ناکاملیات کا مفہوم
منڈی کی ناکاملیات ⇐ منظم منڈی وہ منڈی ہوتی ہے جو ان تمام نقائص سے پاک ہو جو طلب اور رسد کی قوتوں کے آزادانہ طوری کام کرنے میں مزاہم ہوتی ہیں۔ ذیل میں ان چند قائص کا ذکرکیا گیا ہے جو پاکستان جسے ترقی پذیر مکوں کی منڈیوں میں ہائے بریکوں کی پائے جاتے ہیں۔
منڈی کی خامیاں
منڈی کے خلاف عموما دو قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ منڈی اپنے فرائض بہتر طور پر سر انجام دینے میں ناکام رہتی ہے۔ منڈی کی کارکردگی بسا اوقات نا خوشگوار نتائج پیدا کرتی ہے۔ منڈی اپنے فرائض بخوبی سر انجام دینے میں ناکام رہتی ہے اس کی وجہ یا تویہ ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو تین طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ منڈی کیسے کام کرتی ہے اور یا اس معاشرے کے لوگوں میں معاشی ترغیبات سے فائدہ اٹھانے کا احساس کمزور ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کو منڈی کے طریقہ کار یا اس میں واقع ہونے والے تغیرات کا علم نہیں ہے تو اس خامی کو حکومت مناسب معلومات فراہم کر کے اور تعلیم کے ذریعہ دور کر سکتی ہے۔ کی کے لئے لوگوں کے اندر مادی دوسری صورت کی اصلاح کے لئے لوگوں کے اندر مادی فوائد حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ور نہ وہ ملک معاشی ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جائے گا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ہمارے ملک کے آجر حضرات یقینا نلع کے محرک کے تحت کام کرتے ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لئے اسلامی تعلیم کے مطابق مادی منفعت کا حصول کر یہ جائز ہے۔ (بشرطیکہ زکوۃ و صدقات کے ذریعہ اسے پاک کر دیا جائے اس لئے منڈی کی یہ خامی ہمارے لئے دوسرابڑا رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ منڈی پر دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ بعض اوقات وہ ایسے نتائج پیدا کرتی ہے جو سماجی فلاح وجہد کے نت نظرسے اس میں مندرجہ ذیل و بہبود کے نقطہ نظر سے خوشگوار نہیں ہوتے۔ اس میں مندرجہ ذیل قسم کی باتیں شامل ہوتی ہیں ۔ و بہبود کے نقطہ نظر سے خوشگوار نہیں ہوتے ۔ اس میں مندرجہ ذیل قسم کی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ بعض اوقات نمی افراد کا مفاد قومی مفاد سے کر سکتا ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں بھی ٹرانسپورٹ کے مالک ڈرائیوروں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسافر حاصل کریں۔ زیادہ سواریاں حاصل کرنے کیلئے بہیں تیز چلائی جاتی ہی ہیں جس کے نتیجہ میں حادثات ہوتے ہیں اور بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ منڈی کی میکانیت قومی آمدنی کی تقسیم میں عدم توازن کا موجب بنتی ہے۔ کیونکہ آجر لوگ وہی اشیاء تیار کر کے منڈی میں فروخت کے لئے بھیجتے ہیں جن کی انہیں زیادہ قیمت مل سکتی ہے اور زیادہ قیمت وہی لوگ دے سکتے ہیں جن کی آمدنی زیادہ ہو۔ گویا ایک منڈیاتی معیشت میں زیادہ تر وہی اشیاء تیار کی جاتی ہیں جو امیر طبقہ استعمال کرتا ہے۔ اس طرح قومی پیداواری وسائل کا بہترین استعمال نہیں ہوتا اور معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی بنیادی ضروریات بھی بطریق احسن پوری کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ منڈی کے نظام پر ایک اور اہم اعتراض یہ ہے کہ اس کے ذریعہ معاشی ترقی کی رفتارست رہتی ہے کیونکہ بھی افراد صرف اور ان صنعتوں اور شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جن سے انہیں فوری اور زیادہ منافع حاصل ہونے کی امید ہو۔
منڈی کی خامیوں کا تدارک
منڈی کے نظام کا یہ دعوئی کہ وہ خود کار ہے اور کسی رہنمائی کے بغیر معاشی نظام کو بخوبی چلا سکتا ہے، بائل ثابت ہو جاتا ہے لیکن یہ کہ انگوٹ پہنا ہی پڑتا ہے۔ مندی کے نظام کی اصلاح اور نانیوں کے لیئے حکومت درج ذیل قدامات کر سکتی ہے اور کرتی بھی ہے۔
قیمتوں میں اعتدال
حکومت بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں اعتدال پیدا کرتی ہے تا کہ پیدا کنندہ کو بھی نقصان نہ ہو اور صارفین کے مفاد کا بھی تحفظ ہو جائے ۔ جیسا کہ حکومت پاکستان آنا ، چینی تھی، سیمنٹ، کیمیاوی کھار جیسی اشیاء کی قیمتیں خود مقرر کرتی ہے جس میں ترغیب کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔
دولت کی منصفانہ تقسیم
حکومت دولت کی تقسیم کو منصفانہ بناتی ہے۔ حکومت مستز اند نظام سیکس کے ذریعہ مفاد عامہ کے کاموں میں اضافہ کر سکتی ہے۔ حکومت پاکستان بھی مستزائد طور پر ٹیکس عائد کرتی ہے۔ تعلیم وصحت پر بھاری رقوم خرچ کرتی ہے۔ نیز بنیادی ضرورت کی اشیاء مثلاً آئے اور کیمیاوی کھاد پر اعانے بھی دیتی ہے۔
قلت پر قابو
جن اشیائے صرفی کی ملک میں قلت ہو یا آجر طبقہ مصنوعی قلت پیدا کر دے تو ایسی اشیاء غیر ممالک سے درآمدکر کے ان کی قلت کو دور کیا جاسکتا ہے اور ن کی قیمتوں کو معقول سطح پر برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
مردوں کے حق کا تحفظ
مزدوروں کے حقوق کے حفظ کیلے حکومت اسے تو میں نافذ کرتی ہے جو ہر طبقہ ان کی کیدور قورت سودا بازی سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے باز رہیں ۔ مزدوروں کو کم از کم اجرت حاصل کرنے کی ضمانت دی جائے اور انہیں ملازمت کا تحفظ حاصل ہو۔ مناسب پرو پیگنڈہ اور علیم کے ذریعہ لوگوں کے جذبہ حب الوطنی کو ابھارا جاسکتا ہے کہ دو نا جائز منافع خوری سے اجتناب کریں۔ اگر بالواسطہ اقدامات کی بجائے حکومت براہ راست مداخلت کرے اور ساری کی ساری تجارت اور سرمایہ کاری اپنے ذمہ لے لے تو اس سے معاشی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کے ابتدائی دورمیں مندی کی ترغیبت سے آجروں کواع کمانے کا موقع ملناچاہیے اور کچھ کر نے کے بعد جب ملک ترقی کی ایک خاص کا پر ائی جائے تو پھر باجی انصاف کے حصول کا مقصد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی حکومت اس پالیسی پرعمل پیرا ہےاور کئی سرمای کاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ حکومت سرکاری شعبہ میں براہ راست ہاتھی سرمایہ کے اشتراک کے ساتھ بھی نہیں خرچ کر رہی ہےتا کہ سرکار اور بی دونوں تم کے کاروباروں کا ایک ایسا اخراج حاصل کیا جائے جو ملک کو تیز تر معاشی ترقی کی ضمانت دے۔ پاکستان کے مختلف پانچ سالہ منصوبوں میں بھی بھی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے کئی ترغیبات دی گئی ہیں ۔
قومی ملکیت کا حکم نام
کیم جنوری 1974ء کو بینک نیشنلائزیشن آرڈیننس مجریہ 1974ء کے تحت ملک کے شعبہ بینکاری کو قومی ملکیت میں لئے جانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس حکم کے خاص نکات یہ تھے۔ ملک میں آئندہ بینک قائم کرنے کا اختیار صرف وفاقی حکومت یا اس مقصد کے لئے قائم کی گئی کار پوریشن کو ہوگا۔ غیر ملکی بینکوں کو نہیں تو میا یا جائیگا۔ تاہم آئندہ انہیں بھی ملک میں نئی شاخیں کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جن میکوں کو ہیں تو مایا جائیگا ہ بھی انہی پابندیوں اور اختیارات ومراعات کے تحت کام کریں گے جو وفاقی حکومت قومیائے گئے بینکوں کے لئے متعین کرے گی۔ جن بھی شعبے کے سرمایہ کاروں کے حصص بینکوں میں موجود ہیں انہیں وفاقی حکومت کے طے شدہ لائحہ عمل کے تحت معاوضہ ادا کیا جائیگا۔ قومی ۔ قومیائے گئے بینکوں کی غیر ملکی شاخیں بھی تو می ملکیت تصور ہوں گی ۔ بعد ازاں بینکاری کے امور سے متعلقہ فرائض کی بجا آوری کے لئے پاکستانی بہن ایک کونسل کا کی بجا کے لئے بینکنگ قائم کیتی اور تجارتی کوبھی از سرو میں کی بجا آوری کے لئے پاکستانی بینکنگ کونسل قائم کی گئی اور تجارتی بینکوں کو بھی از سر نو نے تنظیمی ڈھانچے میں منظم کیا گیا۔ اس سلسلے میں مختلف قسم کے انضمام کے ذریعے تمام تجارتی ٹیکوں کو 5 بینکوں کی شکل دے دی گئی۔ ان میں میں اس سلسے میں تخلف سم کے انتظام کے زور سے تجارتی میلوں کو ملکوں کے تلے دے دی گئی۔ ان میں نیشنل بینک آف پاکستان ، حبیب بینک، یونا بینڈ بیک مسلم کمرشل بینک اور الائیڈ بینک شامل تھے۔
پس منظر اور وجوہات
اگر چہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی معیشت کے شعبہ بینکاری نے بجائے خود خاصی ترقی کی، بہر حال یہ بھی پاکستان کے بھی شبہ کے دوسرے حصوں کی طرح ان راہوں اور بدعنوانیوں سےمحفوظ نہ رہ سکا و پاکستان کے کئی شعبے کے مخصوص مزاج کا حصہ ہیں۔ ان میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ ملک کی دولت اور نتیجہ معاشی توت چندافراد کے قبضے میں مرکوز ہو رہی تھی۔ مثال کے طور پر ایک طرف سے چھوٹے تاجر اور کا شکار و غیرو میکوں سے قرضوں کے حصول کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے اور دوسری طرف تقریبا 75 فیصد قرضے مخصوص دوسو کے قریب افراد، خاندانوں اور گروپوں نے لے رکھے تھے۔ ان بڑی بڑی امانوں میںسے بھی بہتر ہی ہیں جو جائز ذرائع سے حاصل کی کی خفیہ دولت پر تل ہیں۔ اس طرح کی امانتیں جہاں مختلف قسم کے ٹیکسوں سے نجات کا باعث تھیں وہیں ان کے مالک بڑے تاجرانہی امانتوں کی بنیاد بنیاد پر وسیع پیمانے پر مزید قرضے بھی لیتے رہتے تھے۔ بیک وقت کی علیحدہ علیحدہ بینکوں سے تعلقات کی بنیاد پر بڑے تاجر ایک ہی وقت میں کئی بینکوں سے نا جائز مقاصد کے لئے قرضے حاصل کر لیتے تھے۔ خود بینکوں کے اعلیٰ افسران اور منتظمین بھی بھاری تنخواہیں لیتے رہے اور غیر ملکی برانچوں میں دوروں کے بہانے قومی دولت اور وسائل میں اسراف کا باعث بنتے تھے۔ محض منافع کے خیال سے بعض علاقوں میں ضرورت سے زیادہ بینک کی شاخیں موجود ہوتی تھیں اور بعض جگہ جہاں ضرورت ہوتی تھی ( مثلاً زرعی علاقے وہاں کوئی شاخ نہیں ہوتی تھی۔ سب سے زیادہ نقصان دہ پہلو یہ تھاکہ بینکوں کی طرف سے قرنہ محض چند افراد کو اوروہ بھی نا پسندیدہ مقاصد کے لئے دیدیا گیا تھا جو سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور سٹے بازی پر خرچ ہوتا رہا۔
اغراض و مقاصد
ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب نئی بینکاری پالیسی تشکیل دی گئی تو اس کے سامنے مندرجہ ذیل مقاصد سامنے رکھے گئے۔ قومیائے جانے کے ذریعے بینکوں کے سرمائے کو ایک مربوط پالیسی کے تحت ایک جائز تناسب میں مختلف شعبوں میں لگایا جائیگا۔ صرف ایک مخصوص طبقے ہی کو قرینے کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیا جائیگا۔ نا جائز دولت چھپانے کے مواقع کم کئے جائیں گے۔ بینکوں کے درمیان مقابلہ بازی ، اشتہار بازی وغیرہ کے اخراجات کم ہو جائیں گے۔ علیحدہ علیحدہ بینکوں کے انتظامی اخراجات بھی کم ہو جائیں گے۔ بینکوں کی شاخیں صرف منافع کی توقع میں ہی نہیں بلکہ علاقے کی ضرورت کے خیال سے بھی کھلیں گی۔ تمام بینکوں کا انتظام مربوط ہونے کی وجہ سے کوئی بھی فرد، گروپ یا خاندان بیک وقت کئی بینکوں سے قرضہ نہ لے سکے گا۔ پہلے کی طرح محض معاشی درجہ بندی اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر ملازمین کا تقرر کرنے کی بجائے لوگوں کی انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر تقرریاں کی جائیں گی۔ امانتوں کے حصول کے لئے ناجائز ذرائع کا استعمال استعمال بند ہو جائیگا۔ ملک کی مالی پالیسی کا نفاذ زیادہ موثر طریقے سے ہو سکے گا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "منڈی کی ناکاملیات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ