پاکستان میں مزدورا مجمن تحریک ⇐ مزدور انجمن سے مراد مزدور طبقے کی جانب سے ایک ایسا رضا کارانہ اتحاد ہے جو وہ اس لئے کرتے ہیں کہا کے دریا نے ان عادات کا تو کرسی کی باری کی ہے کہ ان کا یہ نہیں کرتے۔ اس لئے انفرادی طور پران کی قوت سودابازی بہت کمزور ہے چنانچ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے وہ باہم ل کر ای انجمن پا لیتے ہیں اور مشترکہ طور پر آجروں یا مل مالکوں کے ساتھ شرائط ملازمت طے کرتے ہیں، جسے اجتماعی سودابازی کا اصول بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ارتقاء
برصغیر پاک و ہند میں مزدور انجمن تحریک کا آغاز 1880ء میں ہوا اور اس تحریک کو با قاعدہ شکل دینے کے لئے 1926ء میں پہلی بار ٹریڈ یونین ایکٹ پاس کیا گیا۔ قیام پاکستان کے مختلف ملک میں رجسٹرڈ مزدور انجمنوں کی تعداد صرف 75 تھی اور وہ بھی صرف مغربی پاکستان میں۔ ان انجمنوں کا زیادہ حصہ ریلوے اور ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے متعلق تھا اور اب بھی اس شعبہ میں مزدور طبقہ سب سے زیادہ ہے۔ 2005ء میں مزدور انجمنوں کی تعداد 7204 سے بڑھ چکی تھی جن کے ساتھ دس لاکھ سے زیادہ مزدور منسلک تھے۔ گو کہ پاکستان میں مزدور انجمنوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہے جو درج ذیل ہیں. ہمارے ملک کے زرعی شعبہ کے مزدور اس تحریک سے استفادہ نہیں کرپائے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے باہمی رابطہ سے محروم ہیں ۔ اور حضرات مورد انجن کواپنے مفادات کا دن کہتے ہیں ان کی تمام تر کوش ہی ہوتی ہے کہ ہر دور میں قائم انان میانی و یا پیدانہیں ہوئی اوران میں اس پر نہیں ہو پا کر امین او و خال منت کش طبقہ نہ پائیں۔ صنعتی سکون کی ضمانت ہے۔ مردوں کی اکثری تعلیمیافتہ ہی ہے اس ے وہ اپنے آپکو بی طور پر نم نہیں کرپاتے۔ بسا اوقات مالکوں کا آلہ کار بن کر اجتماعی مفادات کو ذاتی مفاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ مزدور ملازمت سے برطرفی کے خوف سے ریڈ یونینوں سے گریز کرتے ہیں۔ بعض اوقات مزدور انجمنیں سیاست وانوں کی آلہ کار بن جاتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے صیح مقصد سے دور ہو جاتی ہیں۔ ان تمام کمزوریوں کے باوجود ہمارے ملک میں مزد در انجمن تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ 1960ء تک ہمارے ہاں کچھ ترمیموں کے ساتھ وہی 1926 ء کاٹریڈ یونین ایک چل رہا تھا ۔ 1960ء میں اس ایک میں پھر ترمیم کی گئی جس کی رو سے مل مالکان کے لئے لازمی ہو گیا کہ وہ مزدور یونینوں کو تسلیم کریں اور سودا کاری کے ایجنٹ کی حیثیت سے ان سے گفت و شنید کریں۔ 1965ء میں کم از کم اجرت اور سماجی تحفظ کے قوانین نافذ کئے گئے ۔ 1969ء میں لیبر پالیسی بنائی گئی اور اس میں مالک اور مزدور کے تعلقات پر زور دیا گیا ۔ 1972ء میں ایک اور لیبر پالیسی وجود میں آئی جس میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے مزید موثر اقدامات کئے گئے۔ حاصل کلام: مزدور انجمن تحریک کو صحت مند بنیادوں پر چلانے کیلئے حکومت پاکستان وقانوقتا اقدامات کرتی رہی ہے جن سے تقیہ ر دوروں کی فلاح و بہود میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حکوت ایک نئ لیبر پالیسی وضع کرنے کی کوشش کر ہی ہے تا کہ ایک جانب رہی صنعتی سکون قائم ہو کر وی پیداوار میں اضافہ ہواور دوسری جانب محنت کش طبقے کو اس کا جائز حق دلانے کے اقدامات کئے جائیں۔
روزگار کی کیفیت
پاکستان میں بے روزگاری کی صورتحال دو خصوصیات کی حامل ہے: شہری علاقوں میں کھلی بیروزگاری دیہی علاقوں میں نیم بے روزگاری بیروز گاروں کا تقریباً 64 فیصد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کی عمر دس برس اور چوبیس برس کے درمیان ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو اسکول اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر روز گار ڈھونڈتے ہیں اور جب تک روز گار نہیں ملتا بے کار رہتے ہیں ۔ گویا یہ بے روزگاری زیادہ تر کشمکشی نوعیت کی ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں بیروزگاری کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ زرعی شعبے میں مستور بیروزگاری ایسی بے روزگاری جو بظاہر نظر نہیں آتی لیکن در حقیقت موجود ہوتی ہے ) کافی زیادہ ہے۔ معاشی زبان میں ہم یوں (ایسی بے روز بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی مختم پیداوار زرعی شعبے میں صفر ہے۔ زرعی پیشے میں اس قدر بیروزگاری کا ہی نتیجہ ہے کہ لوگ روز گار کی سکتے تلاش میں دیہات سے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح وہ مسائل جنم لے رہے ہیں جو شہروں میں آبادی کے اضافہ کا لازمی نتیجہ م پیداوار زدن ہوتے ہیں یعنی مکانات کی فراہمی تعلیم وصحت کی سہولتوں کا مہیا کیا جاتا، پانی اور بلی کی فراہمی کے مسائل۔ افرادی قوت کی نقل مکانی: ملک کے اندر بیروزگاری کے مسئلہ نے جہاں ایک طرف آبادی کے دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی میں اضافہ کر دیا ہے وہاں بیرون ملک ہجرت میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطی کے ممالک کی قومی آمدنیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ تیل کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس میں سے اضافہ ہوا ہے مجیر بنائیں اور دوسرے کا کے نتیجہ میں ان ممالک میں ترقیاتی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے ان ممالک کو مختلف قسم کے ہنر مند اور یم ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے بڑی تعداد میں انجینر بلاتین اور دوسرے کارکن پاکستان اور دوسرے ممالک سے حاصل کئے ہیں گذشتہ برسوں کے دوران بیرون ملک جانے والے لوگوں کی تعداد برابر بڑھتی جارہی ہے۔ بیرون ملک ہنر مند افراد کی طلب میں نمایاں اضافہ کے پیش نظر حکومت پاکستان نے اپنے کارکنوں کی فنی تربیت کے بڑے پیمانے پر انتظامات کئے ہیں۔ 1976 ء سے 1980ء کی درمیانی مدت میں پچاس ہزار افرادکی فنی تربیت کا بندو بست کیا گیا اور اس مدت میں اس اسکیم کے تحت 16285 افراد نے ٹرینگ مکمل کی۔ حکومت یہ کوشش بھی کر رہی ہے کہ موجودہ تکنیکی تربیت کے اداروں کی تعد اد دوگنی کر دی جائے۔
نقل مکانی کے اثرات
ملک سے باہر جانے والے افراد کی نقل مکانی نے ملکی معیت پر کئی موافق اور غیر موافق اثرات مرتب کئے ہیں۔
موافق اثرات
بیرون ملک روزگار کے مواقع نے اندرون ملک بے روزگاری کے مسئلہ کی شدت کو کافی کم کر دیا ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے افراد کثیر مقدار میں زر مبادلہ وطن بھیج رہے ہیں جو ملک کی ادائیگیوں کے توازن کے مدد خسارہ کو دور کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ حکومت نے باہر کام کرنے والے لوگوں کو بہت سی ایسی ترغیبات دی ہیں جو انہیں ملک کے اندر روز گار بڑھانے جو لوگ بیرون ملک ہجرت کرتے ہیں انہیں ایک اجنبی ماحول میں رہنے اور کام کرنے کا موقعہ ملتا ہے، اس طرح ان والی صنعتوں کے قیام پر آمادہ کر سکیں۔ میں خود اعتمادی اور روشن خیالی پیدا ہوتی ہے۔
غیر موافق اثرات
میں ی تعداد ہی ہنر مند افراد کے باہر چلے جانے سے کئی عبوں میں افرادی قوت کی قلت پیدا ہوئی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں دقت پیش آرہی ہے۔ یا یا بیرون ملک سے وافر مقدار میں ملک کے اندر آنے والی رقم یا تو امان عیش کی درآمد پرخرچ کی جاری ہیں یا مین اور جائیداد کی خرید پر خرچ ہو رہی ہیں ، اس سے ان کی قیمتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کے اس صورتحال سے ساجی بے اطمینانی بھی جنم لے رہی ہے کیونکہ باہر کی دولت نے بعض لوگوں کے معیار زندگی میں آنا فانا انقلاب برپا کر دیا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے اپنے وسائل سے تجاوز کر رہے ہیں جس سے قومی بچت متاثر ہو رہی ہے۔ لیکن حکومت ان مسائل سے واقف ہے اور وہ مناسب تدابیر کے ذریعہ انہیں حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تربیت یافتہ افراد کی قلت دور کرنے کے لئے تربیتی اداروں کی کار کردگی بہتر بنائی جارہی ہے۔ نئے تربیتی ادارے قائم کئے جارہے ہیں اور زرمبادلہ کے بہتر استعمال کے لئے بیرون ملک کام کرنے والے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ ملک میں صنعتیں قائم کریں تا کہ ملک پیدا ۔ کے اندر روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
مختلف پیشوں کے لحاظ سے روزگار کی کیفیت
مختلف پیشوں میں روزگار کے مواقع کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زرعی ر لینے سے یہ کہ زرعی شعبہ میں برسر روز گار لوگوں کی بھاری اکثریت یعنی 71.7 فیصد لوگ کھیتی باڑی، پرورش حیوانات ، جنگلات اور ماہی گیری کے شعبوں سے روزی کماتے ہیں اور 14.7 فیصد لوگ پیداوار سے متعلق دیگر کاموں سے پاٹرانسپورٹ ہے یا پھر مزدوری کر کے روزی حاصل کرتے ہیں۔ شہری علاقوں میں تقریبا 40 فیصد لوگ پیداوار اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ، ٹرانسپورٹ میں اور مزدوری کر کے روزی کماتے ہیں۔ اکنامک سروے 08-2007 ء میں ایک جائزے پر چلتاہے کہ زراعت اور متعلقہ پیوں میں روزگار حاصل کر نے والوں کا تاب 91-1990ء میں 5115 فیصد سے کم ہوکر 08-2007ء میں 43.61 فیصد ہو گیا کان کی اور صنعت سے متعلق کارکنوں کا تناسب 12.84 فیصد سے بڑھ کر 13.65فیصد ہو گی اور تغیرات کے کارکنوں کا تناسب 638 فیصد سے بڑھ کر 66 فیصد ہوگیا۔ بیل گیس اور پانی سے متعلق کارکنوں کا تناسب 0.59 فیصد سے بڑھ کر 0.79 فیصد ہو گیا اور ٹرانسپورٹ سے متعلق کارندوں کا تناسب 1990 اور 2008ء کے درمیان 48 فیصد سے بڑھ کر 539 فیصد ہو گیا۔
بیروزگاری
کامل بیروزگاری اور نیم بے روزگاری پاکستان کے معاشی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔ الف) دیہی علاقوں میں گھر یلو اور چھوٹے پیمانے کی صنعتیں بہت بڑی تعداد میں لگائی جائیں تاکہ ان علاقوں کے محنت کش اپنے گھروں کے قریب ہی روزگار حاصل کر سکیں۔ زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جائے تا کہ زراعت پیشہ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہو اور وہ زیادہ بچت کر کے سرمایہ کاری پر خرچ کریں۔ بیرون ملک کام کرنے والے افراد کے ارسال کردہ زرمبادلہ کو سامان تعیش کی درآمد کی بجائے اشیائے سرمایا اور خام مال کی درآمد پر خرچ کیا جائے تا کہ ملک کی زرعی اور صنعتی ترقی تیز رفتاری سے بڑھ سکے۔ مختلف ترغیبات کے ذریعہ بیرون ملک کام کرنے والے لوگوں کو اپنے وطن میں صنعتیں قائم کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔ من حیث القوم سادگی کو اپنایا جائے اور بے دریغ صرف دولت اور نمود ونمائش سے پر ہیز کیا جائے۔ محنت کش طبقے کو اس کا جائز حق ضرور دیا جائے تا کہ وہ قومی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے۔ جازب محنت میکنالوجی استعمال کی جائے اس سے روزگار کے مواقع میں وسعت پیدا ہوگی۔ ملک کے اندر افراط زرکی روک تھام کی جائے، اس طرح ملکی کرنی کی قیمت میں استحکام پیدا ہوگا اور قومی بچت کو ملے فروغ ملے گا۔ آمد کے لئے اشیاء بنانے والی صنعتوں کے قیم کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی زرمبادل کا کر اس سے اشیاء سرمایہ درآمد کی جاسکیں۔ ملک کے اندر اشیائے سرمایہ بنانے کی صنعتوں کا قیام زیادہ سے زیادہ تعداد میں عمل میں لایا جائے تا کہ قیمتی زر مبادلہ بچایا جاسکے۔ ملک کی تعلیمی پالیسی ملی تقاضوں کے مطابق مرتب کی جائے جو ملک کے اندر جدید تم کی ٹیکنالوجی کواپنانے میں مدد گار ثابت ہو اور قومی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کا موجب بنے۔ بیرونی امداد صرف پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کی جائے جس سے ملک کی زرعی او صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ خوف خدا، جذ بہ حب الوطنی اور دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دے کیونکہ صرف اسی صورت میں قوم ہر شعبہ میں ترقی کر سکتی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں مزدورا مجمن تحریک" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ