معاشیات کی وسعت

معاشیات کی وسعت

معاشیات کی وسعت وسعت مضمون میں علم معاشیات کی حدود کا تعین کرتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون  مسائل معاشیات کا موضوع بحث بنیں گے اور کون سے اس کی حدود سے باہر ہوگئے۔ معاشیات کی وسعت کو جاننے کیلئے درج ذیل امور پر بحث کی جاتی ہے۔ معاشیات کا نفس مضمون یا موضوع بحث انسان کا مطالعہ بحیثیت فرد یا بحیثیت جماعت  معاشیات کے قوانین کی نوعیت ۔

معاشیات کی وسعت

معاشیات کا نفس مضمون یا موضوع بحث

معاشیات سے نفس مضمون سے مراد علم معاشیات کے معاشی مطالعے کا حتمی موضوع یا نقطہ نظر جانتا جس کے بارے میں مختلف ماہرین معاشیات مختلف ادوار میں اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں آدم سمجھے نے معاشیات کو دولت کا علم ” مارشل نے مادی فلاح و بہبود اور ریلز نے خواہشات کی کثرت اور ذرائع کی قلت کا عمر قرار دیا ہے ۔ جدید دور کے ماہرین معاشیات کے ندو یک هم معاشیات کا نفس مضمون ذرائع کی قلت اور خواہشات کی کثرت ہے۔ جس کی بنا پر معاشیات میں انسان کے رویوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ محمد ور آرام سے زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرلی جائیں۔ بنیادی طور پر انسان کا میں انتخاب و کفایت کا طرز عمل ہی معاشیات کا موضوع بحث ہے کیونکہ انسان کی خواہشات ایک بار پوری ہونے کے بعد پھر پیدا ہو جاتی ہیں جن کو پورا کرنے کیلئے انسان مسلسل معافی جد وجہد جاری رکھتا ہے۔ ہر شخص کی روز مرہ زندگی معاشی محور کے گرد گھومتی ہے اور یہی معاشی جدوجہد اصل میں معاشیات مامون ہے

معاشیات کا مطالعہ بحیثیت فردیا جماعت 

ساید الیہ معاشرتی علم ہے اور معاشرتی علم میں انسان کا مطالعہ اکثریت ایک فرد کے ہیں اک بھی ہے جماعت کے لیے وانے کو کہ تم مسانید میں ہم کسی ایک فرد کے رویے کی عوام کوئی معافی کانون تقلیل نہیں دے سکتے تو انہیں اس صورت میں اللہ کے جاتے ہیں۔ اب اسے سارے افراد کے جھولی رویے پرکھے جاتے ہیں اور ہم اس نہیں ، کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کو باراں کے پر ایک ہی جیسا ہوا ہے۔ اس جوان کو معالی قانون کا نام دیا جاتا ہے ملا ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ کر کے یہ کاری کرتے ہیں اور سہارہ لیست پر کم کروارہی کرتے ہیں اس قسم کے ایوان کو قانون طلب کیا جاتا ہے، لکھیں عالم اس بات کا امکان موجود ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی ایک زیادہ قیمت پر بھی زیادہ انتہا کر ہونے کو جواں ہے۔ اس کی ہو اعمال میں اعمال یا فیشن میں جد ہی مر سکتی ہے۔ اس نے معاشیات کے قوانین کو انظروی رویوں کے بل بوتے پر تھیں نہیں کیا وسکتا بلکہ سالونے میں لوگوں کے مومی کہا ہے یا رویوں کو دیکھا جاتا ہے اور انسان کے انفرادی مسائل کی بجائے اجتماعی مسائلکا جائزہ لیا جاتا ہے

معاشی قرائین اور ان کی نوعیت 

کانوں سے مراد و امکانات میں جو قیامت یا قانون ساز اصلی کی طرف سے صادر ہوتے ہیں ان کی پابندی ہر کسی پر لازم موتی ہے کہ خلاف انزال کی صورت میں ملایا کہ مادہ ہوتا ہے، لیکن اب بھی قوانین معاشرے میں تعلیم شدہ اقدار کی بنیاد پر دے میں آتے ہیں تو ھولی تو کیسے کرواتے ہیں اور جب اسباب اور نانی کے درمیان اور قائم کرتے ہیں اور سطا لنے اور تجھ ہے کے بعد اس کے جاتے ہیں تو میں تو انسے میں جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح علم معالیات بحیثیت علم دیگر علوم کے قوانین کی طرح میاب ملک کے اعلی عوام کی ہے کو معالی تو انہیں کی صورت میں حلال کرتے ہیں۔ ماہر قانون طلب کسی نے کی قیمت میں تبدیلی کے جب اس نے کی مقدار طلب میں پیدا ہونے والے اثرات کو ایک تعلق کی صورت میں پیش کرتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ جب بات کرو تو لوگ زیادہ کرداری کرتے ہیں اور اس کے برعکس کم خریداری کرتے ہیں۔ اس معاشی قوانین سے مراد ہے والات ہوتے ہیں جو انسان کے بین فروش کو بتاتے ہیں کہ اسے اپنے محمد اراجع اور احمد تو بیانات میں سے زیادہ نام کے قاپ کے سلامی بناتے ہیں۔

معاشیات علم ہے یا فن

معاشیات علم ہے یا فن معاشیات کے درمیان کافی اختلاف رہا ہے کہ کیا معالیات کا صدف ریاتی ہونے سے والی پیاری ہے۔ ان کیا ہوا یہ ھم کی مجے سے صرف لائن کے سب اور نتیجے کے درمیاں محمد قائم کرتا ہے۔ اصلی خرید سے مسائل کے حل کے لیے اپنا وانہ کل دور جہاں بھی لال کرتا ہے۔ اس مسلہ کوئی بھی رائے اپنے سے پہیے علم اور قرن کے معلمہم پر روانی لاتے ہیں۔

علم

علم سے مراد کانادے نے کی لیجے سے تعلق کا ہر ہونے جاتے اصول، وبال دارد والقات کا اینا با نا ہے گروہ ہے لیے یا ہوں نہ میں علاوہ اور مطالعہ کے بعد موجب آئے ابواب ونانا کے دیہاں محل کام کرنے کے لیے استعمال کیا کا نام میرے کو ان کی عملی ہیں جو ان احاطہ کرنے پر اچھے ہیں۔ ان عوام کی بنیاد سے ایل سال شده توان و امان کی رسوائی میں تیر یہ تہوار رہتے ہوئے قوامی تحصیل دیے جاتے ہیں۔ ساندای الی حیات کی سیالی میں قدرتی علوم خلا کی لری لوکس سواری والیوں کے قوانینی مرتب کرتے ہیں ملا اب دوسے با کار سائیں واں حصہ ا سکی کہ لیا جائے تو پانی ان ہوتا ہے مری جوکھوں کے دیہان خصوصی ثبت قائم کرنے کا نتیجہ ہر حال ہیں در و یک دفتر قائم رہا ہے کے ترقی کا یہ قانونی نام بیان کردہ قلیون مطالبات کی ترانہ کو پورا کرتا ہے۔ اس لانا ہے اریم مالیات کو میں تو سوا لیا ہے کے لیہ میں اس فرق والا روشی قران کو پورا کرتے ہوا اپنے تو ابھی مرتب کرتے ہیں۔ اسی طرح معیشت جان سانتی علوم کی طرح انسانی سامان کو اقامہ مشاہد و مطالعہ کے بعد مرتب کرتے ہیں اور باران کے ہیں اسباب داری کا جو عالم کرکے اپنے اپنے عرب کرتے ہیں تاہم جانتے ہیں کہ عام طور پر لوگ کم قی سے ہر زیادہ ادی کرنے میں صد زیادہ قیمت پر تم ۔ یہ استان الباب آیت میں تبدیلی اور تائی طلب میں تبدیلی کے درمیان ایک کام کرتا ہے اس کا ہم عالمی طب کا ہم دیتے ہیں ۔ گویا ان کان سے معاشیات عمر 1 کھلانے میں حق جواب احب علم عمر کی اقسام کی برائی میں ہم سوالی ان کی حیثیت کہتے ہیں۔ اب ہم علم کی اقسام کی روشنی میں علم معاشیات کی حیثیت دیکھتے ہیں۔

علم الحقیقت

هم الحقیقت میں واقعات کا خاص علی رنگ میں مطالعہ کیا جاتا ہے اور غیر جانبدارانہ طور پر اسباب اور نتائج کا تعلق قائم کرکے قوانین مرتب کئے جاتے ہیں لیکن واقعات کو ہائی لینے کے بعد جوں کا توں بیان کر دیا جاتا ہے اور ان کے حل کے لیے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ شاہ پاکستان میں افراط در کا مسلہ عام ہے۔ علم الحقیقت کی روشنی میں صرف اس بات کا جائزہ لے کر جواب معلوم کے جاتے ہیں لیکن افراط لاز کے جانے کے لیے تجاویز نہیں دی جاتیں۔ اس قسم کے علوم میں فراکس ان کا ساری وغیرہ آتے ہیں۔

فن

فن سے مراد اور ہے کے خصوصی مقاصد کو حمل کرنے کے لیے عمل میں آئے۔ گویا ان انسان کی اس بعد وجود کالی ے والے اور ان کے حصول کیلے کی جانے اور ہی کو جانے کے لیے جو تہ اور تجویز کی جاتی ہیں ان حاصل کرنے نے اب ان کے مال کے جاتے ہیں۔ کر ناظم کے عملی استعمال کا اہم ملی ہے۔ ے طرح طر کے دور سے تم حل مسول مرتب کرتے ہیں اور ان کے ایسے ان اصولوں کو عملی شکل دے کر اپنے ماھوار یں کرتے ہیں۔ سالیادہ کام برای ویلے کرنے کے لیے ہم ایک معاشیات کے طالب علم کا طب کے طالب علم کے ساتھ ہیں کہتے ہیں۔ سب کا باب عمر علم کی نیت سے طب کے اصولوں کا مطالعہ طب سے متعلق کتب پڑھ کر کرتا ہے اور با تو ہیں کر رہے چاہے ہونے جہاں کی سال میں مریض کا علاج کرتا ہے۔ اس طرح معاشیات کا طالب ہم پہلے معاشیات کے میں کو سوالی میں مر کریدنے کی ساقی میں رکھتا ہے اور پھر ان کی حیثیت سے معاشی مسائل کے حل کے لیے تمہاری دنیا ہے ۔ علم بان کی تربیوں کی رسائی میں گر مالیات کو دیکھا جائے تو معاشیات شیخ علم بھی ہے اور امن بھی۔

عم معاشیات کی اقسام

اطلاق معاشیات

سال مالیات کا تعلق مرد اور عورت کے معافی طرز عمل اور اس کے جانے کے اثر پذیر ہوئے ان کے حلق عصمت کی ارت سے ہے۔ اخلاقی مالیا ہے محمد نہ صرف کسی ملک کے مخصوص معافی مسائل کو زیر بھٹہ لایا جاتا ہے بلکہ ان کے ی رکھا ہوا ہے اور اس نام کا مطالہ کیا جاتا ہے کہ ان اثرات کو کیسے دور کیا جائے۔ العرض اطلاقی معاشیات میں کیا ے والی نہیں جا نامی ملت کارت تل چال، پیاری معیار زندگی در نگاه و غیر یا تحصیلی جاره و ۱۲ بجارانی اور سونے جاتے ہیں کام کے مالی لانا ہے سے ہر وہ کرنے اور ان کے معیار زندگی و بلند کرنے کے لیے اختیار کی جاسکتی ہیں۔اثباقی معاشیات انتہائی معاشیات میں حقائق کا غیر جانبداری سے جائزہ لے کر نتائج اخذ کئے جاتے ہیں ایسی معاشیات میں انسان کا رویہ غیر جانبدار ہوتا ہے اور وہ مقاصد کے درمیان اچھائی یا برائی کا سوال نہیں اٹھاتا۔ بلکہ مقاصد کو خاصیت غیر جانبدارانہ انداز میں پرکھتا ہے۔ گویا اثراتی معاشیات میں ایک معیشت دان حالات و واقعات کا بغور جائزو لے کر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے لیکن اپنی طرف سے کوئی رائے یا حل تجویز نہیں کرتا۔

اشراقی معاشیات کی دو اقسام ہیں۔

  • کلیاتی معاشیات
  • جزواقی معاشیات

جزیاتی معاشیات 

جزیاتی معاشیات سے مراد نظام معیشت کے چھوٹے چھوٹے حصوں کا الگ الگ مطالعہ کرنا، ان کی ماہیت بخوبی سمجھتا اور ان کا تفصیلی جائزہ لیتا ہے تا کہ محدود دائرہ کار کے مطالعہ کی روشنی میں پوری معیشت یا معاشی نظام کو سکھا جا سکے۔ اس طرز عمل کو جزیاتی معاشیات کہتے ہیں۔ جزیاتی معاشیات میں آیتوں کا مطالعہ کرتے وقت قیمتوں کے عام معیار کی بجائے الگ الگ اشیا کی لیتوں پر بحث کرتے ہیں مثلا صارفین کا طرز عمل ایک فرم کا رویہ، عاملین پیدائش کے معاوضوں کا تعین وغیرہ جزیاتی معاشیات کے زمرے میں آتے ہیں۔ آسان الفاظ میں جزیاتی معاشیات میں معیشت سے متعلق ہر چیز کا مطالعہ الگ الگ حصوں میں کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر مستقل نوعیت کے اصول اور قوانین مرتب کئے جاتے ہیں۔ معاشیات کو قیمت کا نظریہ بھی کہتے ہیں کیونکہ زیادہ تر انفرادی فیصلے مثلا اشیا کی قیمتیں، زمین کا کرایہ ، ڈرائیور کی و ادب جزیاتی معاشیات کا حصہ ہیں۔ جزیاتی معاشیات میں عام طور پر درج ذیل مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ صارفین کا طرز عمل  نظریہ پیدائشی دولت  فرم کے توازن کا نظریہ  نظریہ قیمت مین پیدائش کے معاولیوں کا تعین وغیرہ۔

کلیاتی معاشیات 

کلیاتی معاشیات میں پوری معیشت کا مطالعہ بحیثیت مجموع کیا جاتا ہے یعنی اس میں انفرادی رویے یا مسائل مثلا آمدنی کت سرمایہ کاری، طلب، رسہ کی بجائے مجموعی رویے اور مسائل ختام قومی آمدنی، قومی بہت، مجموعی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان اسباب کا جائزہ لیا جاتا ہے جو ان مجموعی مقداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مجھ یاتی اور گلیاتی معاشیات کی اہمیت معافی نظام کے تجو یہ کیلئے دونوں طرز ہائے نظر کا استعمال ضروری ہے کیونکہ دونوں کا مقصد معاشی معاملات کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر مناسب پالیسیاں مرتب کر کے فلاح و بیرور میں اضافہ کرتا ہے۔ جزیاتی معاشیات میں ہم انفرادی طرز عمل کا مطالعہ کرتے ہیں اور کلیاتی معاشیات میں انتقامی مطالعہ کے ذریعے ذرائع کے بہترین استعمال کا جائزہ لیتے ہیں اس لیے دونوں طرز ہائے نظر ہرو فیسر ایکے  دونوں طرز ہائے فکر کی اہمیت اور باہمی تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں در حقیقت کا پانی معاشیات اور جزیاتی معاشیات کے نظریے میں کوئی واضح خط امتیاز میں کھنچا جا سکتا۔

قوانین اور ان کی ہمت

معاشی اصطلاح میں قانون سے مراد حکومت یا قانون ساز اسمبلی کے جاری کردہ وہ احکامات میں جن کی پابندی لازم و ملزوم ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا یا جرمانہ ہوتا ہے۔ لیکن علی اصطلاح میں اگر کسی عمل کو بار بار دہرانے پر ایک ہی نتیجہ برآمد ہو اور وہ  ہر صورت میں قائم رہے تو اسے قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ قوانین کی اقسام درج ذیل ہیں۔ رواق قوائی طبعی راضی قوامین ہے

ریاستی قوانین

ریاتی قوانین سے مراد وہ احکامات ہیں جو حکومت یا قانون ساز اسمبلی منظور کر کے صادر کرتی ہے۔ ان کی پابندی ہر حال میں اور ج کسی پر با اشتیاز لازم ہوتی ہے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا یا جرمانہ ہوتا ہے۔ مثال چوری کرنا جرم ہے اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو یقینا اسے سزا ملے گی۔

اخلاقی قوامین

اخلاقی قوامین عام افراد کے مجموعی تاثرات کا تسلیم شدہ طرز عمل ہے جس پر عمل کرتا ہر نامہ دار شہری پر اخلاقی طور پر لازم سے ملا ہمیں جھوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک اخلاقی قانون ہے اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو معاشرے میں اس کو فرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

طبعی قوائین

طبعی قوانین اسباب اور نتائج کے درمیان رشتہ کو ظاہر کرتے ہیں اور مشاہدے ، تجزیے اور تجربے کے بعد حاصل کئے جاتے میں اور ہر حال میں ہر جگہ بدستور قائم رہتے ہیں اس لیے ان کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ مثلا طبیعات کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی شے ہوا میں اچھالی جائے تو وہ کشش قفل کے اصول کے تحت واپس زمین پر آ گرتی ہے اور یہ عمل ہر جگہ بدستور رہتا ہے اس لیے اس کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔

معاشی قوائین

معاشیات بھی دیگر علوم کی طرح اپنے قوانین مرتب کرتی ہے اور طبعی علوم کی طرح اسباب اور نتائج کے درمیان رشتہ قائم کرتی ہے۔ جس کا انحصار لوگوں کے مجموعی رویوں پر ہوتا ہے۔ مثلا ہم جانتے ہیں کہ لوگ کم قیمت پر زیادہ خریداری کرتے ہیں اور زیاد نیت پر کم خریدنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کا نہیں مجموعی رویہ معاشیات کا قانون بن جاتا ہے جسے قانون طلب کہتے ہیں۔

معاشی قوائین

: https://muashyaat.com/معاشیات-کی-وسعت/

معاشی قوانین کی خصوصیات

معاشی قوانین کی اہم خصوصیات اور نا اہل ہیں۔ معاشی توانی انسانی طر حمل کے اعلانات کا نام ہیں۔ معاشی قوانین کی تیار ظروفا ہے پر قائم ہوتی ہے جو حالات کے مطابق اللہ کے جاتے ہیں۔  معاشیات کے تو میں کیلیتی لومیے کے ہوتے ہیں مقداری نوعمرے کے نہیں ہوتے۔ یعنی یہ واقعات کو عملی انداز میں کمی کرتے ہیں  معالی قوانین طبیعی علوم کی طرح ائل، اللہ گیر اور کلائی گولی کی صلاحیت سے کسی حد تک حرام ہوتے ہیں۔   سوالی تو ایسے دیگر علوم کے قوانین سے زیادہ درست ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق انسان کی تیل کا ہیوں سے ہے۔ سوالی قوانین میں مستقبل میں رونما ہو نے والے واقعات سے متعلق حلال گوئی کرنا مشکل ہے۔   مالی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں داتو کوئی بڑا ہے اور بری کر مادہ De ہے۔ معاشی توانی اسباب و نتائج کے درمیان رشتہ قائم کرتے ہیں۔ معالی تو امین تی اداروں میں مرتب نہیں کئے جاتے بلکہ حقیقی ماحول اور روز مرہ کے کلات میں تحلیل پاتے ہیں۔ سالی ترائی پائیسی سازی میں فوری طور پر لاگو نہیں ہوتے کے بلکہ معاملی مسائل میں کی حمال بھی انداز ہوتے ہیں۔

معاشی قوانین کی خصوصیات

 

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو معاشیات کی وسعتکے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment