محرک معاملات ⇐ ہر قسم کی انسانی سوسائٹی میں اشیاء اور خدمات کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اب ہر شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ا ضرورت کی سب اشیاء خود پیدا کرے۔ ہم معاشی تجزیے کے لیے سوسائٹی کو دو اہم گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ آجرین اور صارفین۔
محرک کاروبار
عاملین پیدائش (زمین محنت اور سرمایہ ) کو حاصل کر کے کوئی فیکٹری یا پیداواری یونٹ قائم کرتے ہیں۔ ان عاملین کے معاوضوں کے لئے آجرین کے پاس کافی سیال رقوم ہونی چاہئیں ۔ جب فیکٹری چالو ہو تو آجرین کو فیکٹری کی مصنوعات کے لئے خام مال خریدنا پڑتا ہے جو ظاہر ہے کہ مفت نہیں ملتا۔ چنانچہ آجرین مصنوعات کو زر کی کافی مقدار ادائیگیوں کے لئے رکھنی پڑتی ہے۔ مختصر یہ کہ آجرین کو امر مجبوری زر کی کچھ مقدار پیداواری اخراجات پورے کرنے کے لئے رکھنی پڑتی ہے تا کہ وہ خام مال ، بار برداری اجرتوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کر سکیں۔ اس غرض سے جو زر آجرین اپنے پاس رکھتے ہیں وہ محرک کاروبار کو پورا کرنے کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ( کاروباری) غرض سے جو رقم رکھی جائے گی، اس کا بڑی حد تک انحصار کسی مخصوص فیکٹری یا فرم کی مجموعی پیداوار پر ہوگا۔ جتنی زیادہ پیداوار ہوگی عموما اتنی ہی زیادہ رقم جاری اخراجات پورے کرنے کے لئے درکار ہوگی۔ آجرین اور کاروباری اداروں کا لین دین جس غرض سے ہوتا ہے اس کو محرک کا روبار کہتے ہیں۔
محرک آمدنی
تمام افراد صارف ہوتے ہیں۔ ایک طرف ہمیں آمدنی کے حصول کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ دوسری طرف اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ دوسری طرف اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنی آمدنی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں لباس، اشیائے خوردو نوش ، کتب اور روز مرہ صرف کی گوناگوں اشیاء بھی خریدنی ہوتی ہیں چنانچہ ہمارے پاس زر کی ایک مخصوص مقدار کا ہونا ضروری ہے تا کہ ہم اپنے روزمرہ کے معاملات نمٹا سکیں اور مختلف اشیاء اور خدمات صرف کر سکیں۔ اگر ہماری آمدنی تھوڑی سی ہے تو ہم تھوڑی اشیاء ہی حاصل کر پائیں گے اور اگر ہماری آمدنی معقول ہے تو ہم اشیاء اور خدمات کا ایک وسیع سلسلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں معاملات کا حجم آمدنی کی سطح پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لئے صارفین کے معاملات کے پس پردہ محرک کو محرک آمدنی کہا جاتا ہے۔ اوپر جو بحث کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ محرک معاملات کے لئے مخصوص رقم کا انحصار درج ذیل پر ہوگا۔ پیداواری اکائیوں کے حجم اور کاروبار کی مقدار سوسائٹی کے اراکین کی کمائی ہوئی ذاتی آمدنیوں کے سائز پر جوں جوں کا روباری سلسلہ پھلے گا۔ آمدنی میں اضافہ ہو گا اسی رفتار سے محرک معاملات کے تحت مقدار زر میں بھی اضافہ ہوگا۔ مختلف اقسام کے معاملات کے لئے مطلوبہ رقم وسیع تر معنوں میں ایک آلہ مبادلہ مہیا کرنے کا وظیفہ انجام دے رہی ہوگی ۔
محرک پیش بندی
محرک پیش بندی ایک اور سبب ہے جس کی بناء پر روپیہ طلب کیا جاتا ہے یا ہاتھ میں رکھا جاتا ہے۔ مستقبل عموماً غیر یقینی ہوتا ہے، ناگہانی حادثات پیش آسکتے ہیں، گھر کا کوئی فرد بیمار پڑسکتا ہے یا کاروبار میں نا گہانی خلل پڑ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مستقبل کی پیش بینی سے قاصر رہتے ہیں ۔ تاہم شعوری کوشش سے ہم مستقبل کے مسائل سے اپنا تحفظ کر سکتے ہیں اور ہم ایک معقول رقم غیر متوقع ا اخراجات پورے کرنے کے لئے مخصوص کر لیتے ہیں۔ محرک پیش بندی کے تحت جو تم افراد ہاتھ میں رکھتے ہیں، وہ وقتا فوقتا اور فردا فرد بدلتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خوشحال لوگ نا گہانی ضرورتوں کے لئے مفلوک الحال لوگوں کے مقابلے میں زیادہ رقم اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ پر امن اور محفوظ ایام میں لوگ پیش بندی کے طور پر کم رقم اپنے پاس رکھتے ہیں۔ لیکن جب سیاسی حالات دگرگوں ہوں اور گڑ بڑ کا خدشہ ہو تو لوگ غیر یقینی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے زیادہ رقم ہاتھ میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ محرک پیش بندی کے تحت روپیہ مستقبل کی ضروریات کے بر خلاف، عمومی طور پر ذخیرہ قدر کا وظیفہ سرانجام دیتا ہے۔
محرک تخمین
زر کو اپنی تحویل میں رکھنے کا تیسرا محرک تخمین محرک ہے۔ ہم نے ابھی جن دو حرکوں پر بحث کی ہے، یہ محرک ان سے مختلف نوعیت کا ہے محرک معاملات اور محرک پیش بندی سے بجا طور پر معاشرے کے بیشتر اراکین کا واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن جہاں تک تخمینی محرک کا تعلق ہے۔ معاشرے کے تمام افراد سٹہ باز نشن نہیں ہو سکتے ۔ سٹہ باز ایسے افراد ہوتے ہیں جو اسٹاریک تریخ یا سرو بازار میں حصص اور بانڈ کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے دو بڑے اسٹاک پیچ موجود ہے۔ کراچی اور لاہور میں ان بازاروں میں حصص بانڈز اور سرمایہ کاری کی اکائیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ شه بازار عموما ایسی فرموں اور کمپنیوں کے حصص خریدتے ہیں جن سے منافع ملنے کی توقع ہو۔ وہ ایسے حصص فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی مالیت خاصی بڑھ چکی ہو لیکن اگلے ہفتوں یا مہینوں میں یا اس کے گرنے کا اعتمال ہو۔ دوسرے لفظوں میں سے باز نسبتا ستے حصص جن کی مالیت میں اضافہ متوقع ہو خریدتے ہیں اور ایسے حصص فروخت کر دیتے ہیں۔ جن کی مالیت عروج کو پہنچ چکی ہو اور اب اس کے گرنے کا احتمال ہو۔ ظاہر ہے کہ سٹہ بازی ایک خطر ناک کاروبار ہے۔ کیونکہ اس کی بنیاد مستقبل کے تخمینوں یا خصص کی متوقع شرح منافع پر ہوتی ہے۔ اگر حصص کے متعلق تخمینے درست ثابت ہوں تو سٹے باز یا حصے دار کو منافع حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس اگر اس کے انداز سے نامرد تلیں یا غیر متوقع عوامل خلل انداز ہوں تو ممکن ہے کہ ے باز کو خاصا نقصان اٹھانا پڑے۔ جن ممالک میں اسٹاک اتریج کے بازار وسیع و عریض اور ترقی یافتہ ہیں وہاں تخمینی سرگرمی عام ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور جاپان میں سے بے شمار لوگ حصص کی خرید و فروخت کا دھندا کرتے ہیں اور منافع کماتے ہیں اور بعض اوقات نقصان اٹھاتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تخمینی سرگرمیاں معدودے چند کارو باریوں اور سٹہ بازوں تک محدود ہے۔ اس وجہ سے سٹے بازی کے لئے روپے کی طلب ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں خاصی کم ہوتی ہے۔