مالیاتی مسلک پالیسی ⇐ موجودہ زمانے میں ہر حکومت اپنے عوام کی معاشی بہبود کیلئے اہم خدمات انجام دیتی ہے۔ اس مقصد کیلئے اسے ایک طرف آمدنی درکار ہوتی ہے جسے وہ محصولات اور قرضہ کے ذریعہ حاصل کرتی ہے اور دوسری طرف اسے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے مختلف نوعیت کی خدمات مہیا کرنے اور معاشی ترقی کے منصوبوں کی تشکیل کے لئے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ حکومت کی ان ہی سرگرمیوں کو مالیاتی مسلک کا نام دیا جاتا ہے۔ گویا مالیاتی مسلک کا تعلق حکومت کی مندرجہ ذیل سرگرمیوں سے ہے۔
- حکومت کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی
- حکومت کے اخراجات
- حکومت کا قرضہ
- حکومت کا انتظام قرضہ
حکومت کی آمدنی
مالیاتی مسلک کے ضمن میں حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ محصولات ہیں ۔ یہ وہ لازمی ادائیگیاں ہوتی ہیں جو شہریوں کو ذاتی مفاد کی بجائے عمومی اور اجتماعی مفاد کیلئے کرنی پڑتی ہیں۔
سرکاری اخراجات
حکومت عوام کی معاشی و سماجی بہبود کے لئے ملک میں پیدا آوری سرگرمیوں کی رفتار تیز کرنے اور سرمایہ کاری کا معیار بلند کرنے کیلئے اخراجات برداشت کرتی ہے۔ سرکاری قرضہ موجودہ زمانہ میں اکثر ممالک میں سرکاری قرضہ بھی حکومت کے مالیات کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ معمول کے ذرائع آمدنی سے حکومت کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں کئے جانے والے اخراجات کو پورا کر سکے۔ بعض ہنگامی ضرورت مثلاً جنگ اور سیلاب و زلزلہ جیسی آفات سماوی کے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے بھی قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
حکومت کا انتظام قرضہ
معیشت پر قرضوں کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کوان کی وصولی اور ان کی واپسی وغیرہ کا پوری احتیاط کے ساتھ انتظام کرنا پڑتا ہے تا کہ لوگوں کا حکومت پر اعتماد قائم رہے۔ انتظام قرضہ کا تعلق حکومت کفالتوں اور تمسکات کے اجراء شرائط قرضہ کے تعین اور اس کی واپسی کے وقت اور طریق کار سے ہوتا ہے۔
مالیاتی مسلک کی اہمیت
وسائل کا تعین
مالیاتی ملک کے ذریعہ حکومت مالی وسائل کا رخ کم پیدا آور شعبوں سے زیادہ پیدا آور اور سلامتی لحاظ سے زیادہ مفید شعبوں کی طرف موڑ سکتی ہے۔ حکومت جس شعبہ میں اپنے اخراجات میں اضافہ کرتی ہے، اس میں معاشی سرگرمیوں کے لئے سازگار ماحول اور ضروری لوازمات وجود میں آجاتے ہیں۔ اس سے ملکی سرمایہ کاروں کا اس شعبہ کی طرف میلان ایک قدرتی امر ہے۔
بہتر تقسیم دولت
مالیاتی مسلک کے ذریعہ حکومت ملک میں تقسیم دولت کے نظام کو بہتر بناسکتی ہے۔ اس مقصد کیلئے بڑی بڑی پانے والے طبقات کے مفاد میں آمد نیوں پر متزائید محصول ( عائد کر کے اور ان محاصل کو کم آمدنی خرچ کر کے آمدنیوں میں پائے جانے والے فرق کو کم کیا جاتا ہے۔
تشکیل سرمایہ
پسماندہ اورترقی پذیر ممالک عمومی غربت وافلاس کے باعث قلت سرمایہ کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ افلاس کے شیطانی چکر سے نجات حاصل کرنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ ان میں تشکیل سرمایہ کے لئے مالیاتی مسلک کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہے کہ حکومت اشیائے تعیش اور غیر ضروری صرف کی اشیاء پر بھاری محصولات عائد کر کے اپنے محاصل کو بڑھائے اور پھر اس آمدنی کو ملک کے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کیلئے استعمال کرے۔
افراط زر پر قابو پانا
ترقی پذیر ممالک کی اکثریت افراط زر سے دو چار ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں تشکیل سرمایہ کے عمل میں سخت دشواریاں پیش آتی ہیں مالیاتی مسلک کو افراط زر پر قابو پانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت محصولات کے ذریعہ زائد قوت خرید کو عوام کے ہاتھوں سے نکال کر اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔
تجارتی دوروں کی شدت کو کم کرنا
تجارتی دور سرمایہ دارانہ آزاد معیشت کا خاصا بن – چکے ہیں۔ ان سے مکمل طور پر نجات تو ممکن نہیں تا ہم ان کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ معیشت کے توسیعی دور میں فاضل میزانیہ کے ذریعہ آمدنی کو اخراجات سے زیادہ رکھ کر حکومت زر کی زائد رسد گوگردش سے نکال افراط زر سے کر ملک کو افراط زر کے گرداب سے بچا سکتی ہے۔ اس کے برعکس جب کساد بازاری کے زمانے میں آمدنی کے مقابلہ میں اخراجات میں اضافہ کر کے زر کی رسد کو بڑھایا جاتا ہے جس سے آمدنیوں اور روزگار میں اضافہ ہوتا ہے۔
مالیاتی پالیسی کے مقاصد
مالیاتی ملک حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل مقاصد خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔
- قیمتوں میں استحکام پیدا کرنا
- صرف کے معقول معیار کا حصول
- آمدنی اور روزگار کے خاطر خواہ معیار کا حصول
- مناسب معاشی ترقی کا حصول
- توازن ادائیگی کو متوازن رکھنا
- آمدنی کی بہتر تقسیم کا حصول
اب ہم ان میں سے ہر ایک مقصد کی وضاحت کریں گے۔
قیمتوں میں استحکام
اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں تیز رفتاری سے اتار چڑھاؤ معیشت کو متزلزل کر دیتا ہے جس سے معاشی سرگرمیوں پر نہایت برا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ قیمتوں کی سطح میں استحکام پیدا کیا جائے۔ اس استحکام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیتوں کی ایک ہی سطح کو ہمیشہ کیلے برقرار رکھا جائے (یہ بات نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مطلوب اگر اور پسندیدہ قیتوں میں استحکام کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ قیمتیں اگر چڑھیں تو آہستہ روی سے اور اگر کم ہوں تو بھی آہستہ رانی سے اس مقصد کے حصول کے لئے مالیاتی مسلک پر مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب اشیاء کی قیمتوں میں عمومی سطح بلند ہونے گئے تو حکومت لوگوں پر نے محصولات لگا کر یا پرانے محصولات کی شرح بڑھا کر ا ئد قوت خرید کو عوام کے ہاتھوں سے نکال تمھا۔ سلح پست ہو جائے جیسا کہ عام طور پر تفریط زر ہے۔ اس سے اشیاء کی طلب کم ہو جاتی ہے اور قیمتوں میں اتار کارجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب قیمتوں کی عمومی سطح پست ہو جائے جیسا کہ عام طور پر تفریط زر کے دور میں ہوتا ہے تو حکومت لوگوں کی قوت خرید اور طلب میں اضافہ کرنے کے لئے اپنے اخراجات میں اضافہ کر دیتی ہے جس سے روز گار اور نئی آمد نیاں پیدا ہوتی ہیں اور دوسری طرف محصولات کی شرح کو کم کر دیا جاتا ہے۔ اس سے لوگوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے جو قیمتوں میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔
صرف کے معقول معیار کا اصول
معیشت کے فروغ اور استحکام کے سلسلہ میں صرف کا معیار بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ملک میں لوگوں کا معیار صرف بلند ہوگا تو اس سے وہاں بچتوں کا معیار گر جائیگا ۔ جس سے سرمایہ کاری کیلئے مطلوبہ وسائل حاصل نہ ہو سکیں گے۔ ان حالات میں حکومت لوگوں پر محصولات عائد کر کے ان کی قوت خرید کو کم کر سکتی ہے۔ حکومت قرضوں کے ان حالات میں حکومت لوگوں پر والا کام کر کے ان کی خرید کم کرسکتی ہے۔ کے اجراء کے ذریعہ بھی لوگوں کے میلا ان صرف کو کم کر سکتی ہے۔ کیونکہ بعض لوگ اپنی آمدنی کو منافع بخش بنانے کے لئے حکومت کی یوں کے ان مری کوکم کرتی ہے۔ کیونکہ بعض کو اپنی آمدنی کو نافع مال بنانے کے لئے کی اجراء کے ذریعہ بھی کے میان صرف کوکم کرسکتی ہے۔ کومنابع کفالتیں اور تمسکات خرید لیتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر صرف کا معیار پست ہو جائے اور بچتیں مطلوبہ سرمایہ کاری سے تجاوز امتی اور مکان خرید لیتے ہیں۔ اس کے ریس اکر صرف کا معیار بہت ہو جائے اور سرمایہ کاری سے تجاوز کر جا ئیں تو ملک میں تفریط زر کے رجحانات پیدا ہو جائیں گے اور بیروزگاری کا دور دورہ ہونے لگے گا۔ ان حالات میں ضروری ہوگا کہ حکومت لوگوں کی قوت خرید کو بڑھائے ۔ اس مقصد کے لئے حکومت ایک طرف بعض محصولات معاف کر کے اور کی کم کر کے عوام خرید بڑھاسکتی ۔ بعض محصولات کی شرح کم کر کے عوام کی قوت خرید کو بڑھا سکتی ہے۔ کم کر کے کی کو بڑھاسکتی ۔
آمدنی اور روزگار کے خاطر خواہ معیار کا حصول
ترقی یافتہ ممالک میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ معیشت مکمل روزگار کے معیار پر قائم رہے اور اس میں افراطی و تفریطی رخنے رونما نہ ہوں ۔ مالیاتی مسلک اس سلسلہ میں بڑا اہم اور مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ افراطی رخنہ کی صورت میں حکومت محصولات کو بڑھا دیتی ہے۔ اور اپنے اختراریات میں تخفیف کر دیتی ہے۔ اس طرح زیر گردش زائد زرعوام کے ہاتھوں سے نکل کر حکومت کی تحویل میں آجاتا ہے۔ اور اس کی معیشت مکمل روزگار کے اس معیار پر آجاتی ہے جو افراط زر کی آلائش سے پاک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر معیشت میں تفریطی رخنہ پیدا ہو جائے تو حکومت اپنے اخراجات بڑھا دیتی ہے اور نئے ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کر دیتی ہے۔ اس سے نئے روزگار اور نئی آمدنیاں پیدا ہوتی ہیں اور معیشت مکمل روزگار کے معیار کی طرف مائل بہ پرواز ہونے لگی ہے۔
آمدنی کی تقسیم کے خاطر خواہ نظام کا حصول
مالیاتی مسلک کے ذریعہ دولت کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت زیادہ آمدنیاں رکھنے والوں پر متزائید شرح سے بھاری محصولات عائد کر کے ان کی قوت خرید کو کم کر سکتی ہے اور ان محاصل کو کم آمدنی پانے والے افراد کی بالواسطہ اور بلا واسطہ امداد پر خرچ کر کے ان کی معاشی حالت کو بہتر بنا سکتی ہے۔
مناسب معاشی ترقی کا حصول
کسی ملک کی معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں بھی مالیاتی مسلک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی سب سے بڑی ضرورت معاشی ترقی کی بلند شرح کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر اس صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما ہو تو وہ فوری طور پر مالیاتی مسلک کے ذریعہ اس کا ازالہ کر لیتے ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں زیادہ اہم مسئلہ ترقی پذیر ممالک کو در پیش ہے۔ جو غربت و افلاس کے باعث سرمایہ کی قلت اور قوت خرید کی کمی ( یعنی مؤثر طلب کی کی) سے دو چار ہیں۔ ان ممالک میں حکومت نجی شعبہ کی پیداواری سرگرمیوں کو فروغ دینے اور اس میں سرمایہ کاری کی تحریک پیدا کرنے کے لئے محصولات میں مراعات دے سکتی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں حکومت دیگر ذرائع کے علاوہ تحویل خاسر کے ذریعہ بھی ترقیاتی منصوبوں پر اپنے اخراجات بڑھا کر معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرسکتی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "مالیاتی مسلک پالیسی" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ