے

و امرهم شورى بينهم” ترجمہ ایمان والوں کے معاملات با ہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں ۔”

اگر اجماع سے کسی مسئلہ کا حل تلاش کر لیا جائے اور عہد متعلقہ کے علماء اس میں اختلاف رائے رکھتے ہوں تو ایسا اجماع اجماع قطعی کا اثر رکھے گا۔ اگر کچھ فقہاء اختلاف کریں اور ان کی تعداد زیادہ نہ ہو تو جماعت کثیر کا فیصلہ جائز اور واجب العمل ہوگا۔ البتہ وہ اس میں قطعی نہ ہوگا کہ اس کا انکار کرنے والا کافر ہو جائے ۔

اسلامی قانون کا چوتھا مآخذ قیاس

فقہ اسلامی کا چوتھا مآخذ قیاس ہے۔ اس کے لغوی معنی اندازہ کرنا مطابق بنانا اور مساوی کرنا ہیں۔ فقہا کی اصطلاح میں علت کو بنیاد بنا کر سابقہ فیصلہ اور نظیر کی روشنی میں نئے مسائل کو حل کرنے کو قیاس کہتے ہیں ۔ گویا کہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کی دو صورتیں ہیں۔

اسلامی قانون کا چوتھا مآخذ قیاس

مسئلے کا حل

جو چیزیں قرآن وسنت یا اجماع سے ثابت ہیں ان کے الفاظ و معنی میں غور کیا جائے اور فقہاء کے بیان کردہ طریقوں کے مطابق نئے مسئلے کا حل دریافت کیا جائے ۔ اس طرح بہت سے مسائل ظاہری الفاظ و معنی ہی سے حل ہو جا ئیں گے اور زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہ ہوگی۔

علت

اگر حالات و مسائل کا پھیلاؤ وسیع اور پیچیدہ ہوتو بسا اوقات محض اس سے کام نہیں چلتا۔ ایسی صورت میں مجبوراً قرآنی حکم کی روشنی میں مسئلے کا حل ڈھونڈا جائے گا گہرائی میں جا کر اس کی علت نکالی جائے گی ۔

قیاس

اس علت کی نوعیت و کیفیت پر غور کیا جائے گا۔ پھر نئے مسئلے کی علت دیکھی جائے گی ۔ اگر دونوں کی علتوں میں مماثلت ہوگی تو پہلے والا یا سابق حکم اس نئے مسئلے پر بھی جاری کر دیا جائے گا۔ اسی عمل کا نام قیاس ہے۔

قیاس کی اہمیت و ضرورت

قیاس کی ضرورت اکثر پیش آجاتی ہے ۔ ایک طرف اصول وکلیات ہیں جو اپنے ظاہری مفہوم میں محدود ہیں اور دوسری طرف حالات و واقعات اور زمانے کے تغیرات ہیں۔ اس کے نتیجے میں نئے مسائل سامنے آتے ہیں ۔

تصریحی احکام

ایسی صورتحال میں بدیہی طور پر اصول و کلیات اور تصریحی احکام کے عقلی مفہوم میں غور وفکر اور ان کی روح اور مزاج سے واقفیت حاصل کر کے انہیں اس حد تک وسیع کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کو اپنے اندر سمو سکے۔

اسلامی قانون کے ضمنی مآخذ 

اسلامی قوانین کے ضمنی مآخذ میں استحسان استدلال استصلاح اور اجتہاد شامل ہیں۔

استحسان

قیاس پرمبنی حکم کو ترک کر کے ایسا حکم اختیار کرنا جس میں لوگوں کیلئے نرمی کا پہلو نمایاں ہو۔ اس کے لغوی معنی کسی بات یا شے کو اچھا اور مستحسن سمجھنا ہے۔

استحسان

استدلال

جب کسی بھی مسئلہ کا حل بیان کئے گئے قوانین میں نظر نہیں آتا تو فقہا ، بعض اوقات استدلال کی بھی اجازت دیتے ہیں۔

استصلاح

مصالح مرسلہ پر فقہی احکام کی بنیاد رکھنے کا نام استصلاح ہے۔ مصالح مرسلہ میں وہ مصلحت داخل ہے جس کا تعین یا خاص نوع کی وضاحت شریعت نے نہ کی ہو اور جس سے فوائد کا حصول اور برائیوں سے اجتناب مطلوب ہو۔

اجتہاد

جن معاملات و مسائل کا حکم شریعت میں مذکور نہ ہو۔ شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کی روشنی میں ان کا شرعی حکم معلوم کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔

اسلامی اصطلاح

اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد مسلمان فقہاء کا قرآن سنت کو مدنظر رکھ کر کسی در پیش مسئلے کے حل کیلئے کوشش کرنا ہے جو قرآن وسنت میں واضح طور پر موجود نہ ہو۔ اجتہاد کا لفظی معنی ہے کوشش کرنا جدوجہد کرنا ۔

اجماع کے احکام

فقہ کی رو سے اجتہاد کا معنی ہے ایک فقیہ کا اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن حدیث اور اجماع کے احکام سے کسی ایسے مسئلے کے بارے میں قانون کا منشا معلوم کرنا، جس کے بارے میں قرآن وحدیث سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملتی ہو اور اجماع نے بھی اس کے بارے میں فیصلہ نہ دیا ہو۔ یہ بات یاد رہے کہ جن معاملات کا فیصلہ اجماع سے ہو چکا ہو ان کے بارے میں اجتہاد نہیں کیا جاسکتا ۔

اسلام کی گہری محبت

مجتہد نہ صرف عالم ہوتا ہے بلکہ اسے قیاس کا فن بھی آتا ہے ۔ سچا اجتہاد ہمیشہ اسلام کی گہری محبت کا نتیجہ ہوتا ہے اور وہ اس شریعت کی ایک قدرتی اور بے ساختہ نشو و نما کی صورت اختیار کرتا ہے جو حضور اور صحابہ نے ہمارے لئے چھوڑی ہے۔

اسلام کی گہری محبت

ملت اسلامیہ

اس صورت میں ملت اسلامیہ نئے شرعی قواعد اور احکام وضع کر سکتی ہے تاہم اجتہاد میں وہ لوگ حصہ لے سکتے ہیں جو اس کے اہل ہوں یعنی وہ علمائے کرام جنہیں قرآن وسنت پر عبور حاصل ہو ۔ اجتہاد انفرادی بھی ہو سکتا ہے۔

غیر اسلامی نظریات

اجتہاد یہ نہیں ہے کہ اسلام کے احکام کو اس طرح بدل دیا جائے کہ وہ ہمارے ان خیالات اور تصورات کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں جو ہم نے غیر اسلامی نظریات سے ادھار لے رکھے ہیں اور جن کو ہم دل سے چاہتے ہیں۔

پسماندہ معاشرے کے زیر اثر

یہ تو شریعت کی تعریف ہے جو ہم ایک پسماندہ معاشرے کے زیر اثر کرنا چاہتے ہیں یا ایک ایسی کوشش ہے جس سے ہم دوسرے ( غیر اسلامی نظریات )کو جہاں تک ہو سکے اسلامی قرار دے دیں۔

مجتہد کی صفات

ایک اول درجے کے مجتہد میں درج ذیل صفات ہونی چاہئیں

بالغ ہو۔

سمجھ دار ہو صاحب فراست ہو۔

ایک مجتہد کو قرآن کا علم ہونا چاہیے۔ معانی کا بھی اور مفہوم کا بھی ۔ اسے علوم حدیث کا بھی علم ہونا چاہیے۔

عربی زبان گرامر اور محاورہ پر اسے عبور ہو۔

 قانون کے سرچشموں اور فقہ کے اصول کا علم رکھتا ہو۔

اصول شرع سے واقف ہو۔

تاریخ اور منسوخ کا علم رکھتا ہو۔

آیات کے شان نزول سے آگاہ ہو۔

احادیث میں سے صحیح ضعیف وغیرہ کو جانتا ہو۔

حدیث کے راویوں کی تاریخ سے واقف ہو۔

 آئمہ حدیث کے کاموں سے واقف ہو۔

منطبق

دوسرے درجے کا مجتہد وہ ہوتا ہے جو ایک مذہب کا مجتہد ہو جیسے حنفی یا شافعی وغیرہ مسلک کا اور اسے اپنے فرقہ ( منسلک ) کے بانی کے اصولوں کو خاص مسائل پر منطبق کرنا آتا ہو۔

ازدواجی معاملات

اس سے کم درجہ کے مجتہد وہ ہیں جو فتوے جاری کرتے ہیں کہ کسی مسئلے میں کون سے مسلک کی رائے درست ہے۔ بعض مجتہد علم کی کسی ایک شاخ میں مہارت رکھتے ہیں جیسے وراثت ازدواجی معاملات وغیرہ۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوقرآن میں اجماع کی بنیاد  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

…….قرآن میں اجماع کی بنیاد   …….

Leave a comment