منصوبہ ساز ادارہ

منصوبہ ساز ادارہ منصوبہ سازی کا پہلا رہے منصوبہ بال اور ان کا تمام ہے۔ جصوبہ بندی اور اس پر مل در آمد کوئی ہے روا میرا عارضی سا کام ایک ہے مگر یہ کام مستقل طیاروں نے انجام دیا جاتا ہے۔ مستند گئے ایک مستقل اور اختیار دار کی ضرورت پائیں آتی ہے کہ صوبہ ساری کے لئے منصوبہ بندی ہے ان منصوبہ الولی کی ال قائم کرنے کا عام رواج ہے۔ اور یا کہانی ملف معافی پہلو اس کے ماہر ہیں کہ بالی قراندہ ملازمت کا اپنے ان بھرتی کر سکتا ہے تا کہ کسی بھی وقت کیسی بھی معافے میں ان کی ماہرانہ والے اور گرنے سے گا وہ اٹھایا جا سکے۔ ان میں سے کو منصوبے کے مختلف پہلووں سے متعلق کام مستقل طور پر تعدیل کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار می تحقیق اور اجر کا ظریف با اس ارا کر لیں۔ کیانی مختلف نوعیت کے مسائل کو نانے کے لیے ملیے ویلے اینٹیاں تجویز کر سکتا ہے خدا تجارتی کمیلی مصلحتی کمیلی صنعتی کمیٹی ، زراعتی یا تعلیمی کمیٹی ۔

منصوبہ ساز ادارہ

اختصارات

بور ڈ یا کمیشن کا مکمل طور پر با اختیار ہونا ضروری امر ہے اختیار مالے کی غرض سے اسے وزارت مالیات کے بال ملک کیا جا سکتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اے آل او دوار کی حیثیت حاصل ہو اور اس کا اطلاق صرف کا دینے سے کیا جائے تا کہ اس کا سر را یا توازی علم ہو یا صدر، وزیر اعظم یا صدر اس کا مشتق سر برایمان سکتا ہے اور روزمرہ کے کاموں کے سلسلے میں نائب سربراہ کوئی اختیار دیے جاسکتے ہیں۔ صدر یاوزیر اعظم کا سربراہ ہونا اس لئے بھی مفید رہاہے کہ عوام سے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کے مطابق رو جب چاہیں منصوبہ میں تغیر وتبدل کرسکیں۔

ماہرین

بور ڈ یا ایکشن کے ارکان صرف ماہرین سے لئے جائے جائیں نہ کہ انتظامی مشینری کے کل پرزوں کو ہر مرض کی دوا مجھ کر کمیشن کے ساتھ ملک کر دیا جائے۔ ماہرین کا کام صرف منصوبہ بنانا ہی رہو بلک، پالی شرح ترقی اور ایسا نہ سکوں میں ہوتے والی ترقی کی رفتار کا جائزہ بھی لیتے رہیں ۔ یہ جائزہ اس لئے سود مند رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمسایہ ملکوں میں شرح ترقی ہے تیز ہو اور وہ ملک آیت رانی کے چکر میں گرفتار رہے۔ دوسروں کے معاشی تجربات سے باخبر رہنا اور اپنے اور ان کے معالی چروگراموں کا تقابلی جائزہ لینا اس لئے فائد ہ مند ہوتا ہے  کہ اس طرح ان مکانہ تنظیوں اور کوتاہیوں سے جو دوسروں سے سرزد ہوتی ہیں، پہلوتہی کی جاسکے۔ دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور لکی مفاد میں ہوتا ہے۔

منصوبہ کی مدت

منصوبہ ساز ادارہ اس بات کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ منصوبہ کتنی مدت کا ہونا چاہیے۔ منصوبہ کی کوئی بھی مدت لئے کی جاسکتی ہے۔ دلی میں ایک سالروت سے لے کر 20 سالہ مدت کے منصو بے رانج العمل رہے ہیں ۔ کئی خطوں میں ر کیا ہے۔ منصوبہ ساز ادارہ اس بات کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ منصور حتی مدت کا ہونا چا ہے۔ منصوبہ کی کوئی بھی مدت 10 سالہ حصو بے کارو انا ہے کہیں کہیں چھ سالہ منصوبے نافذ کیے گئے ہیں۔  حرب سے مقبول مدت پانچ سال موت ہے۔

موزوں مدت

منصوبہ کی مدت کا تعین کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہے کہ موت نہ تو بہت طویل ہو اور نہ ہی قلیل ۔ منصوبے کی مدت ای قلیل بھی ہیں ہونی چاہیے کہ ابھی منصوبہ پر ھر پر مل در آمد بھی ہیں ہوا کہ مدت ختم ہوگی۔ نہ ہی موت آنی طویل ہو کر عوام تاجر ایران حکومت، مزدور، کسان اور کار آن منصوبے سے لاتعلقی کا اظہار شروع کر دیں۔ ان دونوں باتوں کا دھیان رکھتے ہوئے پانی سالم موت کو بہتر تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے منصوبے

پاکستان نے 1951ء میں جس منصوبے کو اپنایا وہ کولی و پلان تھا جس کی مدت کا سال تھی۔ روس میں دیس سالہ منصوبے بھی مروف ر ہے ہیں۔ 1955 اور 1960 ء سے 1965 تک پاکستان میں پہلے اور دوسرے پانچ سالہ منصور ہے بالا رہے۔ 1965 ء سے 1985ء کے لئے پاکستان نے ایک 20 سالہ ناظری منصوبہ بھی اپنایا تھا۔ 1972ء سے 1978ء محمکہ پاکستان میں ایک سالہ ترقیاتی پروگراموں کا سلسلہ رواں دواں رہا۔ آج کل پاکستان میں بھی متوسط مدت یعنی نجبالہ منصوبوں کے لئے لنڈ کی منظوری یک سال ترقیاتی منصوبوں کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس وقت دس سالہ ناظری ترقیاتی منصوب (2011-2001) پاکستان اپنائے ہوئے ہے۔

مدت کا مقصد

اگر کسی ملک کا اہم مسئلہ پیداوار میں فوری اضافہ ہو تو قلیل المدت منصوبے بنانا سود مند رہتے ہیں۔ معاشی ترقی کی مضبوط ضمانت کے لئے دیر پا اور بڑے پیمانے کے منصوبے بنانا بھی ضروری ہوتا ہے تا کہ ان کی بنیاد پر معاشی سرگرمیاں استوار ہوسکیں۔ ایسے منصوبوں کے لئے طویل المدت منصو بے قابل ترجیح رہتے ہیں۔

اہداف کا تعین

مور منصوبہ بندی کے لئے چوتھا کام اہداف کا تعی اور پانچویں شرط وسائل کی فراہمی ہے۔ ان دونوں میں کسی ایک کا نام پہلے لیا اور دوسرے کا بعد میں، ذرا مشکل امر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی ملک میں اہداف کا تعین پہلے کیا جاتا ہے اور پھر اس کے مطابق وسائل اکٹھے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں یہ رواج ہے کہ پہلے وسائل کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور پھر اس کے مطابق اہداف مقرر کئے جاتے ہیں۔

موزوں ہدف

کسی بھی ترقی پذیر ملک میں تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ %5 تا 6 شرح ترقی موزوں تصور کی جاتی ہے۔ 6 %5 اہداف مقرر قرر کرتے ہوئے تا شرح ترقی نہ بہت بلند ہے اور نہ ہی بہت پست ۔ اہداف مقرر کرتے ہوئے اس بات کا یقینی بنانا ضروری ہے کہ اہداف خوش فہمی کے تحت بہت بلند نہیں ہونے چاہئیں کہ جن کو عملاً کبھی بھی حاصل نہ کیا جا سکے نہ ہی اہداف اس قدر پست متعین ہونے چاہئیں کہ ان کا حصول بچوں کا کھیل دکھائی دے۔

ہم آہنگی

مجموعی اہداف مقرر کرنے کے علاوہ شعب دار اہداف بھی طے کر لینے چاہئیں کیونکہ قطرہ قطر مل کر دریا بنتا ہے۔ مجمو اور شعبہ دار اہداف کا بھی آپس میں مربوط ہونا ضروری ہے۔ یہیں ہونا چاہیے کہ کی اہداف بلند اور جزوی اہداف بہت پست مقرر کر لئے جائیں نہ ہی اس کے برعکس صورت حال خوش آئند کہلاتی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "منصوبہ ساز ادارہ"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment