پاکستان میں رسد زر ⇐ اگر ہم ایک کی رقم کو بھی گردشی کرائی میں شامل کر لیں تو ہمارے ہاں زرگی رسد کے مندرجہ ذیل اجزاء بنتے ہیں ۔ او مدتی امانتیں طلبی امانتیں سٹیٹ بینک کے پاس دیگر پارٹ ملک کی مجموعی گردشی کرنسی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی کل رسد زرکا بڑا حصہ گردی کرنسی پر مشتمل رہا ہے تاہم بینکاری کے نظام کی وسعت کے ساتھ ساتھ جب بینکوں کے پازٹ میں اضافہ ہوا تو گردشی کرنسی کا تناسب کم ہوتا چلا گیا۔ مثلا 1958 ء میں گردشی کرنسی کل رسد زر کا تقریبا 42.2 فیصد تھی اور 50 سال بعد 2008 ء میں یہ تناسب گھٹ کر 22.3 فیصد تک آگیا ہے۔ بہر طور قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک معاشی کارکردگی میں پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ زر کی رسد بھی مسلسل بڑھتی رہی ہے۔ اس زری پھیلاؤ کی عمومی مشکل حسب ذیل رہی ہے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو صرف 2004ء سے 2008ء کے عرصے میں زرگی رسید میں اضافہ تقریبا 81 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ گردشی کرنی ہمارے ہاں اہم تناسب میں موجود رہی ہے۔ اس کی مالیت 2001 ء میں 375465 ملین روپے تھی مارچ 2008ء تک اس کی مالیت 506536 ملین روپے ہو چکی تھی۔ اس طرح 2001 ء سے مارچ 2008 تک میں بھی تقریبا 282950 ملین روپے کا اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ مارچ 2008ء میں ملین روپے تک پہنچ چکے تھے۔ اسی طرح بینکوں کی طرف سے جاری ہونے والے قرضے بھی جو 2002 کو محض روپے پر مشتمل تھے مارچ 2006ء تک 2722452ملین روپے تک جاپہنچے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ۔ 1974 ء کے بعد کے اعداد دثار میں سابقہ مشرقی پاکستان کی رسد در کی مقدار شامل نہیں۔ اس کے علاوہ و میں مصجہ ذیل چیزیں شامل ہیں۔ فہرستی دینگوں کے نام اور اس پارٹ سٹیٹ بینک کے دیگر ن پارت ڈاکخانے کے سیونگ بینک ڈیپازٹ البتہ ان میں غیر ملکی قرضے کے اکاؤنٹ ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا اکاؤنٹ نمبر 1 اور کاؤنٹر پارٹ فنڈ شامل نہیں۔ 2001ء سے لیکر 2008ء تک 7 سال کے عرصے میں زیر گردش کرنسی کی مقدار دو گنا سے بھی زیادہ ہوگئی۔ طلبی امانتوں میں 6 گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ دتی امانتیں تقریبا 11 گنا کم ہوگئیں۔ مرکزی بینک کے پاس دیگر امانتوں کی مالیت قریبا 4 گنا کم ہوگئی البتہ سٹیٹ بینک کے پاس فہرستی بینکوں کی امانتوں کی مالیت 3 گنا سے زیادہ ہوگئی ۔ سیا مانتیں 1139287 ملین روپے سے یہ کر 3422237 ملین روپے ہوگئیں۔ فارن کرنسی میں امانتوں کی مالیت جون 2001 ء میں 154154 ملین روپے تھی جو 2008 ء میں بڑھ کر 234882 ملین روپے ہوگئی۔ اس طرح اس مد میں امانتوں کی مالیت 1/2 گنا سے بھی زیادہ ہوگئی۔ ان تمام مدات کو جمع کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2001ء سے 2008ء کے سالوں میں کل زری اثاثوں کی تمام غیر قبرستی اور امداد باہمی کے بینکوں کے ڈپازٹ مالیت 4 گنا ہو گئی ہے۔
قیمتوں میں اتار چڑھاؤ
ترقی پذیر معیشتوں میں قیمتوں کی سطح کا اتار چڑھاؤ ایک پیچیدہ اور نازک عمل ہوتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں یہ مسلہ اور زیادہ شدت اختیار کر گیا کیونکہ ملک کے قیام کے وقت سے ہی یہاں کی معیشت کو دوسرے ممالک کے برعکس زر مبادلہ کی بے پناہ قلت، جہاز رانی کی ناکافی سہولیات اور اسی طرح کے دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں یہاں کی اشیائے صرف بالخصوص غذائی اور درآمدی اشیاء کی قیمتیں بے پناہ چڑھ گئیں۔ تمبر 1949ء میں برطانیہ نے اپنے سکے (پاؤنڈ سٹرلنگ کی قیمت میں کمی کا اعلان کر دیا۔ ہندوستان سمیت بیشتر متعلقہ ممالک نے اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اپنے سکوں کی قیمت گھٹانے کا اعلان کر دیا۔ بہر حال پاکستان نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف تو پاکستان نے اپنی برآمدات مثلاً پٹ سن اور کپاس کی قیمتوں کو متاثر ہونے سے بچالیا اور دوسری طرف یہ برطانوی مصنوعات بھی نسبتا کم قیمت پر خریدنے کے قابل ہو گیا ۔ 1954ء میں معاشی صورتحال کچھ بہتر ہو گئی اور خاص طور پر غذائی اجناس کے شعبے میں بہتری کے آثار پیدا ہو گئے۔ آئندہ دو تین برس میں صنعت کے میدان میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی ۔ کاشن ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور کاغذ کی پیداوار بڑھ گئی۔ بہر حال قلت پوری طرح ختم نہ ہوئی اور اشیائے صرف (بالخصوص درآمدات) کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان بدستور موجودرہا۔ اسی دوران ایک بار پھر پاکستانی معیشت خارجی طور پر بین الاقوامی تجارت کے سلسلے میں اور اندرون ملک پیداوار (خاص طور پر غذائی اجناس) کے سلسلے میں بحران کا شکار ہوگئی۔ بیرونی تجارت میں بحران کا بنیادی سبب بڑھتی ہوئی درآمدی قیمتیں تھیں چنانچہ اپنی برآمدات کو سنبھالا دینے کی غرض سے 1955ء کے وسط میں روپے کی قیمت میں کمی کا اعلان کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں برآمدات کی قدر میں ایک سال میں 56 کروڑ روپے سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہیں اندرون ملک بھی قیمتوں پر کنٹرول کی پالیسی اپنائی گئی۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے قیمتوں کو ممکنہ حد تک مستحکم رکھنے اور اشیائے صرف کی رسد کو عام سطح پر بحال رکھنے کی غرض سے مندرجہ ذیل پر اس کنٹرول آرڈر جاری کئے۔
- ضروری اشیاء پر کنٹرول کا حکم مجریہ1965
- 1965 کائن کپڑا کنٹرول کا حکم مجریہ
- کاشن یارن کنٹرول کا حکم مجریہ1965
بعد ازاں 25 اکتوبر 1965ءکو قیمتوں میں استحکام اور ان کے نظام پر کڑی نظر رکھنے کے لئے وزارت صحت میں قائم کیا گیا جس کے فرائض میں قیتوں کے بارے میں مرکزی حکومت کو سفارشات پائیں کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اشیائے صرف کی رسد بڑھانے کی غرض سے ایک طرف تو مطلوبہ درآمدات بڑ ھادی تیں اور دوسری طرف اندرون ملک زری اور سنتی اشیا کی پیداوار میں اضافے کی مہم چلائی گئی نینجا سال 68-1967ء تک حالات بہتر صورت اختیار کرنے لگے۔ بہر حال 1969ء کے دوران تیستیں بلند ہی رہیں ۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پہلے اور دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی مدت میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی سطح اوسط 29 فیصد سالانہ تھی جبکہ تیسرے پنج سالہ منصوبے کے دوران یہ بڑھ کر 44 فیصد تک جا پنچی تھی ۔ 1970 ء سے شروع ہونے والے عشرے کے آغاز سے ہی پاکستانی معیشت گوناں گوں وجوہات کی بنیاد پر بری طرح افراط زر اور مہنگائی کی لپیٹ میں آگئی اور ملک کے پالیسی سازوں کے لئے بھی تشویش کا سامان بن گئی ۔ 71-1970 ء کے مالی سال میں اس افراط زر کا پہلا دور شروع ہوا اور تھوک نرخوں میں 6.2 فیصد اور پر چون نرخوں میں 5.7 فیصد سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ افراط زر 74-1973ء کے مالی سال میں انتہائی عروج پر پہنچا اور پھر 77-1976 ء تک یہی صورتحال قائم رہی ۔ 73-1972 ء سے 77-1976ء تک کے درمیانی عرصے میں تھوک نرخوں میں اضافے کی شرح 18.4 فیصد اور پرچوں نرخوں میں اضافے کی شرح 17.5 فیصد سالانہ تک جاپہنچی۔ اس شدید اضافے کے بنیادی عوامل میں مندرجہ ذیل باتیں بہت اہم ہیں۔ (1) ملک میں رونما ہونے والی معاشی ، سیاسی ، سماجی تبدیلیاں ۔ ملک میں زری سپلائی میں بے حد پھیلاؤ پیداوار میں بے انتہا کی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ مئی 1972 ء سے روپے کی قدر میں بے حد تخفیف ۔ vi 1973 ء میں اوپیک کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ 1977-78ء اور 79-1978ء کے مالی سالوں کے دوران افراط زرکا دباؤ کم ہوا او تور نرخوں میںسالانہ ضافہ 6.5 فیصد اور پر چون نرخوں میں سالانہ اضافہ 6.7 فیصد سالانہ ریکارڈ کیا گیا۔ اگر چہ ان سالوں میں بھی ملک میں مقدار ار میں اضافہ، بیرون ملک جانے والے افراد کی طرف سے آنے والے سرمائے میں اور برآمدات سے حاصل ہونے والے اور پر زرمبادلہ میں اضافہ، درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ وغیرہ برقرار رہے پھر بھی مختلف طریقوں سے افراط زر پھیلانے والی ان وتوں کو متوازن کر ہی لیا گیا ، بعد ازاں سال 2000ء سے افراط زر پھیلنا شروع ہو گیا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں رسد زر" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ