مفروضوں کے خواص

مفروضوں کے خواص ⇐ مفکرین نے مفروضوں کے چند خواص بتائے ہیں جن کے ذریعے مفروضے کو اچھا ہونے یا اچھا نہ ہونے کی شناخت کی جاتی ہے۔

مفروضوں کے خواص

واضح تصورات کے حامل 

مفروضوں کی واضح تصورات کا حامل ہونا چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ مفروضےمیں ہم جتنے تصورات و خیالات بیان کریں وہ واضح ہونے چاہئیں۔ ان میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہونی چاہئے اور وہ اپنا مطلب صاف صاف بیان کر سکتے ہیں۔

اخلاقی فیصلوں سے پاک مفروضے

مفروضوں کے خواص ایسے مفروضوں کو تجرباتی مشار الیہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مفروضے جو تصورات استعمال کرتے ہیں۔ ان میں مقداری پہلوکا پایا جانا بہت ضروری ہے اور ان میں کسی اخلاقی فیصلہ کاعمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔

مخصوص مفروضے

مفروضے کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ مخصوص قسم کے ہوں ۔ یعنی مفروضے میں جس بات کو بیان کیا جارہا ہے وہ اسی تک محدود ہونے چاہئیں تا کہ ان پر تحقیق کی جاسکے۔ اس قسم کے مفروضے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں وہ باتیں نہ پائی جائیں جن کا اس مفروضے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

مفروضے کا تحقیق کے طریقہ کارسے تعلق

اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مفروضہ ایسا بنایا جائے جس پر پہلے سے موجود سائنسی طریقہ کار سے تحقیق ہو سکے۔ مفروضہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جس پر تحقیق کرنا ایک الگ مسئلہ بن جائے۔

مفروضے کا تحقیق کے طریقہ کارسے تعلق

مفروضہ اور نظریہ کا تعلق

نظریہ اور مفروضے کا تعلق بہت ضروری ہے۔ کیونکہ مفروضہ نظریے میں موجود حقائق سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اس لیے مفروضہ اس نظریے کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس سے مفروضہ اخذ کیا گیا ہو۔ مفروضہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کا نظریہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ اگر مفروضہ ایسا ہوگا کہ اس کا نظریہ سے کوئی تعلق نہ ہو تو اس پر تحقیق کرنا مشکل ہوگا اور تحقیق کے نتائج بھی بے معنی ہوں گے۔

مفروضوں کی جانچ کے لیے ضروری امور 

جب ہم نظریے سے مفروضہ اخذ کرتے ہیں تو پھر اس کی صداقت کو پرکھنے کے لیے اس پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس چیز کا دار و مدار کہ مفروضہ کہاں تک درست ہے اور کہاں تک غلط ہے۔ درج ذیل باتوں پر ہوتا ہے۔

حقائق کی ترجمانی

مفروضے کسی نظریہ سے بذریعہ استخراج تشکیل دیا جاتا ہے۔ اسی لیے مفروضے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان حقائق کی ترجمانی کرے۔ جن حقائق سے وہ اخذ کیا گیا ہے۔ یعنی ایسا مفروضہ جو ان حقائق کی ترجمانی نہ کرتا ہو۔ جن سے حاصل کیا گیا ہو تو اس کی صحت مشکوک ہوتی ہے۔

تجرباتی حقائق سے اختلاف

مفروضے سے اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ اگر وہ تجربات سے حاصل ہونے والے حقائق سے۔ اختلاف رکھتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں مفروضوں کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ تجربات سے جو حقائق سامنے آئیں مفروضہ ان سے مختلف نہ ہو۔

تجرباتی حقائق سے اختلاف

حقائق سے مطابقت

مفروضہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام حقائق سے مطابقت رکھا ہو جن کا پہلے مشاہدہ کیا جا چکاہو۔ یعنی جتنے حقائق سامنے آئے ہوں وہ مفروضہ ان کی ترجمانی کرے اور ان کی کامیابی کی وضاحت بھی کرتا ہو۔

مفروضے کی سادگی

تحقیق کے ذریعے مفروضے کو پرکھنے کا انحصار اس بات پر بہت زیادہ ہوتا ہے کہ مفروضہ سادہ ہو اور غیر مبہم انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ یاد رکھیں کہ مفروضے میں بیان کی پیچیدگی اور غیر واضح عبارت مفروضے کی جانچ میں حائل ہوتی ہے۔

نظریے میں فرق

مفروضہ منطقی استقامت کا حامل ہو، یعنی منطقی طریق استدلال سے حاصل کیا گیا ہو اور حقیقی اصولوں سے جب چاہئے اسے اخذ کیا جا سکے۔ یعنی بار بار اخذ کرنے پر بھی مفروضے کی شکل و شباہت میں تبدیلی واقع نہ ہو۔ اگر ایک دفعہ آپ کسی نظریے سے ایک مفروضہ بناتے ہیں اور دوسری دفعہ کوئی مفروضہ اس کے بالکل الٹ بناتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک مفروضہ غلط ہے اور منطقی استقامت کا حامل نہیں۔ اس مقام پر مفروضے اور نظریے میں فرق ان کا آپس میں تعلق سمجھنا بہت ضروری ہے۔

صداقت

مفروضہ اور نظریہ ایک ہی نہیں ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور ایک خاص تعلق سے جڑے ہوتے ہیں۔ اب ان حقائق سے چند ایک حقائق کو لے کر ان کو ایک رشتہ میں باندھ دیا جاتا ہے تو وہ مفروضہ بن جاتا ہے۔ جس کو تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس بات کی پرکھ کی جاتی ہے کہ آیا یہ حقائق درست ہیں اور اگر ایسا ہے تو کسی حد تک درست ہیں نیز ان میں کہاں تک صداقت ہے۔ جب مفروضے کو تحقیق کے ذریعے پر کھ لیا جاتا ہے اور وہ صحیح ثابت ہوتا ہے تو اس پر حقیقت کا نام دے دیا جاتا ہے۔

سائنس 

جب اس قسم کے بہت سے حقائق جمع کر لئے جاتے ہیں۔ تو پھر ایک نیا مفروضہ وجود میں آتا ہے۔  جن حقائق کی تصدیق ہو جاتی ہے اور ان میں تعلق واضح ہو جاتا ہے۔ انہیں معاشی علوم کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن نظریے میں موجود حقائق کو سائنس کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ حقائق کی پیچان صرف مفروضے کی تصدیق سے ہی نہیں بلکہ تردید سے بھی ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی مفروضے کی تردید ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ علوم کے لیے دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔

سائنس 

روئی کاکپڑا 

اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر مفروضہ رد ہو گیا ہے تو اس نے سائنس کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اس کی اہمیت بھی اتنی ہے جتنی تصدیق شدہ مفروضے کی۔ جیسا کہ ہم روئی کو کپڑا نہیں کہ سکتے۔ روئی کو کپڑے کی صورت اختیار کرنے تک ایک خاص قسم کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر اس کا کپڑا بنتا ہے۔  ان کو سائنس کا نام نہیں دیا جاسکتا بلکہ وہ ابتدائی نظریہ کہلاتے ہیں۔ ان حقائق سے پھر مفروضہ اخذ کیا جاتا ہے اور اس کو تحقیق کے ذریعے پر کھا جاتا ہے۔ پھر وہ حقائق ایک نئے روپ میں یعنی نظریات میں داخل ہوں گے  ایک نیا نظریہ وجود میں آئے گا۔ جو سائنسی علم کہلائے گا۔

روز مرہ کے مسائل

نظریہ ایک طرف تو روز مرہ کے مسائل جو موجود ہیں اور جو مستقبل میں پیش آنے والے ہوں ان کو بیان کرتا ہے اور دوسرے طرف ان کے حل کے لیے قوانین بناتا ہے۔ مفروضہ نظریے سے اخذ کردہ حقائق پر مشتمل ہوتا ہے۔ مفروضے کو پر کھے بغیر اس کو درست یا غلط قرار دینا ناممکن ہے۔ ۔ سائنسی علوم میںمفروضے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

  • کیونکہ مفروضے کے بغیر نہ نظریہ وجود میں آسکتا ہے اور نہ ہی سائنسی علم ۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کومفروضوں کے خواص  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

……………مفروضوں کے خواص……………

Leave a comment