مالیاتی مسلک کی حدود ⇐ موجودہ زمانے میں مالیاتی مسلک کو مخصوص جواب: مالیاتی مسلک کی حدود مقاصد کے حصول کیلئے وسیع پیمانے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم بعض حالات اور عوامل ایسے ہیں جو اس کی کامیابی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہیں مالیاتی مسلک کی حدود کا نام دیا جاتا ہے۔ ان حدود کو ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔
سرکاری منصوبوں میں تبدیلی کی مشکل
حکومت تجارتی نشیب وفراز پر قابو پانے کے لئے اپنے اخراجات میں کمی بیشی کے جو منصوبے تیار کرتی ہے انہیں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ملک کے معاشی حالات میں تغیرات بالعموم رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن جو منصوبہ ایک دفعہ شروع کر دیا جائے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔
منصوبہ پر عملدرآمد کے وقت کے تعین میں وقت
کسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں وقت کا عنصر بہت اہمیت کھینچ لیا جائے۔ رکھتا ہے لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ منصوبہ پر عملدرآمد کب کیا جائے یا کس زیر تعمیر منصوبہ سے کب ہاتھ کھینچ لیا جائے۔
نجی سرمایہ کاری کا غیر یقینی رخ
سرکاری اخراجات یا محصولات کی پالیسی نجی سرمایہ کاری کے مخالف رخ کی بنا پر بے اثر ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کساد بازاری کے دور میں اگر حکومت اپنے اخراجات بڑھا دے لیکن مجھی سرمایہ کار سے کساد بازاری کے خطرے کی علامت سمجھ کر متوحش ہو جا ئیں تو صورتحال سدھرنے کی بجائے اور بگڑ جائیگی۔
محصولات میں تبدیلی کی مشکلات
حکومت کے لئے حسب منشار محصولات میں تبدیلی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جمہوری ملکوں میں عام طور پر حصولات میں اضافہ کرنے کے لئے متفقہ کی منظوری حاصل کرنی پڑتی ہے۔ محصولات میں اضافہ کی تجاویز پرعوامی اور سیاسی حلقے شدیدردعمل کا اظہار کرتے ہیں جس سے بعض اوقات حکومت کے لئے سخت مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
میزانیہ
یا بجٹ حکومت کا ایسا گوشوارہ ہوتا ہے جس میں ایک سال کیلئے اس کی آمدنی اور خرچ کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ وفاقی طرز حکومت میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہر سال اپنا الگ الگ میزانیہ بناتی ہیں۔ جس میں ان کی آمدنی اور اخراجات کی مکمل تفصیل موجود ہوتی ہے۔ کسی حکومت کا میزانیہ اس کی معاشی حکمت عملی اور معاشی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس لئے اسے اندرون ملک اور بیرون ملک ایک اہم دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ ملک کی معیشت پر اس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں اور اس کے ذریعہ ملکی وسائل کا رخ متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تقسیم دولت کے نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ میزانیہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
فاضل میزانیہ
میزانیہ اس وقت فاضل کہلاتا ہے جب میزانیہ حاصل میں حکومت کی متوقع آمدنی اس کے متوقع اخراجات سے زیادہ ہو۔ میزانیہ حاصل کی فاضل آمدنی کو حکومت ترقیاتی میزانیہ میں منتقل کر کے اسے ملکی ترقی کیلئے استعمال کرتی ہے یا پھر اسے اپنے قرضوں کی واپسی وغیرہ کے لئے استعمال کرتی ہے۔
خسارہ میزانیہ
جب میزانیہ محاصل میں حکومت کے متوقع اخراجات اس کی متوقع آمدنی سے زیادہ ہوں اسے خسارہ میزانیہ کہا جاتا۔ میزانیہ کہا جاتا ہے۔ ان زائد اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جہاں ایک طرف حکومت نے محصولات عائد کرتی ہے اور پرانے محصولات کی شرح میں اضافہ کرتی ہے وہاں دو قرضوں کا سہارا بھی لیتی ہے۔ اس کے علاوہ تحویل خاسر کی پالیسی بھی التیار کرتی ہے۔
متوازن میزانیہ
جب حکومت کی میزانیہ محاصل کی آمدنی اور خرچ برابر ہوں تو اسے متوازن میزانیہ کہا جاتا ہے۔ نظری طور پر متوازن میزانیہ کو بہترین پالیسی قرار دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر میزانیہ شاید ہی متوازن ہوتا ہے۔
میزانیہ کی تیاری
میزانیہ کی تیاری ایک فنی عمل ہے۔ حکومت کے تمام شعبے ایک خاص ضابطے کے تحت آئندہ سال کے لئے اپنی آمدنی اور خرچ کی مفصل رپورٹ تیار کر کے وزارت مالیاتکو بھیج دیتے ہیں۔ آمدنی اور خری کے ان تخمینوں میں موجود ہ ذرائع سے آمدنی اور معرض وجود میں آنے والے نئے ذرائع سے آمدنی شامل ہوتی ہے۔ اس طرح اخراجات کے زمرے میں موجودہ اخراجات اور نئے متوقع اخراجات کے عنوانات سے گوشوارے شامل کئے جاتے ہیں۔ میزانیہ میں تین قسم کے اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں۔
- اصل تخمینے
- نظر ثانی شده تخمینے
- میزانیہ کے تخمینے
اصل تخمینے
جب بھی میزانیہ تیار کیا جاتا ہے تو اس میں سال رواں کی آمدنی اور اخراجات کے اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار سال رواں کے میزانیہ کے ابتدائی تخمینوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر حکومت پاکستان کا 09-2008 کا میزانیہ پیش کرتے وقت 08-2007 ء کے میزانیہ کی آمدنی و خرچ کے ابتدائی اعداد و شمار دکھائے گئے ہیں۔ انہیں اصل تخمینے کہا جاتا ہے۔
نظر ثانی شدہ میزانیہ
اصل میزانیہ کے تخمینوں میں سال رواں کے دوران میں عملی اعتبار سے حالات اور ضروریات کے مطابق کی بیٹی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے پیش نظر آمدنی دخرچ کا نظر ثانی شدہ تخمینہ تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ گوشوارہ جولائی سے مارچ تک کے نومہینوں کی آمدنی وخرچ کے حقیقی اعداد و شمر پر بنی ہوتا ہے۔ اس کی روشنی میں باقی تین ماہ یعنی اپریل، مئی، جون کی آمدنی و خرچ کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ نظر ثانی شدہ میزانیہ کے اعداد وشمار کافی حد تک سال رواں میں حکومت کی حقیقی آمدنی و خرچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے اصل میزانی اور حقیقی میزانیہ کی آمدنی و خرچ کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت پاکستان کے 80-1979ء انیہ حاصل میں اصل میزانیہ کی آمدنی و خرچ کا تخمینہ بالترتیب 32 ارب 46 کروز 19 لاکھ روپے اور 34 ارب 81 کروڑ 19 لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔ لیکن نظر ثانی شدہ میزائیے میں آمدنی و خرچ بالترتیب 32 ارب 99 کروڑ 18 لاکھ روپے اور 34 ارب 87 کروڑ روپے تھا گو یا حقیقی طور پر 80-1979ء کے دوران میں آمدنی اور خریچ دونوں اصل میزانیہ کے تخمینہ سے زیادہ ہوئے۔
میزانیہ کا تخمینہ
آئندہ سال کے لئے حکومت کی آمدنی و خرچ کا جو گوشوارہ تیار کیا جاتا ہے، اسے ” میزانیہ کا تخمینہ\کہا جاتا ہے۔ اس میں آئندہ سال میں حکومت کی متوقع آمدنی اور متوقع خرچ کے تخمینے پیش کئے جاتے ہیں۔ میزانیہ کی تیاری کے بعد اسے کا بینہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر مالیات اسے قومی اسمبلی میں پیش کرتا ہے اور ایک مفصل تقریر کے ذریعہ اس کے مختلف پہلوؤں کی توضیح کرتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اس پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے اور بالآخر اسے مناسب ردو بدل کے بعد منظور کر لیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی عدم موجودگی میں وزیر خزانہ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر اسے قوم کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے بعد صدر مملکت کی توثیق سے میزانیہ کو تمی منظوری حاصل ہو جاتی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "مالیاتی مسلک کی حدود" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ