ٹیکس کلچر

ٹیکس کلچر کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اقدامات کرے ۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت ، اندرون ملک امن وامان کا قیام ، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ( قانون ساز ادارے) کا قیام ، عوامی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات ، بے روزگاری کا خاتمہ، افراط زر اور تفریط زر کی صورت حال کو کنٹرول کرنا ۔ ملک کے مختلف حصوں کو یکساں ترقی دینے کے لئے اقدامات کرنا اور شہری و دیہی آبادی کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ حکومت کے لئے ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے عوام کا بھر پور تعاون حاصل نہ ہو۔ عوام کے تعاون کی ایک شکل حکومت کی طرف سے عوام پر عائد شد محصولات ٹیکسوں کی ادائیگی ہے۔ کوئی بھی حکومت اس وقت تک مذکورہ بالا مقاصد حاصل نہیں کر سکتی جب تک اس کے پاس آمدنی اور مالیات نہ ہوں ۔ دور جدید میں حکومتی آمدنی کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ وہ محصول ٹیکس ہیں جو حکومتیں عوام پر عائد کرتی ہیں۔ پروفیسر ڈی وی ٹی  پاکستان کی قومی آمدنی کے بقول ٹیکس  حکومت کی ان خدمات کا معاوضہ ہے جو وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرانجام دیتی ہے مثلاً بیرونی حملوں سے بچاؤ کے امان لئے فوج رکھنا، اندورن ملک امن و امان قائم رکھنا، پولیس اور عدالتوں کا وسیع انتظام کرنا وغیرہ۔ حکومتوں کو ادا کئے جانے والے ٹیکسوں کی کئی اقسام ہیں ۔ ان ٹیکسوں کو ہم دو بڑی اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

براہ راست محصول

بالواسط محصول

وغیرہ جائدادنس  دولت مکس  براورات ٹیکسوں میں مدنی ٹیکس ال ہی کہ بالا اکیسوں میں ری مکس (Sales Tax) ایکسائز یونی  امیر شامل ہیں۔ براہ راست ٹیکس کی ادائیگی کرنے والا شخص فیکس کی رقم براہ راستحکومت خزانہ میںجمع کرواتا ہے جبکہ بالواسط کیس کی کاروباری دار و غیرہ کوادا کیا جاتا ہے اور وہ ادارہ حکومتی خزانہ میں جمع کرواتا ہے مثلاً مختلف اشیا پرسیلز ٹیکس وغیرہ۔ اچھے نظام محصول کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد ماہرین معاشیات کی طرف سے دیئے گئے اصولوں پر رکھی گئی ہو جو نظام سادہ ترین اور عام فہم ہو گا وہی کامیاب ہوگا۔ پیچیدہ اور نہ سمجھ میں آنے والے نظام محصولات کا نفاذ لوگوں میں اس نظام سے نفرت کی صورت میں لکھتا ہے۔ اس طرح اس نظام ٹیکس کا نتیجہ اگر معاشرہ میں دولت کی منصفانہ تقسیم کی صورت میں نکلے، زیادہ سے زیادہ رقوم کم سے کم شرح ٹیکس کی صورت میں جمع ہوں ، ٹیکس دہندگان پر ٹیکس ان کی ادائیگی کی صلاحیت  کے مطابق لگایا جائے، ٹیکس جمع کرنے پرکم سے کم اخراجات اٹھانے پڑیں۔ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام ٹیکس دہندگان کے لئے آسان ہو، اس طرح اس نظام میکس میں لچک ہو، ادائیگی کے وقت اور رقم کی ادائیگی کے بارے میں ٹیکس دہندگان کو پوری معلومات ہوں ۔ ٹیکس دہندگان پر اعتماد کیا جائے۔ ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی زیادہ سے زیادہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہو اور حکمرانوں کی عیاشیوں اور بے جا اخراجات پر ضائع نہ ہوتی ہوتو ملک میں ایک اچھا ٹیکس کلچر وجود میں آسکتا ہے۔ عوام ٹیکس کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں ۔ ٹیکس چوری کا کلچر فروغ نہیں پاتا۔ بصورت دیگر لوگ ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کے لئے طرح طرح کے بہانے تراشتے ہیں ، رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے، جیکس چھپانے اور جھوٹ بولنے کا کلچر عام ہو جاتا ہے۔ یوں کل وصولی میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کے ٹیکس کلچر یجے میں لوگ ٹیکس چوری کے لئے نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ماہرین معاشیات و تجویز کرتےہیں کہ مل میں کی کچھ کو فروغ میں اپنے کے لئے لیکس کے نظام کو سادہ، عام فہم اور عوام دوست بنایا جائے تا کہ ملک معاشی طور پر خود کفالت اورترقی کی منازل طے کر سکے۔

پاکستان میں ٹیکس

کلچر پاکستان کی آبادی  ملین ہے۔ لیکن اتنی بڑی آبادی والے ملک میں ٹیکس گزاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس میں بھی اکثریت خواہ دار طبقے کی ہے۔ حالانکہ گذشتہ  سالوں میں مالدار طبقہ کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں پراپرٹی کے کاروبار میں لوگوں ۔ آمدنی میں ان نے اربوں روپے کمائے ہیں۔ لیکن ملک کی تر وخوشحالی کے لیے جس اندازمیں کی کلی کو فروغ پانا اضافہ ہونا چاہیے تھا ایسا نہیں ہو سکا ۔ آج بھی پاکستان میں خام ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکس کی شرح فیصد بنتی ہے جو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بجٹ میں اعلان کیا گیا کہ پاکستان میں مزید  لاکھ ایسے افراد کی نشاندہی ہوچکی ہے جو ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہیں تاہم اس سال ان میں سے  کو لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا اور ان میں سے ابھی 71 ہزار لوگوں کو نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔ میں سے کولوگوں نیٹ جائےگا میں سے سال پاکستان میں مختلف سالوں میں ٹیکس وصولی ٹیکس وصولی کی شرح حیرت انگیز کم ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کا صیح انداز میں پروان نہ چڑھنا ہے۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ اکنا مک سروے میں اس کی درج ذیل وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

پاکستان میں مختلف سالوں میں ٹیکس وصولی

پیچیده نظام نلکس غیر مستعد غیر لچک دارغیر منصفانہ ناجائ

ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے حکومتی اقدامات

مرکزی و صوبائی سطح پر ٹیکسوں کی تعداد کم کی گئی۔ ٹیکس انتظامیہ میں بنیادی سطح پر تبدیلیوں کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان میں سیکس کھر کو فروغ دینے کے لیے حکومت پاکستان نے سال  میں درج ذیل اقدامات کئے ہیں۔ کالا دھن سفید کرنے کی تمام سکیموں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ نے سیلز ٹیکس دہندگان بڑھے۔ میکس سر دے کر وایا گیا اور ڈاکومنٹیشن کی گئی۔ اس کے نتیجے میں  نئے ائم لیکس دھندگان کا اضافہ ہوا اور  دولت نیکسکو ختم کر دیا گیا۔ زرعی ٹیکس کے نفاذ کا آغاز کیا گیا۔ جنرل سیلز ٹیکس  کا دائرہ کار وسیع کیا گیا۔ سیلز ٹیکس واپسی  کے نظام کو سہل بنانے کے لئے الیکٹرانک طریق کار کا آغاز کیا گیا۔ کے نظام ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے لوگوں کو ٹیکس کے تعین میں خود کار نظام ٹیکس  کا آغاز کیا گیا اور ٹیکس دہندگان پر اعتماد کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کئے گئے۔ اور مس کراچی میں بڑے پیمانے کا ٹیکس ادائیگی کا یونٹ اور اور اور پشاور میں درمیانے درجے کا قائم کیا گیا۔یونٹ حکومت پاکستان نے وقتا فوقتا ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں لوگوں میں ٹیکس ادائیگی کا شعور اور کلچر فروغ پارہا ہے لیکن اس نظام پر لوگوں کے اعتماد کو فروغ دینے کے لئے ابھی بھی بہت سے اقدامات کرنا ضروری ہیں تا کہ لوگوں کا نظام ٹیکس پر اعتماد بحال ناس پر ہوا اور وہ اسے اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ٹیکس کلچر کا حصہ بنیں۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

سرکاری مالیات

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو   اس کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment