نوٹ جاری کرنا

نوٹ جاری کرنا⇐ ماضی میں جب مرکزی بنک موجود نہ تھے تو تجارتی بنکوں کو نوٹ جاری کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔ جس کے باعث تمام بنک اپنی تی سے نوٹ نوٹ جاری کرنا ⇐ماضی میں جب مرکزی بنک موجود نہ تھے تو تجارتی بنکوں کو نوٹ جاری کرنے کی اجازت ہوتی تھی جس کے باعث تمام بنک اپنی تی سے نوٹ چھاپتے اور زر کی رسد پر کنٹرول حاصل کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ زر کی فراوانی کے سبب معیشتیں افراط زرکا شکار ہو جاتی ہیں اپنی ۔ چنانچہ ان حالات میں ایک ایسے ذمہ دار ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی جو ملک کے زری و بنکاری نظام کو متوازن خطوط پر استوار کر ے ۔ اس سعی کے نتیجے میں انیسویں صدی کے اختتام تک یورپ کے تمام ممالک میں مرکزی بنک قائم ہو چکے تھے۔ تاہم بیشتر ممالک کے مرکزی بانک 1920 کے بعد وجود میں آئے۔ پاکستان کا مرکزی بنک کیکم جولائی 1948 کو قائم ہوا جس کو حکومتی قوانین کے مطابق نوٹ جاری کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ اس لیے مرکزی بنک کے جاری کردہ زر کو قانونی زر کی حیثیت حاصل ہے اور اسے اشیا ء خدمات کے لین دین 1000,500. کے اجرا کے وقت اورہ میں بطور آلہ مبادلہ بلا روک ٹوک استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بنک نے 100,50,20,10 اور 5000 روپے کے نوٹ جاری کر رکھے ہیں جن کو قبولیت عامہ حاصل ہے۔ ہر ملک کے مرکزی بنک کو نوٹوں. چھاپنے کے اصولوں میں سے کسی ایک اصول پر عمل کرنا پڑتا ہے جو درج ذیل ہیں۔

نوٹ جاری کرنا

معید ضمانت کا اصول

اس اصول کے تحت مرکزی بنک ایک خاص حد تک سونا، چاندی یا منظور شدہ رز مبادله محفوظ رکھے بغیر نوٹ جاری کر سکتا ہے۔ کتان چاندی یا زر مبادلہ محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک میں خاص اور اس حد کے بعد ہر نوٹ کی مالیت کے برابر سوفی صد سونا، گزرنے کے بعد ایک سورد پیہ چھاپنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس کو چھاپنے کی صورت م100فی صد سونا، چاندی یا زر مبادلہ اس کی پشت پر محفوظ رکھنا پڑے گا۔ یادر ہے کسی ملک کے مرکزی بنک کو یہ حد تبدیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ تاہم اس حد کو تبدیل کرنے کا اختیار ملک کی پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے۔ اس وقت یہ نظام برطانیہ، ناروے اور جاپان میں رائج ہے۔ زرکی رسید غیر لچکدار ہونے کے باعث یہ نظام پاکستان میں رائج نہیں کیونکہ ضرورت پڑنے پر مرکزی بنک اس وقت تک نوٹ جاری نہیں کر سکتا جب تک چھاپے جانے والے لوگوں کی مالی کے برابر سونا، چاندی از مبادل موجود نہ ہو۔ اس لیے یہ نظام صرف ان ممالک میں رائج ہے جن کے پاس سونے، چاندی اور دیگر اور اور نہ دھاتوں کے ذخائر موجود ہیں۔ جن ممالک میں یہ نظام رائج ہے وہاں کرنی کی فراوانی اور افراط زر کامسئلہ در پیش نہیں ہوتا اور نہی یوں قیمتی میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ )

 متناسب محفوظات کا نظام

م اس نظام کے تحت مرکزی بنک کو نوٹ جاری کرتے وقت ایک خاص تناسب سے سرمایہ محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ کوئی مرکزی بنک جتنے لوٹ جاری کرتا ہے ان کی پشت پر مقررہ تناسب کے حساب سے سونا، چاندی یا منظور شدہ زرمبادلہ بطور ضمانت رکھنا پڑتا فید ہے یعنی جانے والے نوٹوں کی پر فقر را کو ہے۔ پاکستان میں یہ تناسب 30 فیصد ہے۔ یعنی پاکستان میں مرکزی بنک چھاپے جانے والے نوٹوں کی پشت پر30 فیصد زرمبادلہ محفوظ رکھو کر چھتے چاہے نوٹ چھاپ سکتا ہے۔ جبکہ چھاپے جانے والے نوٹوں کی باقی مالی کو ملکی اثاثوں کو گروی یا رہن رکھ کر پوراکیاجاتا ہے مخلفہوتاہے۔ کےمطابق کم یا ممالک میں سرمائے محفوظ کا تناسب مختلف ہوتا ہے۔ جس ملکی حالات کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی منظوری حکومت کی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ یہ نظام پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکہ، جرمنی اوردنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے جسکی وجہ نظام کی لچک پذیری کمک نذیراہے ۔ جس کے تحت مرکزی بنک حسب ضرورت زیرکی مقدار میں کی یا بیشی لا کر افراط زر اور قیمتوں کو اتحکام فراہم کر سکتا ہے۔

حکومت کا بنک

دی کو دی خدمات مہیا کرتا ہے جو تجاری تک اپنے گاہکوں کے لیے سرانجام دیتا ہے۔ مرکزی بنک حکومتی معاملات کو متوازن رکھے اور دیگر مرکزی بنک حکومت کے بنک کے طور پر مال مشیر کی حیثیت سے اپنے فرائض بڑی مہارت سے سرانجام دیتا ہے۔ یہ بنک حکومت 59 باب 3وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی امانتیں اپنی تحویل میں رکھ کر انھیں قلیل المیعاد اور طویل المیعاد قرضے جاری کرتا ہے۔ (1) وفاقی اور صوبائی وصولیوں اور ادائیگیوں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے لیک کی وصولیاں اور سرکار تنخواہوں کی ادائیگیاں کرتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی تحیل کو یقینی بنانے کے لیے درج ذیل کام سرانجام دیتا ہے ۔۔ حکومت کو تر قیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے طویل المیعاد قرضے فراہم کرتا ہے۔ حکومت کے لیے ملکی اورغیر ملکی ذرائع سے قرضے وصول کرتا ہے اور زرمبادلہ کی بین الاقوامی ادائیگیوں اور وصولیوں کو آسان بناتا ہے۔ حکومت کے لیے کفالتوں کی خرید وفروخت کا کام کرتا ہے۔ حکومت کے تمام سرمائے کا محافظ ہوتا ہے۔ توازن ادائیگیوں کی خرابی کے پیش نظر حکومت کو ملکی کرنسی کی قدر میں تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیتا ہے۔

حکومت کا بنک

 بنکوں کا بنک 

مرکزی بنک ملک کے بنکاری اور زری نظام کا سر براہ ہوتا ہے۔ ملک کے تمام بنک اس کے وضع کردہ اصول وضوابط کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں اس لیے مرکزی بنک ملک کے بنکوں کا بنک کہلاتا ہے۔ مرکزی بنک تجارتی بنکوں کے لیے درج ذیل خدمات سر انجام دیتا ہے۔ تجارتی بنکوں کی ہنڈیوں پر دوبارہ بٹہ لگا کر انھیں قرضے فراہم کرتا ہے۔  تجارتی بنکوں کو اپنی نئی شاخیں کھولنے کے لیے مرکزی بنک سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ تمام تجارتی بنکوں کو اپنے کل سرمائے کا کچھ حصہ محفوظ زر کے طور پر مرکزی بنک کے پاس امانت کے طور پر رکھنا پڑتا ہے۔ (1) ہر فہرتی بنک اپن کاروبار کی ماہانہ اور الاندر پورٹ باقاعدگی سے مرکزی بنک کو ارسال کرتا ہے۔ جس کی روشنی میں مرکزی بنک انھیں ہدایات جاری کرتا ہے۔

بنکوں کے محفوظ سرمائے کا محافظ 

بنکوں کے محفوظ سرمائے کا محافظ 

چونکہ تجارتی بنکوں کو اپنی کل امانتوں کا 5 سے 10 فی صد حصہ زر نقد کی صورت میں محفوظ سرمائے کے طور پر مرکزی بنک کے پاس جمع کروانا پڑتا ہے اس لیے مرکزی بنگ بنکوں کے محفوظ سرمائے کا محافظ اور نگران ہوتا ہے۔ اس لیے مرکزی بنک حسب ضرورت محفوظ سرمائے کے تناسب میں کمی یا بیشی کر کے تجارتی بنکوں کے زراعتبار تخلیق کرنے کے عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ملک میں زر کی رسد بڑھانا مقصود ہوتو مرکزی بنک محفوظ سرمائے کی شرح کم کر کے اپنے تابع بنکوں کو ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ قرضہ فراہم کر کے زرگی رسد کو بڑھا ئیں۔ اس طرح زر کی رسید کو کم کرنے کے لیے محفوظ سرمایہ کی شرح بڑھا دیتا ہے۔ تجارتی بنکوں کونقد ز محفوظ رکھنے کے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

بینک (Bank)

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو   اس کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment