پاکستان میں صحت کی سہولیات

پاکستان میں صحت کی سہولیات پاکستان میں صحت کا نظام بڑی حد تک نجی سیکٹر پر منحصر ہیں پاکستان میں 80 فیصد کے قریب مریض نجی کلینکس کا رخ کرتے ہیں۔ جون 2011ء سے صحت کی سہولیات کی ذمہ داری صحت کے صوبائی محکموں کے سپر د ہے۔ ان ذمہ داریوں کا تعلق بنیادی طور پر منصوبہ بندی اور فنڈز کی تقسیم سے ہے۔ اور ابھی تک صحت کے صوبائی محکمے ہی پبلک سیکٹر میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ۔ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی شہری علاقے صحت وصفائی کے بہتر انتظامات کے حامل ہیں البتہ دیہی علاقوں میں حالت کافی مخدوش ہے۔ آبادی کا 19 فیصد اور 5 سال سے کم عمر 30 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔

پاکستان میں صحت کی سہولیات

عملہ

  1. سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 کروڑ سے زائد آبادی کیلئے ملک میں ایک لاکھ 27 ہزار 859 ڈاکٹرز
  2. اور بیشتر پاکستانی ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں بس رہا ہے
  3. جس کی وجہ سے ملک کے علمی  ہجرت کا سامنا ہے

اور دائمی امراض کے علاج کی مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اکیلے امریکا میں ہی 17 ہزار پاکستانی نژاد ڈاکٹر ز موجود ہیں۔ امریکا میں عالمی سطح پر میڈیکل گریجویٹ ڈاکٹروں کا چوتھا بڑا ذریعہ پاکستان ہی ہے جبکہ امریکہ میں ڈینٹسٹ کا لائسنس حاصل کرنے وا لے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تعداد کے حوالے سے بھی پاکستانی چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔

خدمات

ڈاکٹر شیخ تنویر احمد کے مطابق پاکستان میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں میں نرسنگ کا اہم کردا ہے۔ 2009ء میں نرسنگ کا شعبہ ملک کا اہم ترین مسئلہ بنا ہوا تھا اور اس میں اصلاح کیلئے بڑی علمی بحثیں ہوتی رہیں  2009ء میں  پاکستانی حکومت نے نرسنگ کے شعبے کو بہتر بنانے کیلئے اپنی خواہش اور عزم کا اظہار کیا۔

 دندان سازی

نجی اور پرائیوٹ دونوں سیکٹرز میں دیکھا جائے تو پاکستان میں 70 سے زائد ڈینٹل سکولز  قائم ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں 11 ہزار 500 دانتوں کے ڈاکٹر رجسٹرڈ ہے۔ چار سالہ تربیت کے بعد بچلر آف ڈینٹل سرجری (بیچلر آف ڈینٹل سرجری، بی ڈی ایس) کی ڈگری ملتی ہے۔ جبکہ رجسٹریشن کیلئے ایک سال کی انٹرن شپ لازمی ہے۔

 دندان سازی

فارمیسی

پاکستان میں فارماسوٹیکل انڈسٹری پچھلی کچھ دہائیوں میں فروغ پائی ۔ 1947ء میں چند ایک ادویہ ساز  ادارے ہی کام کر رہے تھے۔ اس وقت ملک میں 25 کے قریب ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 400 کے قریب یونس قائم کر رکھے ہیں۔ موجودہ دور میں فارما سوٹیکل سیکٹر کافی بہتر ہو گیا ہے۔

  • پچھلے چند سالوں میں ملک بھر میں نئے فارمیسی سکول قائم ہوئے ہیں
  • جس کی وجہ سے فارمیسی کی تعلیم میں حوصلہ افزا کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
  • پنجاب میں دیکھا جائے تو پنجاب فارمیسی کونسل ایسا سرکاری ادارہ ہے
  • جو کہ فارمیسی کے امتحانات کا اہتمام کرتا ہے۔

 کمیونٹی میڈیسن

پاکستان اپنی آبادی کو صحتمند رکھنے کے ہدف پر کام کر رہا ہے، جس کا واضح ثبوت سوشل ایکشن پروگرام (ایس اے پی) کی مسلسل معاونت ہے۔ مزید براں حکومتی سطح پر جو پالیسی تشکیل دی گئی ہے اس میں آبادی کی صحت اور غذائیت کے مسائل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ تاہم اس میں مزید کام کی ضرورت ہے۔

  لیڈی ہیلتھ ورکرز

کمیونٹی بیسڈ ہیلتھ پروگرام میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کردار نمایاں ہے، یہ ہیلتھ ورکر ز خواتین کو ان کی دہلیز پر صحت کے حوالے سے معلومات بہم پہنچاتی ہیں اور فیملی پلاننگ کے حوالے سے مفید مشوروں سے نوازتی ہیں۔ اس وقت 96 ہزار کے قریب خواتین اپنے آبائی دیہات میں صحت کی سہولیات بہم پہنچا رہی ہیں۔


معاشرتی رتبے میں فرق اور اموات 

  • جدید دور میں لوگوں کا معاشرتی رتبہ اور معاشی حیثیت کا صحت کی صورتحال
  • اور اموات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
  • پیسہ اور صحت کی سہولیات کو یقینی بنانے کی صلاحیت بڑی حد تک ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔
  • دراصل جتنا کسی کا معاشی و معاشرتی مقام کم ہوتا ہے۔
  • اتناہی وہ شخص زیادہ غیر محفوظ ہو جاتا ہے
  • اور اسے موت کا خطرہ دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

خواہ وہ بیماری کی موت ہو یا بڑھاپے کی۔ مشہور مفکر اور کمیونزم کے حامی کارل مارکس کے نزدیک مزدورں میں اموات کی شرح زیادہ ہونا سرمایہ کارانہ نظام کا شاخسانہ ہے جب کہ اس کے نزد یک سوشلزم آنے سے یہ مزدور اور مالک میں موت کی شرح کا فرق ختم ہو جائیگا۔ دنیا سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار بھی یہ بتاتے ہیں۔

معاشرتی رتبے میں فرق اور اموات 

معاشرتی مقام و منصب

کسی شخص کا معاشرتی مقام و منصب اگر بلند ہوتا ہے تو وہ عام طور پر زیادہ لمبی زندگی جیتا ہے۔ یہاں ایک بات اہم اور غور طلب ہے کہ اموات سے متعلق درست اعداد و شمار ا کٹھے کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی حیثیت و مقام اور معاشی حالت کو جانچنا مشکل کام ہوتا ہے ۔ اکثر لوگ یا تو اموات کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتاتے ۔ چھوٹی عمر کے بچوں کی اموات چھپاتے ہیں اور دوسری طرف بہت کی اموات کا اندارج بھی نہیں ہو پاتا۔

حقیقی معلومات

اس کے علاوہ معاشی مقام کے لحاظ سے اگر خواتین سے معلومات اکٹھی کی جائیں تو بعض اوقات حقیقی معلومات چھپائی جاتی ہیں اور بھی کبھار انہیں خود حقیقت میں پتہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر زراعت پر مبنی دیہی علاقوں کی بات کریں تو ان کی درست آمدنی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ دودھ گندم پانی انڈے وغیرہ ان کے گھر میں ہی بعض اوقات دستیاب ہوتے ہیں۔

  • جو ماہانہ آمدنی میں شمار ہی نہیں کئے جاتے ۔
  • وہ معاشرتی رتبے کے عناصر
  • جو عام طور پر اموات کی شرح پر اثر انداز ہو سکتے ہیں
  • ان میں پیشہ آمدنی، تعلیم ازدواجی حیثیت ، جنس ، عمر اور لسانیت وغیرہ شامل ہیں۔

پیشہ

پیشہ کے لحاظ سے شرح اموات کے اعداد و شمار اکٹھا کرنا اور پیشے اور اموات میں باہمی تعلق کا مطالعہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ کہ ایک ہی پیشے سے وابستہ افراد کا رہن سہن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موت سے جڑے کسی خطرے کو پیشے سے جوڑنا بہت آسان نہیں۔ اصل میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی خاص قسم کی موت اگر کسی ایک پیشے کے افراد میں زیادہ رہے

 خاندان کے پس منظر

اور کسی اور پیشے کے افراد میں کم ہو تو اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ اس کی وجہ وہ پیشہ ہی ہے۔ ہو سکتا ہے روز مرہ زندگی کے طریقہ کار کا کوئی اور پہلو ہو جو دراصل اس رجحان کی وجہ ہو۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے خاندان کے پس منظر میں معاشی طوپر پر مستحکم ہونے کی وجہ سے کوئی شخص اپنے پیشے کے دیگر افراد سے مختلف زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔

پیشہ کا اثر

پیشہ کا اثر دیکھنے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پیشے کے لحاظ کے مطالعہ کے وقت لوگوں کی بیویوں سے متعلق معلومات بھی لی جائیں تاکہ اگر وہاں ایک جیسے رجحان ہوں اور مردوں میں فرق آجائے تو ممکن ہے کہ یہ فرق کسی خاص پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے آیا ہو۔ دنیا بھر سے اکٹھی کی گئی معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے

  • کہ وہ پیشے جن کا وقار معاشرے میں زیادہ ہوتا ہے
  • ان سے وابستہ افراد نسبتا زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔
  • اس کے علاوہ بہت سے ایسے پیشے ہوتے ہیں
  • کہ جن کا کام بنیادی طور پر صحت پر اثر ڈال رہا ہوتا ہے۔

بیماریوں سے متعلق  پیچیدگی

لوگوں میں اموات کے خطرے کو بڑھاتا ہے ۔ مثلاً وہ مزدور جو چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، سٹیل مل میں کام کرتے ہیں پہاڑوں میں کان کنی سے وابستہ ہیں یا گہرے سمندر میں ماہی گیری کرتے ہیں یہ سب کے سب کسی نہ کسی حوالے سے عام لوگوں کی نسبت موت کے خطرے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ چھڑے کے کارخانوں میں کام کرنے ولاے افراد کے کام کی جگہ پر مختلف کیمیکلز ان کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں وا میں بہت زیادہ بدبو و آلودگی ہوتی ہے جس کی وجہ سےمسلسل کام کرنے سے اور اگر بہتر حالت تدابیر نہ کی کی گئی ہوں تو ایسے افراد اکثر سانس کی بیماریوں اور پھپھڑوں سے متعلق دیگر پیچیدگیوں کاشکار ہوجاتے ہیں۔

  • وہ مزدور جو سٹیل مل دیگر سخت کام کرنے والے کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔
  • کئی طرح کے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔
  • مثلا سٹیل مل میں گرم لوہا آگ اور تیز کاٹنے والے آلات وہ خطرات ہیں
  • کہ اگر تھوڑی سی غفلت برتی جائے تو انسان کی زندگی جاسکتی ہے۔
  • اس کے علاوہ آپ آئے دن مختلف کانوں میں ہونے والی اموات کے بارے میں سنتے ہوں گے
  • کہ پہاڑ ٹوٹ جانے سے کان میں مزدور دب گئے وغیرہ
  • مگر دوسری طرف وہاں کام کرنے کے انسانی صحت پر دیگر بہت سے مضر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

آمدنی معاشی سطح

آمدنی اور اموات کی شرح میں واضح تعلق پایا جاتا ہے۔ حیران کن حد تک ہمیشہ سے آمدنی کی سطح اور شرح اموات میں تعلق مضبوط اور واضح ہے۔ پوری دنیا سے اکٹھی کی گئی معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جوں جوں لوگوں کی آمدنی کی سطح او پر جاتی ہے ویسے ویسے ان میں شرح اموات کی سطح نیچے ہوتی جاتی ہے۔ دراصل یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ انسان کی زندہ رہنے اور صحت مند رہنے کی بنیادی ضروریات کیا ہیں تو علم ہوگا کہ خوراک مکان صاف پانی لباس اور علاج معالجہ کی سہولتوں تک آسان رسائی وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا آدمی جس کی آمدنی بہت قلیل ہو تو وہ کیسے بہتر خوراک خریدے گا

ہدایت

موسم کی ضرورت کے مطابق لباس پہنے گا مکان خریدے گا یا کرایہ پر لے گا’ ڈاکٹر اور علاج کے اخراجات کیسے پورے کرے گا۔ اتنی مہنگائی کے اندر جب کوئی شخص یہ تمام ضروریات اپنے اور اپنے خاندان کے لئے پوری کرنے کے قابل ہی نہیں ہو گا تو تو کیسے اس کی اور اس کے خاندان کے افراد کی زندگی اور صحت محفوظ ہوگی۔ موجود حالات میں اگر خدانخواستہ کوئی انسان شدید بیمار ہو جائے تو ایک طرف تو سرکاری ہسپتالوں کی تعداد بہت کم ہے اور دوسری طرف بہت سی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں

لیبارٹری سے متعلق اخراجات

  • ایسی صورتحال میں ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کی فیس 
  • تشخیص کے لئے ٹیسٹ کرانے کے لئے لیبارٹری سے متعلق اخراجات وغیرہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں
  • کہ ایک غریب اور کم آمدنی والے شخص کے لئے ان کو پورا کرنا بہت دشوار امر ہے۔
  • جب کہ دوسری طرف ایک ایسے شخص کی مثال لیں۔
  • جس کی آمدنی بہت زیادہ ہے
  • تو اول تو اسے خوراک لباس مکان اور صاف پانی جیسے مسائل کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا
  • اور اگر ہو گا بھی تو ایک کم آمدنی والے شخص کی نسبت کافی کم مسائل در پیش ہوں گے۔
  • دوسری طرف بیماری کی صورت میں ایسا شخص بہت آسانی سے اپنا علاج بہتر طور پر کروا سکتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو  پاکستان میں صحت کی سہولیات کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

……………….پاکستان میں صحت کی سہولیات……………..

Leave a comment